لندن کی ایک تقریب

7 جولائی کو لندن (اور برطانیہ کے دُوسرے شہروں میں) کئی مہینوں کے صبر آزما انتظار کے بعد روشن دن طلوع ہوا۔ شاندار دُھوپ (جو زیادہ ہو تو باعث زحمت بن جاتی ہے)۔ تمام پارک اور تمام ساحلی مقامات دُھوپ سینکنے والوں سے بھر گئے۔ اس کے باوجود 35ایسے لوگ بھی تھے جو دھوپ جیسی بڑی نعمت سے مُنہ موڑ کر پاکستانی سفارت خانہ کی عمارت میں بروز اتوار بعد دوپہر ہونے والے اجلاس میں شریک ہوئے۔ اجلاس کا مقصد جھنگ میں بلوچوں کی ایک بستی میں طبی سہولیات فراہم کرنے کے لئے عطیات اکٹھا کرنا تھا۔ بلوچ بستی کے نام کی مناسبت سے خیراتی تنظیم کا نام بھی ’’جھوک‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔’’جھوک‘‘برطانوی قانون کے تحت ایک رجسٹرڈ خیراتی تنظیم ہے۔ اس کی روحِ رواں ایک مُستعد، چاق و چوبند فنانشل ٹائمز میں دس سال کام کر کے ریٹائر ہونے والی فرشتہ سیرت انگریز خاتون ہے، جس کی زندگی کا محور و مرکز اب ضلع جھنگ میں ایک دُور افتادہ بلوچ بستی میں مفلوک الحال لوگوں کو زیادہ سے زیادہ طبی سہولیات مہیا کرنا ہے۔ کاش (ایک فارسی شعر کے مطابق کاش کا لفظ مجھے سینکڑوں بار لکھنا چاہیے) پاکستان میں ہزاروں بیگمات اس انگریز خاتون کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے ملک کے غریب، بے بس، بے کس، بے آواز عوام کی رضا کارانہ خدمت کرنا شروع کر دیں۔ یورپ کا مطلب نہ ولایتی خوراک ہے اور نہ ولایتی لباس اور نہ انگریزی زبان بلکہ خدمت ،دیانت، انصاف، قانون کی حکمرانی، انسانی قدروں کا احترام ،تلاش علمِ اور فروغ علم ہے۔ اس تقریب میں شامل گنتی کے افراد کی نگاہوں کا مرکز مندرجہ بالا خاتون کے علاوہ ایک اور خاتون بھی تھی۔وہ سالہا سال سے ایم ٹی وی پر مقبول عام پروگرام پیش کرنے کی وجہ سے برطانیہ میں بہت جانی پہچانی جاتی ہیں۔ اُن کا نام Kristiane Backerہے۔ماضی قریب میں اُنہوں نے اسلام قبول کر لیا اور ایک دلچسپ کتاب لکھی From MTV to MECCA ۔میں نے حال ہی میں یہ کتاب پڑھی تو قطعاً اُمید نہ تھی کہ اس خوش شکل، خوش اخلاق اور روشن دماغ خاتون سے اتنی جلدی ملاقات ہو جائے گی۔ اُس نے اپنی مختصر تقریر اس خیراتی تنظیم کی عملی مدد پر زور دیا ،اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ،پاکستان جانے کی خوشگوار یادوںکو دہرایا اور یہ اچھی خبر بھی سنائی کہ پاکستان میں ایک ناشراُن کی کتاب کا اُردو ترجمہ کر کے اسے شائع کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے۔ واقفیت کو دوستی میں تبدیل کرنے کے لئے طے پایا کہ ہم مستقبل قریب میں ملیں، دریا کے کنارے کافی پئیں اور مل کر سوچیں گے کہ پاکستان کی عوام کی خدمت کے لئے کون سے ٹھوس اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ میں اَن گنت کاروں کی دُور دُور تک نظر آنے والی لمبی قطاروں کو چیرتا ہوا سفارت خانہ کی عمارت میں پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ جان جوکھوں کا کام تھا، مگر اس محنت شاقہ کے دو مقاصد تھے۔ پہلا تو ایک نیک کام میں حصہ لینے کی سعادت حاصل کرنا اور دوسرا مستعفی ہونے والے سفیر (واجد شمس الحسن ) کو الوداع کہنا۔ واجد صاحب اور ان کی ہر دل عزیز ،خوش خلق رفیقۂ حیات بیگم زرینہ واجد سے ملاقات ہوئی تو دو باتوں کا پتہ چلا۔ ایک یہ کہ 20 برسوں سے لندن میں رہنے کے بعد یہاں اتنا دل لگ گیا ہے کہ اُنہوں نے یہاں مستقل رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور وہ سرکاری رہائش گاہ سے جلد اپنے ذاتی مکان میں منتقل ہو جائیں گے۔ دوسری بات کافی سنسنی خیز تھی۔ واجد صاحب کے ایک پیش رو ریاض سمیع (جو ایک صنعت کار ہیں اور بین الاقوامی سیاست کی ابجد سے بھی ناواقف ہیں )کو میاں نواز شریف نے بطور انعام برطانیہ میں اپنا سفیر مقرر کر دیا۔ موصوف سفارت کاری کے فرائض میں اتنی برائے نام دلچسپی لیتے تھے جو نہ ہونے کے برابر تھی۔ جس دن جنرل مشرف نے حکومت پر قبضہ کیا اسی روزسیاسی بنیادوں پر مقرر کئے جانے والے تمام سفیروں کی آناً فاناً چھٹی ہو گئی۔ ریاض سمیع اہل خانہ کے ساتھ لندن کی مشہور آکسفورڈ سٹریٹ میں حسب معمول مہنگا سامان خریدنے گئے ہوئے تھے کہ اچانک برطرف کر دیئے گئے۔ اس برق رفتاری کے ساتھ کہ اُن کے سرکاری گاڑی کے ڈرائیور کو حکم دیا گیا کہ وہ صاحب کو وہیں چھوڑ کر گاڑی لے کر سفارت خانہ واپس آجائے۔ ظاہر ہے کہ ڈرائیور حکم عدولی نہ کر سکتا تھا۔ ریاض سمیع دیر تک گاڑی ڈھونڈتے رہے جو انہیں نہ ملی۔ واجد صاحب نئی حکومت سے خوش لگتے تھے جس نے مستعفی ہونے کے باوجود ابھی تک اُن سے سرکاری گاڑی نہیں چھینی اور نہ ہی اُن کا جانشین مقرر کرنے میں غیر مناسب عجلت کا مظاہرہ کیا۔ میری نظر میں واجد صاحب کی پسندیدہ خصوصیات میں اُن کا سگار پینا بھی شامل ہے۔ وہ دھواں دھار تقریر کرنے کی بجائے منہ سے خوشبو دار دھواں نکالنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اُنہوں نے ڈاکٹروں کی نظر میں اس بری (اور بے حد مہنگی) عادت کو اپنانے کی ذمہ داری مرحوم بھٹو صاحب پر عائد کی۔ سگار نوشی سے متعارف کرانے والا شخص تو صرف شام کو سگار پیتا تھا، مگر واجد صاحب کو ایسی لَت پڑی کہ وہ سگار کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ واجد صاحب نے بجھے بجھے انداز میں اور اتنی مدہم آواز میں تقریر کی کہ اُن کی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ یہ ہوتا ہے بڑے عہدہ سے اچانک محرومی اور زوال کا نتیجہ۔ کوئی شخص بھی فرشتہ نہیں ہوتا اور نہ اس کا دعویٰ کر سکتا ہے مگر اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ وہ آدھی رات کے گیدڑوں اور وطن دشمنوں کا ساتھی بن جائے۔ واجد صاحب سے دو ایسی حرکات سرزد ہوئیں کہ لگتا ہے اُنہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی دُنیا اور عاقبت خراب کر لی۔ مجھے ان سے اپنی الوداعی ملاقات میں ندامت کے کوئی آثار نظر نہ آئے ۔مجھے یقین ہے کہ قارئین ان سطور کو جلدی جلدی پڑھ رہے ہوں گے تاکہ جان سکیں کہ واجد صاحب سے اس بڑھاپے میں کون سے گناہ سرزد ہوئے جو سیکنڈل کے ز مرے میں آتے ہیں؟ آپ دل تھام کر رکھیے اور اپنی گردش ِ خون کو تیز کیے بغیر دونوں ناقابل تردید ’’کارناموں‘‘ کے بارے میں پڑھ لیں۔ چند سال پہلے ٹیلی ویژن پر یہ منظر دیکھا گیا کہ واجد صاحب جنیوا میں زرداری صاحب کے وکیل سے دستاویزات سے بھرے ہوئے بڑے بڑے ڈبے اپنی سرکاری کار میں رکھوا کر اور منہ چھپا کر جائے واردات سے مفرور ہو رہے ہیں۔ ان دستاویزات کا تعلق اُن مقدمات سے تھا جو سوئس عدالت میں منی لانڈرنگ کے الزام میں چلائے جا رہے تھے۔ دوسرے ایبٹ آباد میں اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے اگلے دن انہوں نے امریکی کمانڈو حملہ کی تعریف کی اور ٹیلی ویژن پر جو غلط بیانی کی وہ صریحاً Misinformation تھی۔ دونوں واقعات فلم پر محفوظ ہیں۔ ٹیلی ویژن پر تو یہ مناظر دکھائے جا چکے۔ شاید کسی دن ان پر چلائے جانے والے مقدمہ میں استغاثہ کے کام آئیں۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ ایک شام جب واجد صاحب آنکھیں بند کر کے سگار پی رہے ہوں گے تو ان کے دماغ میں بھی ان واقعات کی فلم چلے گی۔ کہا نہیں جا سکتا کہ اُن کے سینۂ صد چاک سے ندامت کا دُھواں اُٹھے گا یا صرف سگار کا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں