برطانیہ کا تاریک ماضی

1791 ء میں برطانوی پارلیمنٹ کے ایک انسان دوست اور دل میں نیکی اور خوف خدارکھنے والے رُکنWilliam Wilberforce نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور اُن کے ساتھی اُس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں گے جب تک وہ غلاموں کی تجارت کو خلاف قانون قرار دیے جانے کا قانون منظور نہیں کروا لیتے۔ اُنہوں نے بیالیس سال طویل جدوجہد کی۔ اس کا مطلب ہے عمر بھر کی جدوجہد۔ ایک بار بھی ان کی استقامت میں کمی نہ آئی۔ بیالیس برسوں پر پھیلی ہوئی جدوجہد میں ولولہ تھا، جوش ایمان تھا اور ارادہ اتنا پختہ تھا کہ جب رہ نورد شوقِ ہوئے تو راستہ میں کسی محمل کو قبول نہ کیا۔ نہ کسی مصلحت کو اپنایااور نہ ہی اُصولوں پر کوئی سمجھوتہ کیا۔ انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ اِس بدنصیب ملک کے کروڑوں باشندوں کو زنجیریں پہنا کر اور غلام بنا کر ماریشس اور جزائر غرب الہندنہیں لے جایا جائے گا بلکہ انہیں ذہنی طور پر غلام بنانے کی زیادہ مؤثراور کارآمد اور صدیوں تک کام آنے والی پالیسی پر عمل کیا جائے گا۔ آنے والے وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ فیصلہ بہترین تھا۔ 1947 ء میں برطانوی راج کا خاتمہ ہو گیا مگر سفید فام حاکموں کی جگہ کالے حکمرانوں نے لے لی اور بزعم خود آزاد ہوجانے والی رعایا چھیاسٹھ برسوں کے بعد بھی انگریز کے بنائے ہوئے ہر قانون کو مقدس اور ناقابل تنسیخ یا ناقابل ترمیم سمجھتی ہے۔ یہ بڑی تکلیف دہ، طویل اور رُلا دینے والی داستان ہے جو اس کالم میں بیان نہیں کی جا سکتی کہ انگریز تاجر (اپنے مقامی ایجنٹوں کی مدد سے) کس طرح مغربی افریقہ(گھانا اور اُس کے پڑوسی ممالک) کے دیہات سے سادہ لوح لوگوں کو اس طرح گرفتار کرتے تھے جس طرح جنگلی جانوروں کو شکار کیا جاتا ہے یا زندہ پکڑا جاتا ہے۔ 1833ء میں غلاموں کی تجارت کو خلاف قانون قرار دیے جانے کا قانون منظور ہونے تک لاکھوں افریقی مرد اور عورتیں بطور غلام افریقہ سے جزائر الغرب الہند، ماریشس اور امریکہ پہنچائے جا چکے تھے۔ یہ شرمناک کاروبار کئی صدیاں جاری رہا اور برطانیہ میں روحانیت کے علمبردار(بلکہ ٹھیکے دار) چرچ آف انگلینڈ کے ہزاروں پادریوں میں ایک کو بھی شرم نہ آئی اور نہ اُسکے ضمیر نے ملامت کی کہ وہ اتنے انسانوں کی اتنی صدیاں تجارت کرنے والوں کے خلاف احتجاج کی ایک بھی آواز بلند کرتا۔ (یہ بالکل اسی طرح ہے کہ آج بھی سندھ میں کسی امام مسجد میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ وہ اپنے جمعہ کے خطبہ میں جاگیرداروں کے استحصال کے خلاف اور ہاریوںکی حمایت میں ایک بار بھی ایک لفظ کہے۔) ظاہر ہے کہ غلاموں کی تجارت اور فروخت سے بے شمار دولت کمانے والوں نے مذکورہ قانون کی سخت مخالفت کی۔ غلاموں کے تاجروں کی کل تعدادسنتالیس ہزار تھی۔ برطانوی حکومت نے ان کے مالی نقصان کی تلافی کے لئے سرکاری خزانے سے بیس ملین پائونڈ کی رقم کی تقسیم کا فیصلہ کیا۔ یونیورسٹی کالج لندن میں تاریخ پڑھانے والی خاتون پروفیسرCatherine Hall نے کئی برسوں کی تحقیق و تفتیش کے بعد غلاموں کے اُن تین ہزار تاجروں کا پتا چلایا جنہوں نے بیس سے دس ملین پائونڈ رقم بطور معاوضہ وصول کی۔ غلاموں کے تاجروں کی آل اولاد کا سراغ لگایا گیا تو اُس میں موجودہ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اور انگریزی ادب میں نمایاں مقام رکھنے والے ناول نگار جارج آرول اور گراہم گرین بھی شامل نکلے۔ 1833 ء میں 20 ملین پائونڈ کو جب آج کے دن کے پائونڈ کی قوت خرید میں تبدیل کیا گیا تو جواب نکلا ساڑھے سولہ ارب پائونڈ ۔اس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ افریقی غلاموں کی خریداری اور تجارت کو ختم کرنا محض زبانی کلامی کام نہ تھابلکہ یہ حکومت کو بہت مہنگاپڑا ۔اگر اس بات کو ذہن میں رکھا جائے کہ حد درجہ سنگدل انگریز تاجروں نے غلاموں کی فروخت یا اُن سے مفت محنت کروا کے اپنے ملک کو اربوں پائونڈزکا جو مالی فائدہ پہنچایا تھا، اُس حساب سے معاوضہ کی رقم اُس کا ایک چھوٹا سا حصہ بنتی تھی۔ نو سو چوہوں کو کھانے اور ہضم کرنے کے بعد تو ہمارے ہاں کی بلی بھی حج کے لئے رخت سفر باندھتی ہے اور اُمید رکھتی ہے کہ اپنے گناہ بخشوانے میں کامیاب رہے گی۔ غلام فروخت کرنے والوں کو معاوضہ کی رقم ملی تو اُنہوں نے کمال عقلمندی سے اُسے برطانیہ میں آنے والے صنعتی انقلاب سے اُبھرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام میں لگایا۔ وہ نہ صرف کارخانوں کے مالک بن گئے بلکہ اُنہوں نے بینکوں میں سرمایہ کاری کی۔ انشورنس کی نئی صنعت کو متعارف کرایا۔ صرف اپنے مال اورمفاد کا خیال نہ رکھا بلکہ فنون لطیفہ کی سرپرستی بھی کی۔ اپنے عطیات سے ہر شہر میں آرٹ گیلری ،عجائب گھر اور بہت اعلیٰ معیار کی لائبریری بنائی۔ امریکہ اور جزائر غرب الہند (جہاں افریقی غلاموں کی اگلی نسل نے اپنے سابق انگریز حاکموں سے کرکٹ کھیلنا سیکھی اور اُس میں کمال حاصل کیا) کے غلاموں کی زنجیریں تو ٹوٹ چکی ہیں، اب اُن کے پائوں میں کوئی بیڑی نہیں مگر مذکورہ محقق خاتون نے عصر حاضر میں غلاموں کی اولاد کی ذہنی حالت کا جائزہ لیا توپتا چلا کہ اُن کے ذہنوں پر غلامی کے نقوش اب بھی صاف نظر آتے ہیں۔ یہ زخم اتنے گہرے ہیں کہ شاید کبھی مندمل نہ ہو سکیں۔ اگر کوئی قوم ایک دفعہ غلام بن جائے تو غالباً وہ کبھی پوری طرح آزاد نہیں ہو سکتی۔ شاہین ایک بار کرگس بن جائے تو پھر اُسے اقبالـؔ کی بار بار یاد دہانی اور تلقین بھی شاہین کے جہان میں پرواز کرنے پر آمادہ نہیں کر سکتی۔وہ بے چارہ یہ اہلیت ہی کھو بیٹھتا ہے۔ پہلے متاع کارواں جاتی ہے اور پھر احساس زیاں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستان میں حکمران طبقہ انگریزی میں گفتگو کرتا ہے، صرف انگریزی بولتا نہیں بلکہ سوچتا بھی انگریزی میں ہے۔ وہ ایک ناریل کی طرح ہے، باہر سے کالا یا بھورا (Brown) مگر اندر سے سفید۔ تحریک طالبان اسی حکمران طبقہ اور مافیااور قبضہ گروپ کے خلاف رد عمل ہے۔ اگر آپ اپنی مادری زبان کی بجائے انگریزی بولنا پسند کرتے ہیں اور طالبان کے مخالف ہیں تو آپ کے لئے ایک بُری خبر ہے کہ تاریخ آپ کو مسترد کر دے گی۔ شکست آپ کا مقدر ہے۔آج آپ تخت نشین ہیں، اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں مگر وہ دن زیادہ دور نہیں جب آپ تاریخ کے کوڑے دان میں جاگریں گے۔ ہم دیکھیں گے اور یہ بشارت دینے والے فیض صاحب کی رُوح بھی دیکھے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں