تین روشن ستارے

اس سے پہلے کہ ہم ایک اور اہم سالگرہ کا تذکرہ کریں مناسب ہوگا کہ گزشتہ کالم میں جس تقریب کا ذکر کیا اس کا اپنے نئے وزیراعظم کی حلف برادری کی تقریب سے موازنہ کرلیا جائے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ حلف اُردو کی بجائے انگریزی میں پڑھا گیا۔ حلف برادری کی رسم فیصل مسجد کی بجائے ایوان صدر میں منعقد ہوئی۔ حلف اُٹھانے کے بعد بھی وزیراعظم اور اُن کے ہزاروں مداحوں نے فیصل مسجد میں شکرانے کے نفل نہ پڑھے۔ یہی حال ہر صوبائی اور وفاقی کابینہ کے نئے اراکین کی حلف برادری کا ہے۔ برطانیہ کی ملکہ سرکاری تقریبات کے لئے گرجا گھر کا رُخ کرتی ہیں اور ہم‘ جو اپنے بے حد وحساب اسلامی جوش وجذبہ کا اظہار کرتے نہیں تھکتے‘ مساجد کو کلیدی مقام دینے کاہر اچھا موقع گنوا دیتے ہیں۔ یہاںتک پہنچا تو بے ساختہ میرادھیان اپنے پڑوسی ملک بھارت کی طرف گیا۔ 1947 ء سے لے کر آج تک جو فرد بھارت کے صدر کے طور پر حلف اُٹھاتا ہے وہ سب سے پہلے (اس میں آج تک کوئی ناغہ نہیں ہوا) اجمیر شریف حاضری دیتا ہے۔ اظہار عقیدت کے لئے خود چادر چڑھاتا ہے‘ دیگیں تقسیم کرواتا ہے اور زائرین (جن کی واضح اکثریت ہمیشہ خوش عقیدہ ہندوئوں پر مشتمل ہوتی ہے) کے ساتھ مل کر اپنی کامیابی کے لئے لمبی لمبی دُعائیں مانگتا ہے۔ ؎ پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانوں سے اب آیئے دوسری اور پہلے جتنی اہم سالگرہ کی طرف چلتے ہیں۔ چھ جون 1916 ء (97 سال قبل) طبقہ امراء سے تعلق رکھنے والی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون نے لندن کے مضافات میں Epsom کے مقام پر ہونے والی گھوڑوں کی مقبول عام دوڑ میں ایک تیز رفتار گھوڑے کے آگے چھلانگ لگا دی۔ تاریخ میں اپنا نام لکھوانے والی مذکورہ خاتون کا نام تھا Emmeline Pankhurst۔ تیز رفتار دوڑنے والے گھوڑوں کے سامنے چھلانگ لگانے کا مقصد خودکشی کرنا نہیں تھا بلکہ خواتین کو حق رائے دہی نہ دیے جانے کے خلاف اتنا بڑا احتجاج کرنا تھا کہ اہلِ برطانیہ کا ضمیر جاگ اُٹھے۔ اس بہادر خاتون نے 1903ء میں اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور اپنی تحریک (جو ہر گز پرُ امن نہ تھی) کا نام رکھا Suffragette ۔ اس تحریک میں حصہ لینے والی خواتین نے اپنا احتجاج بھوک ہڑتالوں سے شروع کیا مگر تان خالی مکانوں کی ایک بڑی تعداد کو آگ لگانے پر ٹوٹی۔ برطانوی حکومت کو 1913ء میں اس جلائو گھیرائو والے احتجاج کو روکنے کے لئے ایک نیا قانون منظور کرنا پڑا جس کا نام اتنا دلچسپ ہے کہ مثالی کہا جا سکتا ہے (Cat and Mouse Act)۔ میں صرف اس قانون کے نام سے واقف ہوں۔ مندرجات سے نہیں ورنہ آپ کوضروربتاتا۔ پہلی جنگ عظیم (1914-18ء ) میں خواتین نے اتنا بھرپور حصہ لیا کہ ارباب اقتدار کو تسلیم کرنا پڑا کہ خواتین کی زبردست کاوش کے بغیر جنگ میں کامیابی ممکن نہ تھی۔ 1918 ء میں خواتین کے ایک محدود طبقہ کو ووٹ دینے کا حق دیا گیا اور دس سال بعد 1928 ء میں خواتین کوووٹ ڈالنے کے وہی حقوق پہلی بار دیئے گئے جو صرف مردوں کا استحقاق سمجھے جاتے تھے۔یورپ کے سب سے امیر اورترقی یافتہ ملک Switzerland (جس کے بینک دُنیا بھرکے سیاست دانوںاور ٹیکس چوروں کی حرام کی کمائی خفیہ اکائونٹ میں چھپا رکھنے کے لئے مشہور ہیں) میں آج بھی عورتوں کوووٹ دینے کا حق حاصل نہیں اورنہ ہی وہ اس حق تلفی پرناراض نظرآتی ہیں۔ لگتا ہے کہ اُ نہیں اس محرومی کی رتی بھرپروا نہیں۔ شاید وہ یہ جانتی ہیں کہ مرد تومحض ایک کٹھ پتلی ہیں۔ ان کے اشارے پر چلتے ہیں۔ وہی کریں گے جو وہ چاہتی ہیں تو پھر ووٹ دینے کا جنجال کیوں؟ ………………… جس طرح پاکستان کے اخبارات اور ٹیلی ویژن بڑھتی ہوئی مہنگائی اور دہشت گردی‘کراچی اور بلوچستان میں آگ اور خون کی ہر روز گہری ہوتی ہوئی ندیوں کی وحشت ناک خبروں کے لئے وقف ہو کر رہ گئے ہیں اسی طرح برطانوی اخبارات کے صفحہ اول پر سرکاری رازوں کے پے در پے انکشافات کی چونکا دینے والی خبروں کا اس طرح قبضہ ہو چکا ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔انسانی حقوق کی خاطر دُنیا بھر میں (ماسوائے پاکستان کے جہاں صرف گفتار کے غازی رہتے ہیں) عملی جہاد کیا جا رہا ہے۔ جان کو ہتھیلی پر رکھ کر۔ بااُصول باضمیر اور ناقابل یقین حد تک بہادر لوگوں نے اپنی قربانیوں سے جو کہکشاں روشن کی اُس کے تین روشن ترین ستاروں کے نام ہیں: Bradlly Manning Edward Snowden Julian Assange / ۔ پہلے دو امریکی ہیں جبکہ تیسرا سویڈش۔ پہلا بہادر شخص امریکی فوجی ہے۔ عمر صرف 25 برس۔ تین سال سے قیدِ تنہائی میں رکھے جانے کے بعد فوجی عدالت میں غداری کے جرم میں چلائے جانے والے مقدمہ (Court Martial) کی پیشیاں بھگت رہا ہے۔ متوقع سزا عمر قید۔ امریکی حکومت کا بس چلے تو اُسے سزائے موت دلائے‘ پھر بھی ایک ادنیٰ سپاہی کی بغاوت پر پیچ و تاب کھانے والے حکمرانوں کے دلوں کو نہ قرار آئے اور نہ ان کا غصہ ٹھنڈا ہو۔ رہتی دُنیا تک تاریخ میں نام لکھوانے والے یہ بہادر (یہ لفظ بھی کمز ور لگتا ہے) نوجوان سپاہی سات لاکھ خفیہ برقی پیغامات کا متن منظر عام پر لایا۔ دُنیا بھر میں اُن کی تشہیر اور تقسیم کا کام سویڈیش باشندے Assange نے کر دیا۔ دُنیا بھر میں یہ لاکھوں خفیہ Wikileaks\' E-mails کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہیں۔ انگریزی زبان کے ایک روزنامے نے Wikileaks کا وہ حصہ اپنی Website پر شائع کر دیا جس کا موضوع ہمارے حکمرانوں کے امریکی سفیر کے درمیان ہونے والے خفیہ مذاکرات تھے۔ پتہ چلا کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ حکمران طبقہ کا ہر فرد (جو برسر اقتدار رہ چکا ہے یا تخت نشین ہونا چاہتا ہے) جانتا ہے کہ جب تک واشنگٹن میں اُس کے نام کے سامنے سبز بتی روشن نہ ہوگی وہ حزبِ مخالف کے ویرانوں میں مارا مارا پھرتا رہے گا۔ یوسف ِبے کارواں کی طرح۔ Assangeکو برطانوی حکومت گرفتار کر کے امریکی حکومت کے حوالہ کرنا چاہتی ہے۔ اسی لئے وہ ایک سال سے لندن میں لاطینی امریکہ کے ایک گمنام ملک ایکواڈور (Ecuador) کے سفارت خانہ میں پناہ گزین ہے۔ عمارت کے باہر پولیس24 گھنٹے موجود رہتی ہے کہ امریکی غدار کے باغی مددگار کو گرفتار کر کے اپنے آقائوں کے سپرد کیا جا سکے۔ پاکستان میں مفادات کے حصول کی دوڑ لگی ہوئی ہے کہ کون کم از کم قیمت پر قومی مفادات کو دوسروں کے مفادات پر قربان کرنے کے لئے تیار ہے۔ ایک میرتقی میرتھے کہ ہاتھ نہ پھیلانے کا یہ معقول عذر پیش کیا کہ اُن کا ہاتھ سرہانے رکھے رکھے سو گیا ہے۔ ایک ہم ہیں کہ سر اتنی دیر تک اور اس طرح جھکائے رکھا کہ اب ہمیں یاد نہیں رہا کہ سر اُٹھا کر کس طرح چلتے ہیں؟ حمیت کے بارے میں اقبالؔ نے یہ بری خبر سنائی کہ وہ تیمور کے گھر سے جا چکی ہے۔ ہمارے گھر آئی ہی نہیں تو جاتی کیسے؟ دُور نہ جایئے اپنے امریکہ نواز حکمرانوں کو ہی دیکھ لیں آپ کی نظریں وہیں ٹھہر جائیں گی۔ قومی مفادات کو فروخت کرنے کا کام جنرل ایوب نے شروع کیا ۔ اُس نے ہمارے تین دریا اونے پونے داموں بھارت کے ہاتھوں فروخت کردیئے۔ امریکہ کو بڈہ پیر کے مقام پر پہلا جاسُوسی ہوائی اڈہ بنانے دیا۔ کسی کو پوچھے یا بتائے بغیر۔ آیئے اب ہم اس نکتہ کی طرف لوٹ چلیں جہاں سے بات شروع ہوئی تھی۔Manning اورAssangeکے درخشاں ناموں کے درمیان جوتیسرا نام لکھا گیا وہ Edward Snowden کاتھا جو ایک ہفتہ کے اندر اتنا مشہور ہوگیا ہے کہ تعارف کا محتاج نہیں۔ پچھلے دنوں اس نے یہ زلزلہ پیدا کر دینے والا انکشاف کیا کہ امریکہ کے جاسوسی ادارے E-Mail بھیجنے کا کاروبار کرنے والی بڑی بڑی کمپنیوں سے 20 ارب E-Mail حاصل کر چکے ہیں۔ یہ شخص اب اپنی جان بچانے کے لئے ہانگ کانگ میں پناہ گزین ہے اور مستقل طور پر ایک چھوٹے سے برفانی جزیرہ Iceland (جہاں نہ امریکہ کی دال گلتی ہے اور نہ وہاں کی برف امریکی دبائو کی تپش سے پگھلتی ہے) میں سیاسی پناہ لینے کا طلبگار ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں