کھٹی میٹھی خبریں اور انکشاف

آج کے اس کالم میں آپ طبّی خبریں اور دوا ساز کمپنیوں کے نت نئے سکینڈل پڑھیں گے۔ آپ بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ تندرستی ہزار نعمت ہے۔ بڑھاپے میں طرح طرح کی بیماریاں بوڑھے شخص کو اکٹھی یا یکے بعد دیگرے اپنا شکار بنا لیتی ہیں۔ اگر ان بیماریوں کو یہ پتہ چل جائے کہ بڑھاپا بذات خود ایک ناقابل علاج بیماری ہے تو وہ ایک بے گناہ (مگر بدپرہیز اور لاپروا) شخص پر حملہ آور ہونے کی زحمت نہ اُٹھائیں۔ عمر ڈھل جانے کے ساتھ ساتھ حافظہ کمزور ہوتا جاتا ہے۔ (یہ باعث صد پریشانی حقیقت ان سطور کے لکھنے والے کو 52 سال کی عمر میں قانون کا سب سے بڑا امتحان اچھے نمبروں میں پاس کرنے سے نہ روک سکی)۔ 76 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے یہ حال ہو گیا ہے کہ اگر اپنی مصروفیات کو ڈائری میںنہ لکھوں تو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ آج کے دن کرکٹ کا میچ دیکھنے (یا کھیلنے) جانا ہے یا کسی عدالت میں بطور وکیل پیش ہونا ہے۔ لیکن اُس دن میری حالت قابل رحم ہوتی ہے جب یہ بھی یاد نہیں آتا کہ ڈائری کہاں رکھی ہے؟ بدقسمتی سے کئی بوڑھے لوگ اپنی یادداشت سے مکمل طور پر محروم ہو جاتے ہیں۔ اس بیماری کو Alzheimer کہتے ہیں۔ ایک نئی دوائی ایجاد کی گئی ہے۔ نام کتنا بھی مشکل ہو میں قارئین کو پڑھا کر دم لوں گا ۔اس دوائی کا نام Allopreganolont ہے۔ دعویٰ کیا گیا کہ اس دوائی کا استعمال انسانی دماغ میں نئے خلیے (Cells ) پیدا کرے گا جس کی بدولت دماغ پر آنے والی خزاں پھر بہار میں بدل جائے گی۔ اب چلتے ہیں ایک اور دل دہلا دینے والی خبر کی طرف۔ برطانیہ کی ایڈنبرا یونیورسٹی نے بڑے وثوق سے کہا ہے کہ اُن کی سالہا سال پر پھیلی ہوئی تحقیق سے ثابت ہو گیا کہ بسکٹ، کیک اورکولا یعنی بلبلہ دار مشروبات (FizzaDrinks ) کا زیادہ استعمال انتڑیوں کے کینسر کا باعث بنتا ہے۔ تیسری خبر کو بجا طور پر خوش خبری کہا جا سکتا ہے۔ لندن کے شہرہ آفاق امپیریل کالج (جہاں نوبل انعام یافتہ پروفیسر عبدالسّلام مرحوم نے ساری عمر پڑھایا) کے سائنس دانوں نے ایک ایسی دوائی ایجاد کی ہے، جس کا انجکشن پیٹ میں لگایا جائے تو اس سے ایک ہفتہ تک برائے نام بھوک لگے گی۔ برطانیہ میں پیٹواور غیر معمولی طور پر موٹے افراد کی تعداد ڈیڑھ کروڑ ہے (یعنی ہر 40 افراد میں ایک) بے تحاشا موٹاپے کی وجہ سے برطانیہ کے محکمہ صحت کو سالانہ اربوں پائونڈ کا بوجھ اُٹھانا پڑتا ہے، موٹاپے سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے علاج پر اُٹھنے والے اخراجات کی صورت میں۔ جب ہم (معمول کے مطابق) پیٹ بھر کر کھانا کھا لیتے ہیں تو انتڑیوں(جو بھوک کے عالم میں قل ھواللہ پڑھتی ہیں اور چوہوں کو دوڑنے کے لئے میدان مہیا کرتی ہیں) ایک کیمیائی عنصر (اس ہارمون کا نام بھی زبان میں بل ڈالنے کے لیے کافی ہے، یعنی Oxyntomodulin۔ یہ ہارمون دماغ کویہ اطلاع دیتا ہے کہ خدا کا شکر کرو۔ پیٹ بھرنے کو جتنی خوراک ملنی چاہئے تھی ،وہ مل گئی۔ اب بس! کھانے سے ہاتھ کھینچ لو۔ بہت زیادہ موٹے (Obese)افراد کو یہ پیغام اتنی دیر کے بعد پہنچتا ہے کہ جسم پر چربی کی ایک اور تہہ جم جانے کے اسباب پیدا ہوچکے ہوتے ہیں۔ پنجابی زبان میں مولوی حضرات کے زیادہ حلوہ کھانے اور بسیار خوری کے مظاہرے کرنے کے بارے میں کئی لطائف مشہور ہیں۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ سچائی سے کتنے قریب ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں بے تحاشا کھانے والوں اور بسیار خوری کے ریکارڈ قائم کرنے والوں کی کمی نہیں۔ میں اُنہیں دوستانہ مشورہ دوں گا کہ وہ مذکورہ انجکشن لگوا کر پھر سمارٹ بن سکتے ہیں۔ اگر مذکورہ بالا دوائی کو پاکستان پہنچنے میں دیر ہو گئی تو فوری علاج کے طلبگاروں کو (ہوائی جہاز میں بمشکل دونشستوں پر بیٹھنے کے لئے دو ٹکٹ خرید کر) برطانیہ آنا پڑے گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ برطانوی ویزا لینے کے لئے اُنہیں برٹش ہائی کمیشن کے اتنے چکر لگانے پڑیں اور اتنے دھکے کھانے پڑیں کہ اس بھاگ دوڑ میں وزن کم ہو جائے اور برطانیہ جا کر مہنگا علاج کروانے کی نوبت ہی نہ آئے۔ ہمارے قارئین یقینا جانتے ہوں گے کہ برطانیہ میں تعلیم(جس کامطلب ہے معیاری تعلیم) کی طرح بہت اچھی طبّی سہولیات بھی ہر شہری کو مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ نیشنل ہیلتھ سروس خود تو دوائیاں نہیں بناتی، دوا ساز کمپنیوں سے خرید کر مریضوں کو مفت دیتی ہے۔ اب پتہ چلا ہے کہ دوا ساز کمپنیاں عوام کو اپنی مصنوعات دو ہزار فی صد نفع پر فروخت کرتی ہیں۔ لوٹ مار کی ایک اور بدترین مثال۔ ___________________ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ (جس کا انکشاف الجزیرہ ٹیلی ویژن نے کیا اور بے رحم سرکاری عتاب کا نشانہ بن جانے کی بھاری قیمت ادا کی) پاکستانی اخباروں کی شہ سرخیاں بن کر شائع ہوئی ہوگی مگر یورپ کے ہر سنجیدہ اخبار اور ہفت روزہ نے بھی اسے نمایاں جگہ دی۔ ایک عرصہ بعد اتنے سننی خیز انکشافات پڑھنے والے دنگ رہ گئے۔ برطانیہ کے چوٹی کے سیاسی حلقوں (جن سے پارلیمنٹ کے چائے خانہ میں مختصر ملاقات کا موقعہ مل جاتا ہے) نے اس بات پر خوشگوار حیرت کا اظہار کیا کہ لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر ضیاء الحق کے جہاز کے گرجانے یا (گرائے جانے تک) تک ہر واقعہ برس ہا برس تک ہزار پردوں میں چھپا رہتا ہے (یا چھپائے رکھا جاتا ہے)۔ اتنا پرُ اسرار کہ اگاتھا کرسٹی Agatha Christie زندہ ہوتیں تو رشک کے مارے مر جاتیں۔ Alfred Hitchcok زندہ ہوتے تو اُنہیں اپنی فلمیں بڑی پھیکی نظر آتیں،لیکن ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ لکھنے والے بہادر لوگوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر سچی اور بڑی کڑوی باتیں اس بنیاد پر لکھ دی ہیں کہ سچ کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے۔ کمیشن نے مجرمانہ غفلت کے ہر ذمہ دار پر کڑی تنقیدکی ہے۔ یہ بڑا خوش آئند اور مثبت رُجحان ہے۔ چند لوگوں کی گواہیوں کو خصوصی اہمیت دی گئی۔ ISI کے سربراہ جنرل پاشا نے کہا کہ پاکستان ناکام ریاست ہے (یا بن جانے کے قریب ہے)۔ یقینا یہ اقتباس غیر مصدقہ ہے۔ جنرل پاشا کا فرض ہے کہ وہ اس کی تردید کریں یا تصدیق۔ حنا ربانی کھر سے یہ بیان منسوب کیا گیا کہ پاکستان کے تناظر میں جو Accident Proneملک ہے (حنا کے الفاظ میں) یعنی باقاعدگی سے حادثات کا شکار ہوتا رہتا ہے ،ایبٹ آباد کے واقعہ کو غیر معمولی اور خلاف توقع نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ اس طرح کے ڈرامائی واقعات تو وہاں ہوتے ہی رہتے ہیں۔ ناطقہ سربہ گریباں ہے ، اسے کیا کہئے؟ برطانیہ میں رہنے والے ہر پاکستانی کے ذہن میں جو ذہنی کشیدگی اور پریشانی ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کے چند حصے اور اس پر برطانوی اخباروں کے تبصرے پڑھنے سے پیدا ہوئی اُسے ایک حد تک اُس تعریفی مضمون نے کم کر دیا جو گارڈین کے پورے صفحہ پر عابدہ پروین کے بارے میں شائع ہوا۔ مضمون نگار خاتون (جو نام سے پاکستانی لگتی ہیں) نے تعریفوں کے پُل باندھ دیے۔ صوفیانہ شاعری اور صوفیانہ موسیقی سے اہل مغرب کے پڑھے لکھے طبقہ کو گہرا شغف ہے۔ بلّھے شاہ کا کلام گانے والے سائیں ظہور کو برطانیہ کی بریڈ فورڈ یونیورسٹی (جس کے چانسلرجناب عمران خان ہیں) بلاتی رہتی ہے۔ سننے والوں کے ذوق و شوق اور جوش و خروش کا وہی عالم ہوتا ہے جو عام طور پر پاپ میوزک کے کنسرٹ میں دیکھا اور سناجاتا ہے۔ 2012 ء میں امریکہ میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں کی فہرست مرتب کی گئی تو سب سے اونچا مقام مولانا رومؒ کی مثنوی کے انگریزی ترجمہ کے حصے آیا۔ اچھی بات یہ ہے کہ عابدہ نے معمول سے زیادہ اچھے کپڑے پہن کر تصویر اُتروائی۔ صوفیانہ موسیقی اور گلوکاری کے میدان میں پاکستان کے فن کاروں کو اتنی برتری حاصل ہے کہ بھارتی گلوکاروں کی مجال نہیں کہ وہ ہمسری کا دعویٰ کریں یا سوچ بھی سکیں۔ عابدہ پروین کئی سالوں سے برطانیہ آرہی ہیں اور کئی شہروںمیں کامیاب پروگرام پیش کرچکی ہیں۔ سامعین کو رُوحانی غذا ملتی ہے اور فن کارہ کے سامنے پائونڈ کے نوٹوں کا انبار لگ جاتا ہے۔ سننے والے خوش اور سنانے والی بھی خوش۔ اور کیا چاہیے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں