برطانیہ میں توہم پرستی اور خواتین کی تذلیل

اس کالم کے قارئین کو یاد ہوگا کہ میرے گزشتہ کالم کا موضوع برطانیہ میں غلاموں کی صدیوں تک تجارت اور 1833 ء میں اسے خلاف قانون قرار دیا جانا تھا۔ پسِ تحریر کے طور پر چند حقائق کا تذکرہ مناسب ہوگا۔ 1833ء میں برطانیہ کی کل آبادی ایک کروڑ کے قریب تھی۔ غلاموں کی تجارت کرنے والوں کی کل تعداد نصف فیصد تھی۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ 99.5 فیصد آبادی پر ٹیکس لگا کر غلاموں کے تاجروں کو مالی معاوضہ دیا گیا۔ قابل توجہ اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ اُس وقت برطانوی عوام کی اپنی حالت افریقہ سے اغواکیے جانے والوں اور پھر بطور غلام فروخت کئے جانے والوں سے صرف برائے نام اور بمشکل ایک درجہ بہترتھی،اس لحاظ سے بہتر کہ وہ نہ زنجیر بہ پا کئے گئے اور نہ سات سمندر پار جبراً لے جائے گئے (ماسوا سزا یافتہ مجرموں کے جن کی بہت بڑی تعداد ملک بدر کر کے زبردستی آسٹریلیا بھیجی گئی جواُس وقت ایک طرح کا جہنم اور کالا پانی سمجھا جاتا تھا۔) اُنیسویں صدی میں ایک عام آدمی کی سماجی اور معاشی حالت اتنی خراب تھی جو اب ہمارے لئے ناقابل تصور ہے۔ یو ں سمجھئے کہ اُتنی خراب حالت جو مغلوں کے دور میں ایک عام ہندوستانی کی تھی۔ اس خراب حالت کی وجہ سے ہندوستانی عوام کی اکثریت نے انگریز حملہ آوروں کا خیر مقدم کیا اور ہندوستان فتح کرنے میں انگریزوں کی مدد کی۔ اٹھارویں صدی میں ہندوستان کو فتح کرنے کا جو کام شروع ہوا وہ انگریزوں نے انیسویں صدی میں مکمل کر لیا۔ انگریزی فوج کے سپاہی برطانیہ کے غریب طبقہ سے بھرتی کئے جاتے تھے۔ 99فیصد آبادی اتنی مفلوک الحال تھی کہ فاقوں سے بچنے کے لئے فوج میں سپاہی بن کر بھرتی ہو جانا اپنی خوش قسمتی سمجھی جاتی تھی (جس طرح ہندوستان پر قابض گورا فوج کو جہلم، چکوال اور پوٹھوہار کے علاقے سے ضرورت کے مطابق لاکھوں سپاہی ملتے رہے۔) جن لوگوں کو غلاموںکی تجارت نہ کرنے کا مالی معاوضہ دیا گیا اُن میں سے ایک نمایاں شخصیت کا نام پہلی فہرست میں شامل نہ کیا جاسکا، یہ ایک بھول تھی جس کی اب تلافی کی جاتی ہے۔ یہ شخص برطانیہ کے مشہور وزیراعظم ولیم گلیڈ سٹون (ڈزرائیلی Disreali کا حریف جو خود بھی وزیراعظم بنا) کا باپ تھا۔ اُس نے 1609 غلاموں کا مالک ہونے کی وجہ سے 76,000 پائونڈز (جو اُس وقت بہت بڑی رقم تھی) کا معاوضہ وصول کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کے بیٹے کو نہ ملازمت کی ضرورت پیش آئی اور نہ کاروبار کی۔ بے حد امیر باپ کا چھوڑا ہوا ورثہ اُسے وزارت عظمیٰ تک لے گیا۔ برطانیہ سے پہلے فرانس نے غلاموں کی تجارت 1794 ء میں (برطانیہ سے 39 سال پہلے) خلاف قانون قرار دے دی تھی ۔ غلاموں کی تجارت کرنے والوں کی لابی اتنی مضبوط تھی (ہمارے ملک میں زرعی اصلاحات کے مخالف جاگیرداروں کی طرح) کہ صرف آٹھ سال بعد یعنی 1802 ء میں قانونی پابندی ختم کرنا پڑی۔ 1833 ء میں برطانیہ نے جو جرأت مندانہ قدم اُٹھایا اُس کی وجہ سے ایک خربوزے کو دوسرے خربوزے کا رنگ پکڑنا پڑا (جبکہ دونوں خربوزے پڑوسی بھی تھے) اور 1848 ء میں فرانس نے اسے دوبارہ اور مستقل طور پر خلاف قانون قرار دے دیا۔ افریقی غلاموں کی بے حد المناک تاریخ کے تذکرہ کے بعد ہم آپ کو ایک اوردلچسپ مگر اتنی ہی المناک داستان کی طرف لئے چلتے ہیں۔ یہ داستان اُس رونگٹے کھڑے کر دینے والی کتاب میں بیان کی گئی ہے جو سترہویں صدی میں برطانیہ میں خواتین کو چڑیل قرار دے کر اُن پر کئے جانے والے مظالم اور تشدد اور غیر انسانی سلوک کے موضوع پر لکھی گئی اور اس ہفتے شائع ہوئی۔ اس طرح برطانوی تاریخ کا ایک اور بھیانک اور شرمناک پہلو بے نقاب ہوا۔ صرف برطانیہ پر ہی موقوف نہیں،پورا یورپ ،پوری دو صدیاں (سترہویں اور اٹھارہویں) چڑیلوں کو عذاب دے دے کر ہلاک کرنے میں مصروف رہا۔ یہ کہانی گیارہ مارچ 1619 ء سے شروع ہوتی ہے جب دو بہنوں (مارگریٹ اور Philipa Flower ) کو چڑیل ہونے کا جرم ثابت ہوجانے پر پھانسی کی سزا دی گئی۔ دونوں بہنیں اپنی بیوہ ماہ Joan کے ساتھ رہتی تھیں جو معمولی سی چوری کرنے کے الزام میں مقامی جاگیر دار کے محل میں ملازمت سے برخاست کی جاچکی تھی۔ گائوں کے لوگ ان عورتوں کی بیوہ والدہ کو نفرت کی حد تک ناپسند کرتے تھے۔ ان کی رائے میں وہ اخلاقی ضابطوں کو نہیں مانتی تھی، اور ایک دین دار مسیحی کی زندگی گزارتی تھی اور اتوار کو گرجا گھر عبادت کے لیے بھی نہیں جاتی تھی۔ جون نے جڑی بوٹیوں کے ذریعے مریضوں کا علاج شروع کیا تو لوگوں کے دل میں اُس کے خلاف شک و شبہ اور بڑھ گیا چونکہ اِن کے خیال میں اس علاج کا جادُو سے گہرا تعلق تھا۔ جب دونوں بہنوں کی ماں کی مقامی جاگیردار کے محل میں ملازمت ختم کر دی گئی تو محل میں رہنے والوں پر آفت ٹوٹ پڑی۔ جاگیردار کے دونوں بیٹے نہ صرف شدید بیمار ہو گئے بلکہ اُن پر مرگی کے دورے پڑنے لگے۔ اس پراسرار بیماری نے ان دونوں بچوں کے والدین اور اُن کی دس سالہ بہن کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جب جاگیردار کا ایک بیٹا بیماری سے چل بسا تو گائوں کے لوگوں نے اتفاق رائے سے جون کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ جب دونوں بہنوں اور اُن کی والدہ کو جیل لے جایا جا رہا تھا تو جون نے اُس وقت کے دستور کے مطابق روٹی طلب کی اور ساتھ ہی یہ دُعا مانگی کہ اگر وہ گناہ گار ہے تو روٹی کھاتے ہی اُس کا دم نکل جائے۔ خدا کاکرنا یوں ہوا کہ جون روٹی کھاتے ہی دم توڑ گئی اور اس طرح اُس کی دو بد نصیب اور بے گناہ بیٹیوں کی سزائے موت کے لئے زمین ہموار ہو گئی۔ جن عورتوں کو جادوگرنی یا چڑیل ہونے کے الزام میں تفتیش کے لئے گرفتار کیا جاتا تھا، اُن پر دوران تفتیش اتنا تشدد کیا جاتا تھا کہ وہ خود ہی چڑیل ہونے کا عتراف کر لیتی تھیں۔ مذکورہ بالا خواتین کی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ جس جاگیر دار کی ملازمہ رہ چکی تھیں وہ اُس وقت کے برطانیہ کے بادشاہJames اوّل کا دوست تھا۔ جیمز کئی بار اپنے دوست کے محل میں مہمان رہا اور اُسے پختہ یقین تھا کہ ان تینوں چڑیلوں نے اُس پر بھی ٹونا ٹوٹکا آزمایا ہے جس کی وجہ سے وہ کئی مصیبتوں میں گرفتار ہوا اور بدنصیبی اُس کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ اس کتاب کی فاضل مصنفہ کی رائے میں جادوگروں کے وجود پر یقین اور اُنہیں سخت ترین سزائیں دینے کی پالیسی پر عمل درآمد کو جو فروغ سترہویں صدی میں حاصل ہوا اُس کی وجہ اصلاحِ کلیسا کی نئی تحریکProtestant Reformation تھی۔ جو خلا کیتھولک عقیدہ کی مافوق الفطرت روایات کے خاتمہ سے پیدا ہواوہ جادُو، کالے اور سفلی علم، جنات، بدرُوحوں، بھوت پریت اور چڑیلوں پر اعتقاد نے پورا کیا۔ برطانیہ تو اس تاریک دور سے صدیوں قبل نکل آیا، سوچنے اورفکر کرنے کی بات یہ ہے کہ پرلے درجے کی جہالت اور بدترین ضعیف الاعتقادی کا ہمارے ذہنوں پر بدستور قبضہ ہے ،نہ صرف پاکستان میں بلکہ برطانیہ میں بھی صرف پاکستانیوں اور بھارتیوں کے ذہنوں پر ،جس میں ہندو اور مسلمان کی کوئی تمیز نہیں ۔لندن سے شائع ہونے والے ہر اُردو روزنامہ اور ہفت روزہ میں اُن پیروں ،فقیروںاور عاملوں کے اشتہارات شائع ہوتے ہیں جو کم از کم بیس پچیس پائونڈ (اور اگر زیادہ مشکل کام ہو تو ’’مناسب‘‘ معاوضہ لے کر) آپ کے تمام مسائل (مثلاً گھریلو ناچاقی، نافرمان اولاد، محبت میں ناکامی، کاروبار میں نقصان وغیرہ) کو تعویذاور دم درود کے ذریعہ حل کر سکتے ہیں۔ اگر آپ پر آپ کے کسی بدبخت دشمن نے جادو کر کے آپ کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے تو اُن کے پاس اس کا توڑ بھی ہے (فوجی زبان میں Anti Missile Missile ) ہر روز، ہرماہ، ہر سال ان اشتہاروں کی بہتات ثابت کرتی ہے کہ یہ کاروبار خوب چمک رہا ہے اور پھل پھول رہا ہے۔ یہ کالم اس دُعا پر ختم کیا جاتا ہے کہ خداوند تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے، ہمیں اپنی برکتوں اور نعمتوں سے نوازے خصوصاً سب سے بڑی نعمت سے جس کا نام علم اور شعور اور آگہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں