توہمات مخالف برہمن کی المناک موت

گزرے ہوئے زمانوں کی بات ہے جب برہمن پیشین گوئی کرتے تھے کہ آنے والا سال اچھا ہے یا نہیں۔ اب یہ وقت آگیا ہے کہ خود برہمن کو پتا نہیں ہوتا کہ وہ 69 سال کی عمر میں ہندوستان کی ریاست مہاراشٹر کے مشہور پہاڑی اور صحت افزا مقام پُونا میں دریا پر بنے پُل کے اوپر حسب معمول صبح کے وقت موٹر سائیکل پر بیٹھ کر گزرے گا تو یہ اس کی زندگی کا آخری سفر ہوگا۔ اس برہمن کا پورا نام نریندر دھپولکرتھا۔ اس برہمن کے سر ،گردن اور سینے پر چار گولیاں ماری گئیں تاکہ اس کے زندہ رہنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ برہمن کے جسم کا خون تو رزق خاک ہوا مگر مرنے والے کا مرثیہ صرف برطانیہ نہیں بلکہ یورپ کے ہر اخبار میں شائع ہوا۔ نریندر جس پُل کے اوپر سے گزر رہا تھا اس کے پاس پُونا کا سب سے بڑا مندر ہے جہاں ہر روز ہزاروں لوگ پھول چڑھاتے، بتوں کی زیارت کرتے، ان کے سامنے سر جھکاتے، پجاری کے ہاتھ میں رقم تھماتے اور انسانی جسم کے اس پوشیدہ حصے کی پرستش کے لئے جاتے ہیں جس کے بت کو محمود غزنوی نے سومنات کے مندر پر حملہ کر کے اسے توڑنے پر خصوصی توجہ دی تھی۔ بھلا ہو اسلام کا جس نے برہمن سے نچلی ذاتوں کو ،جس میں یہ کالم نگار بھی شامل ہے ،نہ صرف ذات پات کے شرمناک نظام سے بلکہ ہر طرح کے توہمات سے بھی نجات دلوائی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ہندوستان میں جو لاکھوں آدمی دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ،ان کی پختہ زُنّاری کا یہ عالم ہے کہ وہ مسلمان بن جانے کے باوجود طرح طرح کے وہموں میں مبتلا ہونے کے علاوہ ہندوئوں کی عقل دشمن سوچ کی بڑی گٹھڑی اپنے سروں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ نریندر کو اس لئے گولی ماری گئی کہ وہ اس مندر کے پاس سے گزر گئے اور ایک لمحہ کے لئے بھی نہ رُکے۔ ان کی زندگی کا بڑا حصہ دوسرے ہندوئوں کو بھی مندر جا کر مذکورہ حرکت کرنے سے منع کرنے میں گزرا۔ منحنی جسم، غریبانہ حلیہ، خوش اخلاقی کا مجسمہ، سستی عینک لگاتے ہوئے اور کھدر کے کپڑوں میں ملبوس ،جوتوں کی بجائے سلیپر پہنے ہوئے۔ نریندر ہر روز اسی سڑک پرہرروز ایک ہی وقت آتے جاتے تھے اور اس قدر انکساری کے ساتھ کہ کسی شخص کو بھی ان کی موجودگی کا احساس نہ ہوتا تھا۔ آنجہانی نریندر تیس سال پہلے کامیاب ڈاکٹر تھے۔ چاہتے تو میڈیکل پریکٹس سے بہت رقم کماتے مگر انہوں نے دیکھا کہ لوگ جسمانی طور پر کم اور ذہنی طور پر زیادہ مریض ہیں تو انہوں نے اپنے سر پر کفن باندھا ،توہمات کے سیلاب بلا کے خلاف بند باندھنے اور اس بڑھتی ہوئی جہالت کے خلاف جہاد کرنے کے لئے انہوں نے ایک تنظیم قائم کی جس کا نام Committee For Eradication of Blind Faith (اندھے اعتقاد کے خاتمہ کے لئے کمیٹی)ہے۔ نریندر نے مہاراشٹر میں اس کی 180 شاخیں قائم کیں۔ ان کی تنظیم کے کارکن گائوں گائوں جاتے تھے جہاں وہ ہندو سادھوئوں اور خود ساختہ روحانی بابوں اور سفلی علم کا دعویٰ کرنے والوں کے خلاف برسر پیکار رہتے تھے۔ سادھو اور ڈبہ پیر (جعلی پیر) وہ لوگ ہیں جو سادہ اور غریب لوگوں کی سادہ لوحی اور غربت سے فائدہ اٹھا کر ان کو صدیوں سے لُوٹتے آئے ہیں۔پیروں کے ذہنی استحصال کا اقبال ـؔنے بھی بہت رونا رویا ہے۔ حُسن اتفاق ہے کہ اقبال خود بھی نسلاً برہمن تھے۔ نریندر کے کارکن جعلی پیروں کو پولیس کے حوالے کرواتے تھے۔ نریندر کا سب سے دلچسپ کارنامہ یہ تھا کہ وہ سادھوئوں کے کرامات کا پول کھولتے اور ثابت کرتے کہ وہ کس طرح لوگوں کی آنکھوں میں دُھول جھونک رہے ہیں۔ نریندر یہ بھی ثابت کرتے کہ سادھو جن لوگوں کے بارے میں دعویٰ کرتے تھے کہ ان پر جنات اور بری رُوحوں نے قبضہ کر لیا ہے وہ دراصل ذہنی مریض ہیں۔ نریندر کو مذہبی تہواروں میں بہت بڑی مقدار میں پینے کے صاف پانی اور خوراک کی بڑی مقدار کو ضائع کرنے کے مخالف تھے۔ ان کے خیال میں وہ دیوتا پوجا کے ہر گز قابل نہیں جو پانی اور خوراک کو ضائع کرنے پر خوش ہوں۔ نریندر ایک ہندو دیوتا گنیش کے جنم دن کے تہوار پر پلاسٹر آف پیرس کے بنے ہوئے بتوں کو دریا میں غرق کرنے کے بھی خلاف تھے کیونکہ ایسا کرنے سے پانی آلودہ ہوتا ہے۔ نریندر نے ساری زندگی سادھوئوں سے جنگ لڑی مگر سب سے دلچسپ وہ تھی جو انہوں نے ایک ایسے جعلی پیر کے خلاف لڑی جو صرف دس روپے لے کر دیہاتی لوگوں کو یقین دلاتا تھا کہ انہیں مکھیوں اور کان کے میل سے نجات دلا دے گا۔ ان کی عمربھر کی لڑائی کا دوسرا ہدف ایک کروڑ پتی سادھو تھا جو سنبھا سائیں بابا کے نام سے مشہور تھا اور ہر وقت اپنے جسم کو راکھ اور سونے کی پیش قیمت زنجیروں سے ڈھکے رکھتا تھا۔ اس جعلی پیر کا ایک کرشمہ لوگوں کو بہت متاثر کرتا تھا جس کی عملی شکل یہ ہوتی تھی کہ عالم غیب سے بہت مہنگی سوئس گھڑیاںاچانک نمودار ہو جاتی تھیں اور سائیں بابا کی کلائیوں پر پوری چمک دمک کے ساتھ سج جاتی تھیں۔ نریندر نے اعلان کیا کہ وہ اس شخص کو 21 لاکھ روپے انعام دے گا جو ان کی کڑی نگرانی میں صرف ایک منٹ کے لئے آگ پر کھڑا رہے یا کرنسی نوٹ دگنے کر سکے یا جسم کا کوئی کٹا ہوا حصہ صرف دو سینٹی میٹر طلسماتی پائوڈر کی مدد سے بڑھا سکے یا پانی کو پٹرول بنا سکے ۔ حقیقت یہ ہے کہ نریندر کے قتل تک کوئی شخص یہ رقم نہیں جیت سکا۔ نریندر کے ذہن پر ایک ہی جنون سوار رہا ۔ جو لوگ جنات کے سایہ یا بد رُوحوں کے قبضہ کی وجہ سے ہوش و حواس کھو بیٹھتے تھے وہ دراصل کسی سنگین ذہنی مرض کا شکار ہیں اور وہ باقاعدہ ذہنی علاج کے مستحق ہیں۔ ان میں سرفہرست ہسٹیریاکا مرض تھا۔ نریندر کو ایک بار بتایا گیا کہ ایک گھر کے سامنے آدھے کٹے ہوئے سنگترے اور مالٹے بکھرے ہوئے ہیں۔ صرف یہی نہیں گھر میں پھٹے ہوئے کپڑے اور بے حد نمکین دودھ پریشانی میں اضافہ کرتا ہے۔ نریندر نے تفتیش کی تو انکشاف ہوا کہ ایک نوبیاہتا خاتون کو اس کا شوہر فلم دکھانے پر ہر ہفتہ تیار نہیں ہوتا۔ناراض ہو جانے والی خاتون خانہ نے انتقامی کارروائی کی ٹھانی اور مندرجہ بالا حرکات کی مرتکب ہوئی۔ نریندر کی تفتیش کے مطابق وہاں نہ جن تھا، نہ بھوت، نہ چڑیل نہ کوئی اور نہ نظر آنے والی بلا، صرف اور صرف ایک گھریلو خاتون جس کے نادان شوہر نے اس کے نخرے اٹھانے بند کر دیے اور ایک بہت بڑی مصیبت میں گرفتار ہو گیا۔نریندر کے پاس وہ لوگ بھی آتے تھے جن کا زائچہ یہ بتاتا تھا کہ آنے والا ہفتہ ان کے لئے منحوس ہے۔ نریندر کے پاس ایک دوربین تھی ،وہ انہیں تھما دیتا تھا کہ آسمان کے ستاروں کو خود دیکھو، ان کی گردش کا آپ کی قسمت سے کوئی تعلق نہیں۔ صرف ایک بات کے ناقابل فہم ہونے کے بارے میں نریندر بار بار کہتے تھے کہ سمجھ نہیں آتا کہ ہندوستان اکیسویں صدی میں داخل ہو گیا ہے اور ایک صنعتی طاقت بن چکا ہے۔ آسمان کی طرف سیارچے روانہ کرتا ہے مگر ابھی تک اس کے کروڑوں عوام جہالت اور وہم کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہر بڑے صنعتی منصوبے کو شروع کرنے سے پہلے پنڈتوں سے پوچھا جاتا ہے کہ شبھ یعنی مبارک گھڑی کونسی ہے۔ متوسط طبقہ کے پڑھے لکھے لوگ بھی شادی کی تاریخ پنڈتوں سے مشورہ کر کے جنم کنڈلیوں کے بنیاد پر رکھتے ہیں۔ہندوستان نے 14 اگست کو پاکستان کی طرح آزاد ہونے سے انکار کر دیا اور 15 اگست کو آزاد ہونے کی تاریخ چنی گئی چونکہ ہندو سادھوئوں نے مشورہ دیا تھا کہ 14 کے مقابلے میں 15 اگست زیادہ مبارک تاریخ ہے۔ نریندر اس بات پر خون کے آنسو روتا رہا کہ ہندوستان کے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کی قسمت ان کے پیدا ہونے سے پہلے سے طے شدہ ہے۔ برہمن ہونے کے باوجود نریندر ذات پات کے نظام کے خلاف تھا اور اس نے اپنی زمین پر ایسا کنواں کھدوایا جہاں سے نچلی ذات کے لوگ بھی پانی بھر سکتے تھے۔ ظاہر ہے نریندر جیسا آدمی اپنی زندگی میں زیادہ کامیابی حاصل نہ کر سکا۔ اس نے پوری کوشش کی کہ وہ اسمبلی میں کالے جادو کے خلاف قرار داد پاس کراسکے مگر یہ خواہش بھی پوری نہ ہو سکی۔ ہندوستان میں سیاستدانوں کا سادھوئوں کے ساتھ اتنا ہی گہرا تعلق ہے جتنا ہمارے ملک میں سیاستدانوں کا پیروں ، فقیروں اور قدیم بزرگوں کے گدی نشینوں کے ساتھ۔ نریندر کی زندگی میں بہت سخت مقامات آئے مگر سب سے براوقت وہ تھا جب ہندوئوں نے اس پر تیل چھڑک کر اس کو آگ لگانے کی کوشش کی۔ خوش قسمتی سے نریندر اپنے ایام جوانی میں کبڈی کا ایک اچھا کھلاڑی تھا اور اس کھیل میں سیکھے ہوئے دائو پیچ اس کی زندگی بچانے میں مفید ثابت ہوئے۔ نریندر کے قول و فعل میں کوئی فرق نہ تھا۔ انہوں نے جو کچھ سوچا جو کچھ کہا اسی طرح زندہ رہے۔ ایک سادہ زندگی گزاری، ہمیشہ سبزی کھائی اور کبھی شراب کے قریب نہ گئے۔ کسی قسم کا مذہبی تہوار نہ منایا۔ جب اپنے بچوں کی شادی کی نوبت آئی تو وہ نہایت سادگی سے کی اور ہندو رواج کی طرح جاری رہنے کے بجائے ایک گھنٹے میں ختم ہو گئی۔ نریندر کے دفتر میں واحد آرائش گاندھی کی ایک تصویر تھی۔ نریندر ہندو مذہب کی روحانیت کے قائل تھے مگر وہ پنڈتوں کے ہاتھوں اس کے تجارتی استعمال کے خلاف تھے۔نریندر عدم تشدد کے قائل تھے۔ نریندر کے مخالفین کے خیال میں وہ ہندو تہذیب کی جڑیں کاٹنا چاہتا تھا اور اس سنگین جرم کی سزا صرف ایک ہو سکتی تھی۔ 20 اگست2013 ء پُل پرسے گزرتے ہوئے ایک نیک دل برہمن کو موت کی سزا دی گئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں