تین کتابیں

ستمبر کے پہلے ہفتہ میں تین ایسی کتابوں کے مسودوں کو (انگریزی محاورہ کے مطابق) دن کی روشنی نصیب ہوئی اور اُردوئے معلی کے مطابق زیور طباعت سے آراستہ ہوئیں۔ آسان زبان میں کہا جا سکتا ہے کہ تین ایسی کتابیں (برطانیہ میں ہر روز کئی کتابیں منظر عام پر آتی ہیں) شائع ہوئیں جو پاکستانی قارئین کے لئے خصوصی توجہ اور دلچسپی کا باعث ہوں گی۔ پہلی کتاب کا موضوع 1965ء میں ہونے والی پاک بھارت جنگ ہے۔ دوسری کتاب کا موضوع لاطینی امریکہ کا بدنصیب ملک میکسیکو (Mexico) ہے اور تیسری کا اُس سے بھی زیادہ بدنصیب ایک وسط افریقی ملک زمبابوے ہے (Zimbabwe) جہاں آج کل ہماری کرکٹ ٹیم میچ کھیل رہی ہے۔ جو دُنیا کی سب سے مسکین اور کمزور ٹیم کو شکست دینے میں (بمشکل) کامیاب ہو جائے تو ہم خوشی سے پُھولے نہیں سماتے اور فتح کا جشن منانے کے لئے اتنے زور دار پٹاخے چلاتے ہیں کہ ان کی آواز یہاں لندن تک آتی ہے۔ آیئے اب کتابوں کی طرف چلتے ہیں۔ 1965 ء کی ہندو پاک جنگ پر کتاب ڈاکٹر فاروق نسیم باجوہ نے لکھی۔ میں اگرآپ کو نہ بھی بتائوں تب بھی آپ کو علم و فضل سے محروم اس کالم نگار کے ساتھ فاضل مصنف کے رشتہ کا پتہ چل جائے گا۔ یہ کتاب معلوماتی‘ متوازن اور معیاری نہ ہوتی تو میں اس کتاب پر یہ سطور لکھ کر اقربا پروری کے ناقابل معافی (مگر قابل فہم) جرم کا ہر گز ارتکاب نہ کرتا۔ عالمی شہرت کے اشاعتی ادارہ Hirst نے یہ کتاب شائع کی مگر اس اہتمام کے ساتھ کہ اگلے برس کے شروع میں پاکستان میں اسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس (جو فاروق کی کئی کتابیں پہلے بھی شائع کر چکا ہے) اور ہندوستان میں کیمبرج یونیورسٹی پریس شائع کرے گا۔ فاروق کے والدین کو کتاب کی صرف ایک جلد بطور تحفہ دی گئی۔ (ذہنی اُفق وسیع ہو توضروری نہیں کہ دل بھی بڑا ہو) اس لئے وہ دونوں اسے باری باری فرصت کے لمحات میں پڑھنے میں مصروف ہیں۔ میں نے جتنے صفحات پڑھے ہیں (زیادہ صفحات سونگھے ہیں‘ کتابوں پر تبصرہ کر کے روزی کمانے والے دانشوروں کی طرح) اُن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے 1965ء کی جنگ اس بدنظمی‘ بے احتیاطی اور بے ترتیبی (مگر درست لفظ ہے نالائقی اور اُس سے بھی زیادہ سخت الفاظ ہیں حماقتیں اور مزید حماقتیں) سے لڑی کہ نے ہاتھ باگ پر تھے اور نہ پائوں رکاب میں۔ نور جہاں کے گانوں اور جمیل الدین عالی کے گیتوں سے تو سچائی‘ بے حد کڑوی سچائی پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ اگر ہم حریف بھارت کی طرح دیانت داری سے 1965ء کی جنگ میں اپنی کارکردگی کا محاسبہ کرتے تو وہ حالات نہ پیدا ہونے دیتے جس کی وجہ سے ہمیں 1971 ء کی جنگ لڑنا پڑی اور شرمناک شکست ہمارا مقدر بنی۔ خداوند تعالیٰ کا شکر ہے کہ بھارتی فوج 1965ء میں پاکستان کے بڑے حصہ پر قابض نہ ہو سکی۔ مگر اُس نے صرف چھ سال بعد مشرقی پاکستان پر قبضہ کر کے ایک پرانے خواب کی عملی تعبیر دیکھ لی اور اپنے آدھے ارمان نکال لئے۔ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت کی ناقابلِ بیان اور ناقابلِ تصور فاش غلطیوں کی لمبی فہرست ہے۔ ایک طرف سیاسی نظام اور سیاسی اداروں کو تباہ و برباد کر دیا گیا تو دُوسری طرف جنگ لڑنے کی صلاحیت کو بھی زنگ آلود اور کند بنا دیا گیا۔ 1965ء میں جو کسر رہ گئی تھی‘ اُسے 1971ء میں پورا کردیا گیا۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ صرف وہی فوج جنگ لڑ سکتی ہے جس کا سیاست سے دُور کا بھی واسطہ نہ ہو۔ دُوسری کتاب کا نام The Mexican Drug Lords and Their Godfathers ۔ پاکستان کی طرح اس ملک میں بھی رپورٹر ہونا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ وہاں 40 رپورٹرقتل کئے جا چکے ہیں۔یہ کتاب ایک بہادر خاتون نے ہتھیلی پر جان رکھ کر لکھی۔ وہ اور اُن کے اہل خانہ 24 گھنٹے پولیس کی حفاظت میں رہنے پر مجبور ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ جج صاحبان‘ پولیس افسران‘ سیاست دان اور منشیات کے بڑے تاجر یک جان اور کئی قالب ہیں اور ایک ٹیم کی طرح کام کرتے ہیں۔ یہ کتاب پڑھیں تو کئی جگہ لگتا ہے کہ کراچی میں ہونے والے قتل عام کے بارے میں لکھی گئی ہے۔ منشیات فروشوں کی آپس میں اور دُوسری طرف ان سب کی حکومت سے ہونے والی جنگ میں اس وقت تک 60 ہزار افراد مارے جا چکے ہیں اور یہ المناک سلسلہ جاری ہے۔ ہمارے لئے مقام عبرت ہے۔ تیسری کتاب کی مصنفہ (دُوسری کی طرح) بھی ایک بہادر خاتون ہیں۔ کتاب کا عنوان ہے۔ ’’ہمیں نئے ناموں کی ضرورت ہے‘‘ ( شاید اُتنی زیادہ تو نہیں جتنی ہمیں وطن عزیز میں ہے) دُوسری کتاب تو رپورٹر کا آنکھوں دیکھا حال بتاتی ہے۔ جب کہ یہ کتاب ناول کی شکل میں لکھی گئی ہے۔ مگر زمبابوے میں 89 سالہ موگابے (Mogabe) کی آمرانہ حکومت کے سارے تکلیف دہ اور بھیانک پہلوئوں پر اتنی فنی مہارت کے ساتھ روشنی ڈالتی ہے کہ اُسے دنیا کے بڑے ادبی انعام کے لئے نامزد کیا گیا ہے۔ کیلی فورنیا یونیورسٹی میں پڑھانے والی31 سالہ الزبتھ کی پیدائش سے پہلے رابرٹ موگابے اُس ملک کی پشت پر پیر تسمہ پا بن کر سوار ہوا جسے اُس نے مسلح جدوجہد کے ذریعہ سفید فاموں کے نسل پرستانہ راج سے نجات دلائی تھی۔ قید کا عذاب بھی وہی‘ قیدی بھی وہی۔ صرف قید خانہ کے حکام کی جلد کا رنگ بدل گیا۔ پاکستانیوں کی طرح دُنیا بھر کے اُفتادگان خاک دن میں ایک بار تو یہ ضرور سوچتے ہوں گے۔ خداوندا! یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں۔ زمین سخت ہے اور آسمان دُور۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ زمبابوے کی طرح اہل پاکستان کو ہر سال جشن آزادی منا کر اپنے گہرے ہوتے ہوئے زخموں پر نمک بھی چھڑکنا پڑتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں