دوا ساز کمپنیوں کے حربے اور نئی دریافت

یہ کالم پڑھنے والوں کو یاد ہوگا کہ حال ہی میں فرانس میں مصنوعی دودھ بنانے والی بڑی کمپنیDanon کے گمراہ کن (صریحاً جھوٹ پر مبنی) پروپیگنڈا کا ذکر کیا گیا تھا۔ کوئی دن نہیں گزرتا جب یہ خبر نہیں ملتی کہ آج اس کو کون سا نیا صدمہ اُٹھانا پڑا۔ مصنوعی دودھ کی فروخت کو بڑھانے کے لیے مذکورہ بالا کمپنی اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ صحت (WHO) کا سرکاری نشان (Logo) بلاجواز استعمال کرنے سے بھی باز نہ آئی ۔ اب اقوام متحدہ نے اس کی گوشمالی کرتے ہوئے اس کو اپنا سرکاری نشان استعمال کرنے سے روک دیا ہے۔ مگر صرف اس کمپنی کے برُے دن نہیں آئے۔جی ایس کے پر تو مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے اور ساری دُنیا میں ایک آنکھ بھی ایسی نہیں جوجی ایس کے کی حالتِ زار پر نم ہو۔ گلیکسو کو دُنیا میں دوا ساز کمپنیوں میں بڑا نمایاں مقام حاصل تھا۔ یہی بلند درجہ ایک اور دوا ساز کمپنی Smith Kline کو بھی حاصل تھا۔ اجارہ داری قائم کرنے کے لئے فیصلہ کیا گیا کہ یہ کمپنیاں ایک دوسرے کی حریف بنی رہنے کی بجائے ایک دُوسرے میں ضم ہو جائیں۔ یعنی سونے پر سہاگہ۔(شاید آپ کو علم ہو کہ سہاگہ کیا ہوتا ہے۔ وہی جو سونے کی قدر و قیمت بڑھا دیتا ہے) لکھنے کے بعد خیال آیا کہ اس جگہ یہ محاورہ کچھ جچتا نہیں۔ بہتر ہوگا کہ دوآتشہ کی ترکیب استعمال کی جائے۔ جی ایس کے کا دائرہ کار ساری دُنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ حرکات تو وہ ہر جگہ ایک جیسی کرتی ہے مگر پکڑی وہ چین میں گئی۔ شامت اعمال کی تفصیل پڑھ کر GSK کے لیے دل میں ہمدردی کا کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ یہ تو میں بھی مانتا ہوں کہ محبت اور جنگ میں ہر حربہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ (بشرطیکہ وہ غیر قانونی نہ ہو) مگر سرمایہ داری اپنے عروج پر پہنچی تو اس کی برکتوں سے فیض یاب ہونے والوں پر یہ بری خبر بجلی بن کر گرِی کہ سرمایہ دارانہ نظام جن چار ستونوں پر کھڑا ہے، اُن کا نام ہے :بے دریغ لوٹ مار: زیادہ سے زیادہ لوگوں کا کم از کم وقت میں استحصال: سمندروں سے گہری حرص و ہوس اور پہاڑوں سے اُونچا مکرو فریب کا جال۔ اقبال نے لینن(Lenin ) کی زبان میں خالقِ دو جہاں سے پوچھا تھا ؎ کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ کروڑوں اربوں انسان تو غربت کے سمندر میں ڈوب گئے اور یہ سفینہ ہے کہ دُنیا بھر میں کمال مستعدی سے تیرتا پھرتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اقبالؔ کے سوال کا جواب کب ملے گا؟ (آرام سے، مزے سے اور )ایک چھوٹا سا جواب تو چند دن قبل مل گیا۔ دُنیا بھر میں ایک امریکی شہرہےDetroit ۔ جس کا کاریں بنانے کی صنعت کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اب وہ سرکاری طور پر دیوالیہ ہو گیا ہے۔ اسی (80) ارب ڈالر کا قرضہ۔ لیکن بقول غالب ؔقرض کی مے پینے والوں کو یہ سمجھ دیر بعد آتی ہے کہ ایک دن یہ فاقہ مستی ضرور رنگ لائے گی۔بات شروع ہوئی تھی بین الاقوامی دوا ساز کمپنیGSK سے۔ آیئے اس کی طرف لوٹ چلیں۔ چند سطور پہلے جو صدیوں پرانا فارمولا محبت اور جنگ کے بارے میں لکھا گیا وہ کاروبار، تجارت،صنعت اور سرمایہ داری نظام کے ہر کل پرزہ پر بھی صادق آتا ہے۔ کالم کی محدود جگہ زیادہ مثالیں دینے کی اجازت نہیں دیتی۔صرف GSK کی مثال ہی کافی ہوگی۔ برطانوی اخبار گارڈین کی 18 جولائی کی اشاعت کے صفحہ نمبر24 پر یہ پانچ کالمی خبر شائع ہوئی کہ حکومت چین نے GSK کے چین میں فنانس ڈائریکٹر پر یہ پابندی عائد کر دی ہے کہ وہ حکومت کی اجازت کے بغیر ملک سے باہر نہیں جا سکتا۔ GSK پر یہ سنگین الزام لگایا گیا ہے اور پولیس تفتیش کر رہی ہے کہ اس نے اپنی مصنوعات کی فروخت کو بڑھانے کے لئے ڈاکٹروں کو بڑے پیمانے پر تین ایسی چیزوں کی رشوت دی جن سے ڈاکٹروں کا بچ نکلنا ممکن نہ تھا۔ نقد رقوم، قیمتی تحائف اور پرکشش طوائفیں۔ چین میں چار بڑے افسروں کو(جو چین کے باشندے ہیں) پولیس نے گرفتار کر کے اپنی تحویل میں لے لیا ہے تاکہ وہ تفتیش میں مدد کر سکیں۔ ایک گرفتار ہونے والے چینی افسر نے ٹیلی ویژن پر اپنے جرم کا اعتراف کر کے باقی مجرموں کے لئے بڑی مشکل پیدا کر دی ہے۔ اُس نے یہ دلچسپ انکشاف بھی کیا کہ GSK اپنی دوائیوں کو جس قیمت پر فروخت کرتی ہے اُس میں وہ اخراجات بھی شامل کیے جاتے ہیں جو دوائوں کی فروخت کو بڑھانے کے لئے کئے گئے۔ حکومت چین کے کان میںGSK نے خطرہ کی اتنی بڑی گھنٹی بجائی ہے کہ اب چین کی حکومت دُوسری دوا ساز کمپنیوں کے کاروباری معاملات کو انہی کمپنیوں کی بنائی ہوئی خوردبین سے دیکھے گی۔ یہ ہونہیں سکتا کہ دوا ساز کمپنیاں جو حربے وہاں استعمال کرتی ہیں وہ ہمالہ کے اس پار پاکستان میں نہ کریں۔ مگر ہمارے زخموں سے نڈھال ملک کی حکومت کراچی اور کوئٹہ میں ہزاروں بے گناہ افراد کا ایک بھی قاتل نہ پکڑ سکی، وہ دوا ساز کمپنی کا مواخذہ کس طرح کر سکتی ہے؟ سکینڈل کا تذکرہ ختم کر کے ہم علاج معالجہ کی طرف لوٹتے ہیں۔ (خطرہ محسوس کرتا ہوں کہ قارئین کو مندرجہ بالا سطور کے مقابلہ میں مندرجہ ذیل سطور بے مزہ اور پھیکی لگیں گی۔) جوڑوں کے درد کے مریضوں کو دُنیا بھر میں ڈاکٹر وہ دوا دیتے ہیں جس کی بدولت مرض تو جوں کا توں برقرار رہتا ہے مگر درد کی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ان دوائوں کو Pain Killers کہا جاتا ہے۔تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ سالہا سال تک ان دوائوں (مثلاً Buprofen)کا استعمال نہ صرف درد کو ختم کر دیتا ہے بلکہ درد میں مبتلا مریض کو بھی۔ بہت عرصہ تک اس طرح کی دوا کا استعمال حرکت قلب بند کرنے کا باعث بنتا ہے۔ دل کے ذکر کے بعد چلیں گردوں کی طرف (اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کالم پڑھنا بھی دل گردہ کا کام ہے۔) گردے ناکارہ ہو جائیں تو نئے گردوں کی پیوند کاری کرنی پڑتی ہے جسےTransplantکہتے ہیں۔ برطانوی ڈاکٹروں نے ایک نئی تکنیک دریافت کی ہے جس کے مطابق وہ لوگ جن کے خون کے گروپ بھی ایک دوسرے سے نہ ملتے ہوں اور جسمانی اجزا مطابقت نہ رکھتے ہوں (یعنی incompatible ہوں) وہ بھی مریض کو اپنے گردہ کا عطیہ دے سکتے ہیں۔ بشرطیکہ عطیہ دینے اور لینے والے کے خون کے Plasma سے Anti Bodies نکال دی جائیں اور ان کی جگہ پروٹین اور مائع جات کا ایک طلسماتی مرکب خون میں داخل کیا جائے۔ اس نئی دریافت کی بدولت گردوں کے عطیات کے ہزاروں ضرورت مند فیض یاب ہوں گے اور نئی زندگی پائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں