تماشا دکھا کر مداری گیا

بانگ درا میں اقبالـ ؔنے ندی کی روانی سے بہتی ہوئی جو کمال ـ نظم لکھی اُس کا عنوان ہے ’’ساقی نامہ‘‘۔اس کا ایک شعر ہے ؎ گیا دور سرمایہ داری گیا تماشا دکھاکے مداری گیا خبر آئی ہے کہ بھارت سے مداری چلا گیا ہے۔ مداری کا نام ہے امریکہ۔ مداری کا اپنا گھر مالی بحران کا شکار ہوا تو اُس نے دُنیا کے ہر حصہ سے ،ماسوائے عالم اسلام کے ،کہ وہ اُس کی جان کے درپے ہے، اپنا بوریا بسترباندھ کر کوچ کر رہا ہے یا کر چکا ہے۔ امریکی سرپرستی سے محروم ہو جانے کے بعد بھارت گزرے ہوئے چند ماہ میں اس طرح آناً فاناً یتیم ہو گیا جس طرح ایک شخص کے سر سے اس کے بچپن میں ہی ماں باپ کا مبارک سایہ اُٹھ جائے۔ مالی بحران بھارت میں آیا مگر صف ماتم یہاں برطانیہ میں بچھی ہوئی ہے۔ اُس برطانیہ میں جس کے بارے میں 85 سال پہلے اقبالؔ نے کہا تھا۔ ع فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے یہود کا لفظ اُنہوں نے اس ایک مذہب کے پیروکاروں کے لئے نہیں بلکہ سرمایہ داروںکے لئے استعمال کیا۔ اقبالؔ کے دور میں اتفاقاً سرمایہ دار مذہبی اعتبار سے صرف یہودی تھے۔ گزری ہوئی صدی میں بڑے سرمایہ دار ہونے کے لئے یہودی ہونے کی شناخت ختم ہو گئی۔ اب اس میں ہندو، مسلمان، بدھ اور لامذہب بھی شامل ہو گئے ہیں۔ بھارتی حکومت حواس باختہ ہے اور کچھ سمجھ نہیں آتی کہ گہرے ہوتے مالی بحران پر کیسے قابو پایا جائے؟ بلبلہ پھٹ چکا اور غبارہ سے ہوا نکل گئی۔ اب کریں تو کیا کریں؟ صرف اندھوں کو ہی اندھیرے میں دُور کی نہیں سوجھتی، سرمایہ دار ممالک کے وزرائے خزانہ بھی اس ناقابل رشک ہنر میں کمال رکھتے ہیں۔ بھارتی وزیر خزانہ کے دماغ کی سوئی اس سوچ پر اٹک گئی ہے کہ وہ کون سی تدبیر اختیار کی جائے کہ بھارتی خواتین کے ذاتی استعمال (یا نمائش) کے لئے جواکتیس ہزار ٹن سونا زیورات کی شکل میںموجود ہے ،اُسے نوٹ چھاپ کر حکومت خرید لے اور قومی خزانہ میں زرمبادلہ کی دگرگوں صورت کو سنبھالا دیا جا سکے۔ بھارتی خواتین اپنی پاکستانی بہنوں سے کئی معاملات میں یقینا مختلف ہوں گی مگر جہاں تک سونے کے زیورات سے دیوانگی کی حد تک شیفتگی کا عالم ہے وہ دونوں ایک دوسرے سے گہری مماثلت رکھتی ہیں۔ گزشتہ سال سونے کے زیورات کی مانگ پورا کرنے کے لئے بھارتی حکومت کو 860 ٹن سونا درآمد کرنے کی اجازت دینے کا کڑوا گھونٹ بھرنا پڑا۔ بھارتی وزیر خزانہ ابھی اپنی اُدھیڑ بن میں مصروف ہیں مگر ایک نامور ماہر معاشیات سیمرن چکرابرتی (یقینا بنگالی ہوں گے) نے خبر دار کیا ہے کہ یہ حیلہ ہر گز کامیاب نہ ہوگا۔ نوٹ چھاپنے سے افرادِ زر میںمزید اضافہ ہوگا۔ ڈالر اور پائونڈ کے مقابلہ میں بھارتی روپے کی قدر مزید کم ہو گی۔ ضرورت ہے کہ عوام دوست انقلابی اصلاحات کی جائیں (جن کی غالباً پاکستان کو بھارت سے بھی زیادہ ضرورت ہے)پچاسی سال پہلے اقبالؔ نے خالق دو جہاں سے سرمایہ داری کے سفینہ کے ڈوبنے کا وقت دریافت کیا تھا، کہیں ایسا نہ ہو کہ اُس سوال کا جواب سب سے پہلے بھارت میں مل جائے۔ سرمایہ دار نظام کی بنیاد محنت کے استحصال پر رکھی جاتی ہے۔ یہ وہ شاخِ نازک ہے کہ اس پر آپ جتنا بھی شاندار اور آنکھیں چکا چوند کرنے والا گھونسلہ بنا لیں وہ ناپائیدار ہو گا۔ بھارت اس لحاظ سے خوش نصیب ہے کہ دہلی میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی روشنی کا مینار ہے اور یہ یونیورسٹی خوش نصیب ہے کہ وہاںحیاتی گئوش (غالباً یہ بھی بنگالی ہیں) جیسی روشن دماغ خاتون معاشیات پڑھاتی ہیں۔ اُنہوں نے 26 اگست سے لندن کے روزنامہ گارڈین میں بڑے عالمانہ مگر قابلِ مطالعہ اور سمجھ آجانے والے مضامین لکھ کر بھارتی نظام معیشت کی خرابیاں گنوائیں۔ کیااچھا ہو کہ لاہور کی لمز یونیورسٹی اُنہیں کبھی پاکستان پر علم افزا اور خرد افروز لیکچر دینے کے لئے بلائے، اُس طرح جیسے چند سال پہلے اہل وطن نے برطانیہ سے سیرت رسول ؐپر ایک شاہکار کتاب لکھنے والی راہبہ، جن کا اسم گرامی کیرن آرم سٹرانگ ہے او ربھارت سے شہرئہ آفاق خاتون ناول نگار اور سیاسی کارکن ارون دتی رائے کی مختلف شہروں سے تقریر کرانے اور دانشورو ں سے ملنے کے لئے بلایا تھا۔ ان دونوں بے حد محترم خواتین کے لئے صرف سرخ رنگ کا قالین ہی نہیں اہل وطن اور صاحبان فکر نظر نے (صاحبان میں خواتین کو بھی ضرور شامل کر لیجئے گا) اپنی آنکھیں بچھا دیں۔ دانش کدوں اور دانشوروں کا ذکر آیا تو اچانک میرا دھیان سنسکرت زبان کی اُن کئی ہزاروں کتابوں کی طرف گیا جن کو 1947 ء سے پنجاب یونیورسٹی کی پرانی عمارت میں دیمک کھا رہی ہے۔ ہم اُنہیں بطور تحفہ بھارت کو کیوں نہیں دے دیتے جہاں سنسکرت کو وُہی کلاسیکی مقام حاصل ہے جو ہمارے ہاں عربی اور فارسی کو۔ اتنی بڑی نیکی کرنے والوں کو ثواب دارین ملے گا، جس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی دُنیا اور آخرت دونوں کو سنواریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں