آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!

پاکستان میں رُونما ہونے والے ناقابل یقین حد تک برُے حالات (بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ دہشت گردی اور مہنگائی) کے تناظر میں برطانیہ کی دو خبریں آپ کے لیے توجہ طلب ہیں۔ انہیں پڑھ کر اگر آپ کے ماتھے پر پسینہ کے قطرے اُبھر آئیں تو ان کا تعلق نہ گرمی سے ہوگا اور نہ لوڈشیڈنگ سے ۔ یہی وہ قطرے ہوں گے جنہیں اقبالؔ کے (غالباً پہلے) شعر کے مطابق عرقِ انفعال کہا جا سکتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اقبال کے معاملہ میں شان کریمی نے ان قطروں کو موتی سمجھ کر چن لیا تھا اور آپ کو یہ خود ہی پونچھنے پڑیں گے۔ یہ قطرے بار بار اُبھریں گے اس لئے آپ یہ کام بار بار کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ پہلی خبر یہ ہے کہ آج برطانوی اخبارات اور ٹیلی ویژن پر شوز سٹور Tesco (جس کی ملک بھر میں سینکڑوں دُکانیں ہیں) نے اشتہار دیا کہ رمضان کے مقدس مہینہ کے احترام کے طور پر مسلمان گھرانوں میں استعمال ہونے والی اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں دس سے بیس فی صد تک کمی کر دی گئی ہے۔ ہر دکان کے باہر نمایاں طور پر داخلہ کے سب سے بڑے دروازہ کے اُوپر رمضان المبارک کے پرچم لہرائے گئے ہیں۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے۔ ماہ رمضان کی آمد آمد ہو توTesco میں آنے والی آٹا، دال ، چاول اور اس طرح کی دوسری کھانے پینے والی چیزوں (جن میں پکوڑے بنانے میں استعمال ہونے والا بیسن بھی شامل ہوتا ہے) کی قیمتیں اُوپر جانے کی بجائے (جو وطن عزیز میں دُکانداروں کا غیر اسلامی دستور ہے) ہمیشہ نیچے لائی جاتی ہیں۔ عیدالفطر کے بعد احتراماً کی جانے والی تخفیف ختم کر دی جائے گی پھر سارا سال اُسی جذبۂ خیر سگالی سے مالی فائدہ اُٹھایا جائے گا۔ (غالباً Tesco کے غیر مسلم مالکوں پر ماہِ رمضان کی وہ برکتیں تو نازل نہ ہوں گی جن پر لوٹ مار کرنے والے مسلمانوں کی اجارہ داری ہے) جو قیمتوں میں ایک ماہ کے لئے نظر آنے والی کمی سے Tesco کے لاکھوں مسلمان خریداروں کے دلوں میں پیدا ہوگا اور اس سے پہلے کہ ماند پڑ جائے، اگلا ماہ رمضان آجائے گا۔ دُوسری خبر بھی ہمیں محاورہ کے مطابق اپنے گریبان (یہ کام اپنی بغلیں جھانکنے سے کم تکلیف دہ اور یقینا کم بدبودار ہوگا) میں جھانکنے کی دعوت دے گا۔ میں جنوب مشرقی لندن کے جس پُر فضا علاقہ میں رہتا ہوں، وہاں میرے گھر کے سامنے ایک بہت شاندار قدیم گرجا گھر ہے۔ صدیوں پرُانا ہے اس لیے نو ترے ڈیم(Notre Dam) اورVatican نہ ہونے کے باوجود بھی مقامی سیاحوں کی بڑی تعداد اس کی زیارت اور عبادت کے لئے آتی ہے۔ مجھے اس گرجا گھر کے پادری کا دعوت نامہ ملا کہ اس اتوار کو تمام عیسائی فرقوں کے لوگ یہاں مل کر عبادت کریں گے اس لئے مجھے بھی شریک ہونا چاہیے۔میں نے مناسب سمجھا کہ پادری صاحب کو فون کر کے دعوت دینے کا شکریہ ادا کروں اور اسی بنیاد پر معذرت کروں کہ میں عیسائی ہوتا تو ضرور آتا۔ جواب ملا کہ پھر مجھے اگلی اتوار کو آنا چاہیے چونکہ اُس دن عیسائی، یہودی، مسلمان،ہندو، سکھ اور بدُھ مت کے پیرو کار مل کر عبادت کریں گے۔ مسلمانوں کو دعوت دی جائے گی کہ وہ نہ صرف تلاوت قرآن پاک کریں بلکہ اس کا انگریزی ترجمہ بھی عبادت گزاروں کو سنائیں۔ پاکستان میں شیعہ، سنی کی باہمی دشمنی۔ نفرت اور نہ ختم ہونے والی قاتلانہ رزم آرائی (جس میں شہید ہونے والے ہزاروں افراد میں بے گناہ لوگ، عورتیں اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں ) کو ختم کرنا ہے تو اہل تشیع کو بہادری اور ہمت کرتے ہوئے یوم فاروق اعظم ؓمیں شریک ہونا ہوگا۔ اگر اہل تشیع نے امام الشہداؓ سے بہادری کا سبق نہیں سیکھا تو پھر کیا سیکھا؟ اُدھر اہل سنت کو شیعہ مساجد میں جا کر شیعہ اماموں کے پیچھے نماز پڑھنی چاہئے۔ بقول اقبالؔ صرف مدینہ نہیں۔ نجف کی خاک بھی ہماری آنکھ کا سرمہ ہے ۔ دورِ جدید میں عوامی احتجاج میں سب کچھ بہا لے جانے والی جو لہر اُٹھی ہے اُس کی ابتداء گذشتہ عشرہ میں پاکستان میں وکلاء کی اُس زبردست تحریک سے ہوئی جس کا نصب العین چیف جسٹس افتخار چوہدری کی رہائی (یقین نہیں آتا کہ وہ کئی سال زیر حراست رہے) ،ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی تھی۔ اب تو ایک ملک میں عوامی احتجاج کی لہر اُٹھتی ہے تو دُنیا بھر میں عوام دشمن (اور ہمیشہ امریکہ نواز) حکمران بے حد اضطراب اور پریشانی کی حالت میں سوچتے ہوں گے ۔کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد۔ دو سال پہلے شمالی افریقہ میں بہار آئی۔ سب سے پہلے تیونس پھر مصر، پھر اُردن، پھر لیبیا،پھریمن، پھر بحرین، اس سال ترکی، ایران (جس کے نتیجہ میں جناب روحانی کو صدارتی انتخاب میں کامیابی ملی)، برازیل اور اب پھر مصر ۔ابھی آدھا سال گذرا ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ عوام یا تو جاگتے نہیں۔ گہری نیند میں سوئے رہتے ہیں صدیوں تلک۔ جاگ اُٹھیں تو پھر اُنہیں کوئی سُلا نہیں سکتا۔ ایک بے زبان بے حد کمزور اور مسکین کالم نگار ان سطور کے ذریعہ ہر اولی الامر کو دوستانہ مشورہ دینا چاہتا ہے کہ وہ اپنی فردِ عمل سنبھالے۔ اپنی آنکھیں کھولے۔ مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو دیکھے۔ زمین دیکھے۔ فضا دیکھے۔ فلک دیکھے اور سب سے بڑھ کر اپنے ملک کے اُن عوام کو دیکھے جو (بقول اقبالؔ) اپنے آقائوں کے خیموں کی طنابیں توڑنے پر تُل گئے ہیں۔ وجہ؟ ۔وجہ ظاہر ہے۔ سلطانیِ جمہورکا زمانہ آگیا۔ اب یہ فرمان خدا ہے کہ ہر نقش کہن مٹا دیا جائے۔ مر مر کی سلوں سے بیزاری اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ اب مٹی کے نئے حرم بنائے جا رہے ہیں۔ کا خِ اُمرا کے در و دیوار نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر گرائے جا رہے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ اس پیرایہ میں لکھتا جائوں مگر سو چا کہ زیادہ مناسب ہو گا کہ میں اپنے ذہین اور محترم قارئین کو خداوندتعالیٰ کا وہ فرمان پڑھنے کا مشورہ کیوں نہ دوں جو فرشتوں کو دیا گیا تھا۔ جب ایک مردِ مومن (اقبالؔ )کو اس فرمان کے مندرجات کا پتہ چلا تو اُنہوں نے یہ مہربانی کی کہ یہ جانتے ہوئے کہ کروڑوں، گونگے، بہرے اور اندھے مسلمان اُس کو نہ سن پائیں گے ۔ اسے ایک عظیم الشان نظم کی صورت میں قلمبند کر دیا ۔اگر میاں نواز شریف خوش خوراکی کی شہر ت کے دائرہ سے نکل کر مطالعہ کی حدود میں داخل ہونا چاہتے ہیں تو میں اُنہیں نیک نیتی سے مشورہ دوں گا کہ وہ کلام اقبال کا مطالعہ کریں اورمصر کے سابق صدر محمد مرسی کو فون کرنے کا وقت ضرور نکالیں اور پوچھیں کہ آپ کو تو الیکشن جیتے صرف ایک سال ہوا تھا اور ابھی چار سال پڑے تھے تو پھر تحریرسکوائر آپ کے استعفے کا مطالبہ کرنے والوں سے کس طرح بھر گیا؟ میاں صاحب کے لئے یہی نوشتہ دیوار ہے۔ پاکستان کے عوام پانچ سال صبر نہیں کریں گے۔ جون 2014 ء میں پاکستان میں وہی کچھ ہوگا جو جون/ جولائی 2013 میں مصر کے قریہ قریہ میں ہو ا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں