تیونس کی پرتعیش پارٹی اور مصنوعی دودھ

آیئے ہم آپ کو چار سال پیچھے یعنی 2009 ء میں لے چلیں اور آپ کو ایک مزیدار مگر سچا قصہ سنا ئیں۔ آپ ہمارے ساتھ تیونس کے ایک محل کی طرف چلیں۔ محل کے اندر ہونے والی پارٹی کی حیرت انگیز رونق کو دیکھنے کے لئے بیرونی دیوار کے ساتھ سیڑھی لگائیں اور درختوں کی اوٹ سے جھانکیں ۔آپ کوسب سے پہلے حفیظ جالندھری یاد آئیں گے جنہوں نے مختلف سیاق و سباق میں یہ شعر لکھا تھا : چشم فلک نے آج تک دیکھی نہیں جن کی جھلک آپ کون سی جھلکیاں دیکھیں گے؟ ان کا اندازہ صرف اُس آئس کریم اور دہی سے لگالیں جو خاص طور پر فرانس کے مشہور عشرت کدہ ST. Tropez سے بذریعہ ہوائی جہاز منگوائی گئی تھی۔ کروڑوں پائونڈ کے بے دریغ استعمال سے محل کی نئی آرائش کی گئی تھی۔ اولمپک کھیلوں سے بھی بڑا نہانے کا تالاب۔ ہر طرف سنگ مر مر کے ستون جن پر سونے کی پتریوں کا جال بنا گیا تھا۔ رومن دور کے نوادرات کی بھر مار (جن کی قیمت نہیں لگائی جا سکتی) شیر کا حنوط شدہ سرجس سے پانی فوارہ کی صورت نکل کر تالاب میں گرتا تھا۔ یہ کہنا مشکل تھا کہ تالاب میں پانی زیادہ ہے یا تالاب کے کنارے پڑی اَن گنت بوتلوں میں دُنیا کے سب سے مہنگے انواع واِقسام کے مشروبات (خصوصاً شمپین جس کا نام سن کر ہی پینے والوں کے مُنہ میں پانی بھر آتا ہے) تیونس میں اسراف کے جتنے بھی مظاہرے کئے جاتے ہیں ۔اُن میں یہ پارٹی ایسی تھی کہ شرکا کو ساری عمر یاد رہے اور بُھلائے نہ بُھولے۔ امریکی سفیر ہماری طرح دیوار سے سیڑھی لگا کر محل کے اندر جھانکنے کی زحمت سے اس لئے بچ گیا کہ وہ پارٹی میں شریک تھا۔ جب پارٹی ختم ہوئی تو موذّن کی آواز فضا میں گونج رہی تھی۔ سفیر گھر پہنچا تو یقیناً اُسے سہ آتشوں سے سنبھلنے اور ہوش و حواس مجتمع کرنے میں کافی وقت لگا ہوگا۔ آپ اس کی فرض شناسی کی داد دیں (اس کا ہمارے سفیروں سے موازنہ کریں) کہ وُہ جلد از جلد اپنے دفتر گیا اور واشنگٹن میں اپنی وزارت خارجہ کو مفصل ای میل بھیج کر وہ احوال سنایا جو دیوار کے ساتھ سیڑھی لگا کر اندر جھانکنے والے اچھی طرح نہ دیکھ پائے تھے۔ بہترین مشروبات کی بہتات امریکی سفیر کے ضمیر کو مائوف کرنے میں بری طرح ناکام رہی (جواس مہمان نوازی کا بنیادی مقصد تھا) اس ای میل میں لکھا گیا : ’’تیونس میں افراطِ زر روز بروز بڑھ رہی ہے، بیروز گاری کی شرح بلند ہو رہی ہے، معاشی اُفق پر سیاہ بادل ُمنڈلارہے ہیں مگر حکمران طبقہ اپنی لوٹ مار میں مصروف ہے اور عیش و عشرت میں اتنا غرق ہے کہ اُسے محل کے باہر کی کوئی خبر نہیں۔‘‘غور طلب بات یہ ہے کہ یہ برقی پیغام مل جانے پر امریکی وزرات خارجہ ٹس سے مس نہ ہوئی اور بدستور تیونس کی گلی سڑی حکومت کی سرپرستی کر تی رہی ۔دلیل یہ دی کہ عرب دُنیا میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے خلاف قابل نفرت (عوام کی نظر میں) آمرانِ مطلق کو ہر دل عزیز (عوام کی نظر میں) جمہوری رہنمائوں پر ہمیشہ ترجیح دی جائے گی۔ یہی مستقل امریکی پالیسی ہے۔ آپ اس تناظر کو ذہن میں رکھیں تو آپ کو ہمارے فوجی آمروں (ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف) کو مسندِ اقتدار پر بٹھائے جانے کی منطق زیادہ اچھی طرح سمجھ آئے گی۔ اہل یورپ نے ایشیا اور افریقا (لاطینی امریکہ تو اب ان کے چنگل سے آزاد ہو گیا) کے عوام کو بے وقوف بنانے اور ان کو ہر طرح سے لوٹنے میں مہارت حاصل کر لی ہے۔ لاہور ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر4 پر بیٹھے ہوئے گھٹیا نو سربازوں کی طرح نوٹوں کو دُگنا کرنے کا چکمہ دینے سے بھی نہیں چوکتے۔ لوٹ مار کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ جگہ کی کمی تفصیل بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اس بے رحم استحصال (یعنی لوٹ مار) کا شکار ہونے والے بدنصیبوں کا جسم زخموں سے چُورچُور ہے۔ زخم زیادہ ہیں اور رُوئی کم۔ع تن ہمہ داغ داغ شد، پنبہ کُجا کُجا نہم سارا جسم داغ داغ ہو جانے پر شاعر نے یہی سوال کیا تھا: ع کوئی بتلا ئے کہ ہم بتلائیں کیا میری آنکھوں میں اتنے آنسو نہیں کہ دل کھول کر رویا جا سکے۔ میں اس لئے اتنا دُکھی ہوں کہ میں 45 برسوں سے یورپ میں رہتا ہوں اور اس لوٹ مار کا چشم دید گواہ ہوں۔ صد افسوس کہ بے بس ہوں مگر حیف ہے کہ اس لوٹ مار کا صدیوں سے شکار ہونے والے (جو بے بس ہر گز نہیں) بے حِس ہیں۔ دُور نہ جائیں، اپنے ہی ملک کو لیں جہاں امیر مال مست ہے اور غریب حال مست۔ تبدیلی اس لئے نہیں آتی کہ متوسط طبقہ کی اکثریت ابھی تک مظلوم کی بجائے ظالم کی ساتھی ہے۔ ازرہ ِ کرم آپ اسے لفاظی نہ سمجھیں۔ یورپ کی لوٹ مار اسلحہ کی فروخت سے شروع ہوتی ہے اور ہالی وڈ کی فلموں کی ثقافتی یلغارپر ختم۔ آپ نے کبھی سوچا کہ مغلیہ دور میں نہ سیمنٹ تھا نہ چینی ،نہ مصنوعی کھاد نہ کیڑے مار دوائیاں۔ پھر بادشاہی مسجد اور اتنے زبردست قلعے کس طرح تعمیر کیے گئے ؟ کیا مغل بادشاہ ذیابیطس کے مریض تھے کہ مٹھاس کے بغیر مشروبات پینے پر مجبور تھے؟ کیا زراعت اور کاشتکاری سے لاکھوں کروڑوں افراد ہزارہا سال سے روزی نہ کماتے تھے؟ کروڑوں پائونڈ کی مالیت کے جنگی طیاروں، ٹینکوں اور توپوں کی زبردستی فروخت (وہی اسلحہ جو افغانستان میں امریکی اورنیٹو افواج کو شکست فاش سے نہ بچا سکا) کو ایک لمحہ کے لئے ایک طرف رکھ دیں، میں آپ کو ایک آسان مثال دُوں گا کہ آپ حیران رہ جائیں گے۔ وہ مثال ہے ماں کے دُودھ کی۔ ہزاروں نہیں لاکھوں سالوں سے ہر ماں اپنے بچے کو اپنا دُودھ پلاتی آرہی ہے۔ ہمارے ہاں انگریز کا راج آیا تو بہت سی اچھی چیزوں کے ساتھ جو برُی چیزیں آئیں اُن میں دُودھ کا پائوڈر اور دُودھ پلانے والی بوتل بھی شامل تھی۔ اب پتہ چلا ہے کہ یہ پائوڈر بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے۔بیس سال ہوئے کہ ایک بین الاقوامی کمپنی اپنے بنائے ہوئے مصنوعی دُودھ کی غلط تعریف سے فروخت میں اضافہ کے سیکنڈل میں ملوث ہوئی۔ کافی بدنامی ہوئی مگر پھر بات دب گئی۔ اب برطانوی اخباروں نے ایک دوا ساز کمپنی کو بے نقاب کیا ہے جس نے ترکی میں اخباروں اورٹی وی کے ذریعے یہ مہم چلائی کہ بہت سی مائیں طبی وجوہات سے اُتنا دُودھ اپنے شیر خوار بچوں کو نہیں پلا سکتیں جس کی انہیں ضرورت ہوتی ہے، اس لئے وہ ڈبے کا دودھ خرید کریہ ضرورت پوری کریں۔ آج یہ جھوٹ پکڑا گیا۔ کتنا اچھا ہو کہ ہماری قومی اسمبلی غریبوں پر ٹیکس لگانے کی بجائے ڈبہ کے دودھ کی درآمد پر پابندی عائدکردے( اورکروڑوں روپوں کے میک اپ کے سامان کی درآمد پر بھی) جو خاتون ماں بننے کا فیصلہ کرتی ہے اُسے مہربانی کر کے اپنے بچے کو اپنا دُودھ پلانے کی زحمت بھی اُٹھانی چاہئے۔ میں اپنی بیوی کا احسان مند ہوں کہ اُس مثالی ماں نے برطانیہ اور پاکستان میں دس سال کالجوں میں پڑھایا مگر اپنے چھ بچوں کو اپنا دُودھ ہی پلایا؛ حالانکہ وہ چشم زدن میں بیگم بن سکتی تھی (بچوں کو اپنا دُودھ پلانا ہر بیگم صاحبہ کے مرتبہ اور منصب کے صریحاً خلاف ہوتا ہے) دیسی بیگمات کا حوصلہ شاید یہ پڑھ کر بلندہو جائے کہ یورپ میں گوری مائوں نے اب بچوں کوپھر اپنا دُودھ پلانا شروع کر دیا ہے:ع میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلمان ہو گیا اُمید ہے کہ کالم کو پڑھنے والے یہ سوچنے کی غلطی نہیں کریں گے کہ بوتل کا دُودھ پلانا محض بیگماتی تکلفا ت (جنہیں زیادہ سخت زبان میں نخرے کہا جا سکتا ہے) کے زُمرے میں آتا ہے۔ ہر گز نہیں۔ ابھی خواتین کو گمراہ کر کے ڈبوں کے دُودھ کی فروخت کو جعل سازی اور دروغ گوئی سے بڑھانے کے سکینڈل کی خبروں کی سیاہی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ سائنس دانوں کی سالہا سال پر پھیلی ہوئی ایک تحقیق کا نتیجہ سامنے آگیا۔ ثابت ہوا کہ ماں کا قدرتی دُودھ پینے والے بچے کو جسمانی اور ذہنی (خصوصاً ذہنی) لحاظ سے ڈبوں کا مصنوعی دُودھ پینے والے بد نصیب بچوں پر نمایاں برتری حاصل ہوتی ہے۔ اس خبر کی اشاعت نے میرے زخمی دل پر ایک پھاہا رکھا۔اب میں تعلیم اور کھیل کے میدان میں کمزور کارکردگی پر اپنے آپ کو مورودِ الزام ٹھہرانے کی بجائے مصنوعی دُودھ کے ڈبوں کو اپنے غیظ و غضب کا نشانہ بنایا کروں گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں