ایک انقلابی دریافت سے حسین حقانی تک

بے حد چھوٹی مگر بے حد اہم چیز۔ انگریزی ابجد میں C کے بعد آنے والے D سے شروع ہونے والی ۔ پورا نام Dua\'s Layerبھی زیادہ بڑا نہیں۔ مگر اس کی حالیہ دریافت کے بعد دُنیا بھر میں میڈیکل کالجوں کے نصاب میں شامل کتابوں میں ترمیم کرنا پڑے گی۔ یہ آنکھ کے اُس حصہ کا نام ہے جو چند دن پہلے تک کسی بڑے سے بڑے ماہر امراض چشم کونظرنہ آیا تھا۔ آنکھ کی پتلی Cornea کی اندرونی جھلی کی موٹائی صرف 0.001 mm ہے۔ (یعنی ایک ملی میٹر کا سواں حصہ) انسانی آنکھ کو کیا دوش دیں۔ آج تک خورد بین بھی اس کی موجودگی کا پتہ چلانے میں ناکام رہی مگر داد دیں بھارتی پنجاب سے تعلق رکھنے والے پروفیسر مہندر سنگھ ڈوا کو جنہوں نے ناقابل بیان محنت شاقہ کے بعد آنکھ کے اندر ایک باریک ترین جھلی کو دریافت کر لیا (جسے دریافت کرنے والے کا نام دیا گیا ہے) اور مطالعہ چشم کی سائنس میں ہلچل پیدا کردی۔ پروفیسرمہندر سنگھ برطانیہ کی نوٹنگھم Nottingham یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ میرے لئے یہ خبر تین وجوہ سے خوشی کا موجب بنی۔ اوّل: اگر خدا نخواستہ مجھے بڑھاپے کے کسی بھی مرحلہ پر اپنی آنکھ کا آپریشن کروانا پڑا تو یہ دریافت بہتر اور زیادہ موثر علاج میں مدد دے گی۔ دوم: دریافت کرنے والے سائنس دان میری طرح پنجابی ہیں۔ سوم: وہ اُس یونیورسٹی سے وابستہ ہیں جہاں میں نے 20 سال پہلے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ اس دریافت سے پہلے ماہرین صدیوں سے یہی کہتے چلے آئے تھے کہ آنکھ کی پتلی پانچ تہوں پر مشتمل ہے۔ نئی دریافت سے پتہ چلا کہ تہوں کی کل تعداد چھ ہے۔ برطانوی اخباروں نے اپنے قارئین کو اس دریافت سے متعارف کرانے کے لئے آنکھ کے تمام اندرونی حصوں کا نقشہ Diagram شائع کرنا ضروری سمجھا۔ میں نے کافی دیر اس نقشہ کا مطالعہ کیا مگر زیادہ سمجھ نہیں آئی۔ کافی پیچیدہ معاملہ لگتا ہے۔ آخر کار ہار مان کر میں نے دریافت کرنے والے سائنس دان کی تصویر کی طرف توجہ دی۔ پروفیسر مہندر سنگھ شکل و شباہت سے ٹرک یا ٹیکسی چلانے والے جیسے نظر آتے ہیں۔ جس طرح (بقول شیخ سعدیؒ) بزرگی کا عقل سے تعلق نہیں ہوتا۔ شکل و شباہت کا لیاقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ آپ نے یہ سنا ہوگا کہ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی۔ ادھر اُدھر کی مثالیں رہنے دیں۔ پنجاب کے اس وقت تک واحد پنجابی حکمران رنجیت سنگھ کو ہی دیکھیں۔ نہ صرف بدصورت بلکہ کانا بھی تھا۔ پھر بھی اُن حکمرانوں سے ہزار درجہ زیادہ اچھی حکمرانی کی جو شکل و صورت کے لحاظ سے تو اچھے تھے مگر آنکھیں رکھنے کے باوجود اپنے ملک کے حالات دیکھنے کی صلاحیت سے محروم تھے۔ (غالباً بہت سے ابھی تک ہیں) ………………… آپ کو اُس سیکنڈل کی تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں جس کی وجہ سے امریکہ میں پاکستانی سفیر (جو درحقیقت پاکستان میں امریکی سفیر تھا) حسین حقانی کو مستعفی ہو کر پاکستان تفتیشی کمیشن کے سامنے پیش ہونا پڑا۔ آ پ کو یہ بھی یاد ہو گا کہ دورانِ تفتیش منصور اعجاز نے پاکستان آکر گواہی دینے سے انکار کر دیا تھا۔ (میں نے اُسے لندن میں پاکستانی سفارت خانہ کی عمارت میں فلمی ستاروں کی طرح آتے جاتے دیکھا) حسین حقانی اپنے امریکی آقائوں کی مداخلت کے طفیل پاکستان سے بھاگ جانے میں کامیاب ہو گیا۔ امریکی حکومت نے قطر میں طالبان سے مذاکرات شروع کئے تو نیویارک ٹائمز (امریکہ کا سب سے بااثر اخبار) نے اپنے اداریہ میں امریکی حکومت کو طالبان کے بچھائے ہوئے جال میں گرفتار ہو جانے کے خطرہ سے آگاہ کیا۔ خطرہ کی گھنٹی بجانے والے کا نام حسین حقانی ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ خوشی اور فخرکا مقام ہے یا پریشانی اور شرمندگی کا کہ امریکہ میں ہمارا سابق سفیر امریکہ کے سب سے بڑے اخبار کا اداریہ لکھتا ہے۔ اب تو یہ ثابت ہو گیا کہ ہاتھی زندہ ہو تو ایک لاکھ کا اور مر جائے تو ڈیڑھ لاکھ کا۔ بہرحال ایک بات پکی ہے ـ؎ این سعادت بزور بازو نیست تانہ بخشند خدائے بخشندہ۔ پرانے زمانہ میں یہ رحمتیں عرش بریں پر رہنے والے خدائے ذوالجلال کی طرف سے نازل ہوتی تھیں۔ زمانہ بدل چکا ہے۔ اب یہ کام امریکی دارالحکومت واشنگٹن کے مضافات میں Langley نامی قصبہ میں درختوںمیں گھری عمارت کے ارباب اختیار کرتے ہیں۔اس عمارت میں امریکی جاسوسی ادارہ CIA کا مرکزی دفتر ہے۔ حسین حقانی اُس کا نمک خوار اور خدمت گزار ہے۔ وہ اپنے آقائوں کو مذکورہ بالا مشورہ خاموشی سے (دُنیا کو بتائے بغیر) بھی دے سکتا تھا ۔یہ ایک فارسی شعر کے مطابق جب چور دیدہ دلیر ہو جائے اور اُسے کسی کا ڈر خوف نہ رہے تو وہ رات کو اپنے ہاتھ پر چراغ رکھ کر اور سینہ تان کر پھرتا ہے۔ شیخ سعدی ؒ کے زمانہ سے لے کر آج تک ہر دور میں اور ہر جگہ یہی ہوتا آیا ہے کہ ’’سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد‘‘۔ جب میری برطانیہ کے سرکاری اور صحافتی حلقوں سے ملاقات ہوتی ہے تو وہ یقین سے کہتے ہیں کہ ہم جب چاہیں گے جنرل پرویز مشرف کو بھی راہ فرار دلا کر برطانیہ لے آئیں گے۔ بالکل اسی طرح جیسے ریمنڈ ڈیوس کو جیل سے (حکومت پنجاب کے خزانہ سے کروڑوں روپے قصاص دلوا کر) رہا کروایا گیا تھا۔ مدیر دُنیا میرے خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے بکمال مہربانی میرے ایک گذشتہ کالم میں اُس خط کا انگریزی میں اصل متن شائع ہو جانے کی اجازت دی جو ڈرون حملوں کے خلاف برطانوی اخبار گارڈین میں شائع ہوا تھا۔ اس رعایت سے میرا حوصلہ اتنا بڑھ گیا کہ اب میں ایک اور جسارت کر رہا ہوں اور وہ یہ کہ اپنے قارئین کے استفادہ کے لئے (حسین حقانی کا لکھا ہوا) نیویارک ٹائمز کے اداریہ کا ایک حصہ برائے اشاعت پیش ہے۔ TALKS WITH THE TALIBAN US SHOULD NOT FALL INTO THE TRAP. As was the case \'in the 1990s, negotiating with the Taliban now would be a grievous mistake. Unlike most states or political groups, the Taliban aren\'t amenable to a pragmatic deal .They are a movement with an extreme ideology and will not compromise on their deeply held beliefs. For the Taliban, direct dialogue with the United States is a source of international legitimacy and an opportunity to regroup. They are most likely playing for time while waiting for American troops to withdraw in 2014. There is no evidence that they are ready to accommodate. (Husain Haqqani)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں