لارڈ نذیر کے ساتھ امتیازی سلوک

17 جون اور 20 جون کو (یعنی ایک ہی ہفتہ میں دو بار) میں ہائوس آف لارڈز میں گیا۔ 17 جون کو عشائیہ تھا اور 20 جون کو ایک نوجوان صحافی کی کتاب کی رُونمائی تھی۔ دونوں دفعہ میرے میزبان لارڈ نذیر احمد تھے۔ انہیں دیکھتا ہوں تو مجھے برطانوی پارلیمنٹ کے ایوان بالا کا نام ’’دارالامراء‘‘ جو ہم اُردو میں لکھتے ہیں وہ بالکل غیرموزوں لگتا ہے۔ لارڈنذیر کے والد کا تعلق محنت کش طبقہ سے تھا (وہ میر پور سے برطانیہ محنت مزدوری کرنے آئے اور ساری عمر یہی کام کیا یعنی ایک فیکٹری میں ورکر رہے) لارڈ نذیر گیا رہ برس کی عمر میں برطانیہ آئے۔ سکول اور کالج کی تعلیم یہیں حاصل کی اور محنت کش طبقہ سے اُوپر اُٹھ کر متوسط طبقہ میں شامل ہو گئے۔ وہ شمالی انگلستان کے ایک صنعتی شہر رادھرم کی مقامی کونسل (جیسے لاہور کارپوریشن) کے رُکن منتخب ہوئے۔ ظاہر ہے لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر چونکہ محنت کشوں کے ہر علاقہ پر آج بھی لیبر پارٹی کی اجارہ داری ہے (البتہ ٹونی بلیئر نے اس کا وہی حال کیا جیسے پاکستان میں زرداری صاحب نے پیپلز پارٹی کا کیا ہے) 1998ء میں ہائوس آف لارڈز کے تاحیات غیر موروثی (چونکہ موروثی لارڈ اور ہوتے ہیں) رُکن بننے والے نہ صرف پہلے مسلمان ہیں بلکہ 40 سال کی عمر میں یہ اعزاز پانے والے تاریخ کے سب سے کم عمر ترین رُکن بھی۔ لارڈ نذیر کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اُنہیں انجیل مقدس کی بجائے قرآن پاک پر حلف اُٹھانے کی اجازت دینے میں کوئی پس و پیش نہ کی گئی۔ قابل تعریف بات یہ ہے کہ لارڈ نذیر نے اگست2006ء میں اُس وقت کے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو کھلا خط لکھ کر ان کی خارجہ پالیسی کی سخت مخالفت کی۔ لارڈ نذیر کا سیاسی کردار متنازع اس لئے ہے کہ وہ پاکستانی سیاست میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ دوہری شہریت کی پابندیوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ جنرل پرویز مشرف کے آخری دنوں میں میاں نواز شریف جس خصوصی طیارہ سے اسلام آباد پہنچے اُس میں لارڈ نذیر بھی سوار تھے۔ اُن کی رفاقت بھی میاں نواز شریف کو ہوائی اڈہ سے ملک بدر کرنے سے نہ روک سکی۔ اس طرح کی دُوسری کئی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں میاں نواز شریف کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی خصوصی دعوت دی گئی۔ 25 دسمبر2002ء کا دن لارڈ نذیر کے لئے ایک بڑی مصیبت کا دن تھا۔ وہ برطانیہ کی سب سے بڑی شاہراہ ایم آئی پر اپنی اہلیہ اور والدہ کے ہمراہ جا رہے تھے‘ بدقسمتی سے موبائل فون کے استعمال سے اُن کی توجہ اتنی بری طرح متاثر ہوئی کہ اُن کی کار کی ٹکر سے ایک شخص ہلاک ہو گیا۔ (جو اپنی خراب ہوجانے والی کار سے نکل کر محفوظ جگہ جانے کی کوشش کر رہا تھا۔) برطانوی پولیس نے لارڈ نذیر کے مرتبہ کاہر گز لحاظ نہ کیا۔ دستور کے مطابق تفتیش کر کے اُن کا چالان عدالت میں پیش کیا گیا۔ جرم ثابت ہوگیا تو اُن کا ڈرائیونگ لائسنس ایک سال کے لئے معطل کر دیا گیا اور اُنہیں چھ ہفتے جیل کی سزا دی گئی۔ اس عذاب کو لارڈ نذیر نے بڑی ہمت اور بہادری سے جھیلا ۔ صد افسوس کہ مذکورہ بالا مصیبت ایک اور بڑی مصیبت کی تمہید بن گئی۔ برطانیہ کے سب سے بااثر اخبار ٹائمز نے ایک دن یہ خبر شائع کر دی کہ لارڈ نذیر نے پاکستان میں کسی ٹیلی ویژن پروگرام کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ الزام لگایا ہے کہ اُنہیں جیل کی سزا برطانیہ کی طاقتور یہودی لابی (فلسطین دوستی اور مسلمانوں کے مفادات کی ترجمانی کے جرم میں) کے دبائو کا نتیجہ تھی۔ اس خبر کی اشاعت سے لیبر پارٹی نے ان کی رُکنیت معطل کر دی اور انہیں تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنی صفائی پیش کرنے کا حکم دیا۔ اب لارڈ نذیر احمد اور لیبر پارٹی کے درمیان ٹھن گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ جب تک اُنہیں اس ٹیلی ویژن پروگرام کی ویڈیو فلم نہیں دکھائی جاتی وہ نہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوں گے اور نہ اپنی صفائی پیش کریں گے۔ ضروری ہے کہ ہائوس آف لارڈز کے دوسرے کشمیری نژاد رُکن لارڈ قربان حسین کا بھی ذکر کیا جائے۔ وہ عمر بھر لیبر پارٹی سے وابستہ رہے۔ اس کی ٹکٹ پر بار بار لیوٹن نامی شہر کے کونسلر منتخب ہوتے رہے مگر عراق پر برطانیہ کے جارحانہ حملہ کے خلاف بطور احتجاج اُس وقت مستعفی ہوئے جب الیکشن میں صرف ایک ہفتہ رہتا تھا۔ وہ لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی میں شامل ہوئے۔ الیکشن میں پھر کامیاب ہوئے اور اس اُصول پرستی کے انعام کے طور پر اُنہیں لارڈ بنا یا گیا۔ لارڈ نذیر کی طرح لارڈ قربان کا تعلق بھی آزاد کشمیر سے ہے۔ غیر کشمیری پاکستانی لارڈ صرف ایک ہے۔ ان کا نام لارڈ شیخ ہے اور آبائی تعلق لاہور سے ہے۔ اُنہیں غیر موروثی لارڈ ٹوری پارٹی نے نامزد کیا۔ لارڈ نذیر کے برعکس وہ پاکستانی سیاست سے دور رہتے ہیں‘ اس لئے جب بھی ملاقات ہو‘ وہ خوش و خرم نظر آ تے ہیں۔ ہائوس آف لارڈز کا تذکرہ سعیدہ وارثی کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا ۔ پیشہ کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ وکالت میں اپنا نام بناتیں‘ اُنہیں ڈیوز بری (Dewsbury) کے حلقہ سے الیکشن لڑنے کے لئے ٹوری پارٹی کا ٹکٹ مل گیا۔ الیکشن ہار گئیں مگر قسمت کا ستارہ چمک اُٹھا۔وہ ایوان بالا کی رُکن بنائی گئیں۔ Baroness کہلاتی ہیں۔ وہ بھی غیر موروثی رُکن ہیں۔ نہ اُن کے والد (جو عام فیکٹری ورکر تھے اور گوجر خان کے ایک گائوں سے نقل مکانی کر کے برطانیہ آئے اور شمالی انگلستان میں آباد ہوئے) ہائوس آف لارڈز کے رُکن تھے اور نہ اُن کی اولاد ہوگی۔ وہ قدامت پسند (Conservative عرف عام میں ٹوری) پارٹی کی اتنی سرگرم رُکن ہیں کہ اس کی صدر رہ چکی ہیں۔ کابینہ کی رُکن ہیں اور اس کے اجلاس میں قمیض شلوار اور دوپٹہ کے ساتھ شریک ہوتی ہیں۔ اب تو بات پرانی ہو چکی ہے مگر وہ کابینہ کے پہلے اجلاس میں پاکستانی لباس پہن کر شریک ہوئیں تو اُن کی تصویریں برطانوی اخبار کے صفحہ اوّل کی زینت بنیں۔ نسل پرست‘ تنگ دل اور کم ظرف انگریزوں (خوش قسمتی سے اُن کی تعداد محاورہ کے مطابق آٹے میں نمک کے برابر ہے) کے سفید سینوں میں تعصب کی آگ بھڑک اُٹھی اور ناپسندیدگی کے سیاہ بادل اِن آتش زیر پا لوگوں کے دل و دماغ سے بلند ہوتے نظر آئے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اُن کے لاکھوں پاکستانی ہم وطنوں (بلکہ ہمارے بھارتی دوستوں خصوصاً پنجاب سے تعلق رکھنے والے ہندوئوں اور سکھوں کا بھی ) دل خوشی سے بھر گیا اور سر فخر سے اُونچا ہوا۔ یہ اتنا انوکھا واقعہ تھا کہ سیاسی اختلافات (میرے اور ان کے درمیان) کا گردو غبار بھی اُس کی یاد محو نہیں کر سکا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں