نیرنگیِ زمانہ

فیض ؔکے ایک مشہور مصرع کی تضمین کرتے ہوئے اس کالم کی ابتداء یہاں سے کی جاتی ہے کہ برطانیہ میں رہنے والے قانون کے سابق معلم‘ برطانوی قانون کے طالب علم اور رُبع صدی سے قانون کی پریکٹس کرنے والے کی نظر برطانوی پارلیمنٹ کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ بار بار جاتی ہے تو کیا کیجیے؟ وہ یقینا ہمارے شعراء کی فرضی (؟) محبوبہ کی طرح دلکش اور دلفریب ہوگی۔ برطانوی پارلیمنٹ تین حصوں پر مشتمل ہے۔ دارالعوام (House of Common)‘ دارالامراء(House of Lords) اور کرائون (Crown)۔ یہ لفظ ناقابل ترجمہ ہے۔ ملتا جلتا مفہوم بادشاہت کے ادارہ کی ترکیب استعمال کر کے بیان کیا جا سکتا ہے۔ ویسٹ منسٹر ہال (Westminster Hall) کو آپ برطانوی پارلیمنٹ کی عمارت کے ماتھے کا جھومر سمجھ لیں۔ وسعت اور شان و شوکت میں بے مثال۔ اس کی تعمیر 1097ء میں شروع ہوئی اور دو سالوں بعد 1099ء میں مکمل ہوئی۔ بارہ برس پہلے ایک یادگار تقریب میں اس ہال کی تعمیر کے 900 سال گذر جانے پر خدائے ذوالجلال کا شکر ادا کیا گیا۔ ہال کی چھت سے دُنیا بھر کے سیاحوں کی نظریں نہیں ہٹتیں‘ چونکہ وہ ہزار سال پرانی لکڑی کے شہتیروں سے بنایا گیا ہے اور بدستور قائم و دائم ہے (پاکستان میں گھروں کی چھتوں پر کئی ٹن لوہا اور سیمنٹ کی موٹی تہہ بچھانے والوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے) ۔1834ء میں پارلیمنٹ کی عمارت کو آگ لگ گئی (یہ پڑھ کر آپ کے ذہن میں یہ خیال ضرور آیا ہوگا کہ یہ کام ہو نہ ہو۔ طالبان کا ہوگا)۔ پارلیمنٹ کی عمارت کی تعمیر نو میں 20 برس لگ گئے۔ اچھا ہوا کہ مذکورہ بالا تاریخی ہال آگ سے محفوظ رہا۔ یہ نہ صرف تاج پوشی کی تقریبات کے لیے استعمال ہوتا ہے‘ بلکہ ایوانِ عدل بھی کئی بار بنا۔ پارلیمنٹ کو بارود سے اُڑانے کی ناکام سازش کے سرغنہ Guy Fawkes (جس کی یاد میں ہر سال ایک دن ملک بھر میں آتش بازی کی جاتی ہے اور دُنیا کے غالباً سب سے مشہور دہشت گرد کا پتلا جلایا جاتا ہے) اور ایک بادشاہ (چارلس اوّل ) پر جمہوریت کے منافی قدم اُٹھانے اور 1215ء میں لکھے گئے پہلے معاہدئہ عمرانی (Magna Carta) کی خلاف ورزی کرنے کے جرم میں مقدمات کی سماعت بھی اسی ہال میں ہوئی۔ ہال میں جس جگہ چارلیس اوّل بطور ملزم کھڑا کیا گیا وہاں فرش پر ایک یادگاری تختی لگی ہوئی ہے۔ میں پارلیمنٹ کسی کام جائوں تو اس ہال سے گذرتے گذرتے میرے پائوں اس تختی کے قریب آتے ہی رُک جاتے ہیں۔ چشم تصور سے میں بادشاہ پر چلائے جانے والے مقدمہ کی کارروائی اور موت کی سزا دیے جانے کا منظر دیکھتا ہوں اور بوجھل قدموں سے آگے بڑھتا ہوں۔ نیرنگی زمانہ پر غور کرتا ہوا۔ فرش پر پیتل کی اور بھی تختیاں نصب ہیںجو کئی اور تاریخی واقعات کی یاد دلاتی ہیں۔ برطانیہ کے بادشاہ (یا ملکہ) وفات پا جائیں تو دیدار عام کے لیے اُن کی میت کو اسی ہال میں رکھا جاتا ہے‘ جسے انگریزی میں To Lie in State کہتے ہیں۔ ونسٹن چرچل برطانوی تاریخ میں واحد شخص ہیں جو بادشاہ نہ ہونے کے باوجود اِس اعزاز کے مستحق سمجھے گئے۔ آخری بار مرحوم کا چہرہ دیکھنے والوں کی لمبی قطار میں شاہی خاندان کے افراد بھی کھڑے ہوئے۔ دارالعوام میں بنچوں پر لگائی جانے والی گدّیوں (جو یقینا آرام دہ ہوں گی چونکہ کئی ارکان تصویروں میں اُونگھتے نظر آتے ہیں) کا رنگ سبز ہوتا ہے اور ہائوس آف لارڈز میں سرخ۔ مجھے علم نہیں کہ دونوں ایوانوں کی نشستوں کے لیے دو مختلف رنگ کیوں چنے گئے۔ مگر ایک بات پکی ہے کہ کم از کم چھ سو سال سے ان رنگوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہر سال ماہ اِکتوبر میں ملکہ برطانیہ نئے پارلیمانی سیشن کا رسمی افتتاح کرنے آتی ہیں اور اپنے وزیراعظم کی (یا اُس کے ترجمان کی) لکھی ہوئی تقریر لفظ بہ لفظ پڑھ کر اس انداز میں سناتی ہیں کہ قطعاً گمان نہیں ہوتا کہ His master\'s voice والا معاملہ ہے۔ اس تقریر کو بہت اہمیت دی جاتی ہے چونکہ اس میں لوگوں کے ووٹوں سے بننے والی حکومت کی پالیسی اور ایجنڈا اور سالانہ لائحہ عمل کا اعلان کیا جاتا ہے۔ دارالعوام کی طرح ہائوس آف لارڈز کا اجلاس ہر ہفتے کے پہلے پانچ دن ٹھیک ڈھائی بجے بعد از دوپہر شروع ہو جاتا ہے اور آدھی رات تک جاری رہتا ہے‘ اور کبھی کبھی ساری رات۔ 2010 ء سے لے کر 2012 ء تک دو سالوں میں ہائوس آف لارڈز دارالعوام سے ایوان بالا کوبھیجے گئے80 مسوداتِ قوانین (BILLS )پر تفصیلی بحث اور نظر ثانی کی گئی۔ کل 10,031 تبدیلیوں پر غور کیا گیا۔ اس کام میں کل 1,182 گھنٹے صرف ہوئے۔ مسودہ قوانین میں کی جانے والی تبدیلیوں کی تعداد 2,496 تھی اور کل 49 مجوزہ قوانین (Bills) کو قانونی شکل دی گئی جس کے بعد وہ ایکٹ (Act) کہلاتے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے جب مجھے مرحوم بابائے اُردو یاد آئے۔ کتنا اچھا ہوتا کہ ہمارے پاس ان پارلیمانی الفاظ کا اُردو میں ترجمہ ہوتا۔ اس سے پہلے کہ برٹش پارلیمنٹ کے خشک اعداد و شمار پڑھ کر آپ پر غنودگی طاری ہو جائے‘ میں نے آپ کو ایک دلچسپ قصہ سنانے کا فوری قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ 27 جون کے روز نامہ گارڈین کے صفحہ 28 پر ایک چالاک شخص کے جاذب نظر چہرہ کی تصویر کو اچھی طرح دیکھے بغیر باقی اخبار پڑھنا ممکن نہ تھا۔ نام تھا Marc Rich ۔ اسم بامسمیٰ۔ صرف نام کا امیر نہیں بلکہ ارب پتی۔ بے حد خراب شہرت رکھنے والے اس شخص کی زندگی اتنی ڈرامائی تھی (جیسے نصف صدی قبل Howard Hughrsکی) کہ اُس پر ہالی وڈ میں ایک نہ ایک دن ضرور فلم بنائی جائے گی۔موصوف (جو اَب مرحوم ہو چکے ہیں) دوسرے رُسوائے زمانہ کرداروں کی طرح امریکی تھے۔ 78 سال کی عمر میں سوئٹزرلینڈ کے ایک پہاڑی گائوں میں (جہاں وہ سالوں سے جلا وطن تھے)۔ وفات پائی۔ تیل کی خرید و فروخت میں اربوں ڈالر کمائے۔ ٹیکس کے نادہندگان میں سرفہرست تھے۔ عدالت نے اس جرم میں کڑی سزا دی مگر صدر کلنٹن سے دوستی کام آئی (جس کی بنیاد کلنٹن کے انتخابی فنڈ کو بھاری چندہ دینا تھا)۔ امریکی صدر نے اپنے خصوصی اور متنازعہ اختیارات استعمال کرتے ہوئے مجرم کو معافی دے دی۔ یہودی النسل تھے‘ اس لیے تدفین اسرائیل میں کی گئی۔ ٹیکس نہ دینے کے علاوہ موصوف نے امریکی حکومت کی لگائی ہوئی سخت پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 1979-81ء میں ایران سے کئی لاکھ بیرل تیل خریدا اور عالمی مارکیٹ میں بے دھڑک فروخت کیا۔ ایک محتاط اندازہ کے مطابق Rich کے ذمہ 48 ملین (یعنی چار کروڑ اسی لاکھ ڈالر ٹیکس واجب الا دا تھا)۔ RICH بہت کم گو تھا۔ اخباروں اور اخباری نمائندوں سے سخت پرہیز کرتا تھا۔ جس نے RICH کی سوانح عمری لکھی‘ اس نے بعد از وفات تبصرہ میں کہا ’’Rich کو اپنے کیے کا ہرگز کوئی افسوس نہ تھا۔ ندامت کا کوئی داغ نہ فیـض صاحب کے دل پر تھا اور نہ اِس رُسوائے زمانہ شخص کے اُس دل پر جس شخص نے 26 جون کو دھڑکنا بند کر دیا۔ Rich کا یہ قول اس کی سوانح عمری میں درج ہے۔ ’’میں ایک کاروباری شخص ہوں۔ سیاست سے میرا دُور کا واسطہ نہیں۔ کچھ لوگ میرے ہاتھ تیل فروخت کرنا چاہتے ہیں اور کچھ مجھ سے خریدنا چاہتے ہیں۔ میرا کام اِدھر کا مال اُدھر کرنا ہے۔ یہ کس قانون کے تحت جرم بنتا ہے؟ بقولRich ایرانی حکومت جانتی تھی کہ یہ شخص ایران کا تیل اسرائیل کے ہاتھ فروخت کرے گا اور اسرائیل حکومت جانتی تھی کہ یہ ہمارا اسلحہ ایران کے ہاتھ فروخت کرے گا۔ جب ان دونوں حکومتوں نے چشم پوشی کرلی تو دوسرے کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے‘ میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں