ذکرجنت نظیرکشمیرکا

گزشتہ کالم لکھا ہی تھا کہ مجھے آئر لینڈ روانہ ہونا پڑا۔25 اکتوبرکی شام واپس آیا تو روزنامہ ’گارڈین ‘پڑھے بغیر سو جانا خلاف معمول تھا۔’گارڈین ‘اتوار کو شائع نہیں ہوتااس لیے ہفتے کا پرچہ معمول سے دُگنی( 58 صفحات) ضخامت کا ہوتا ہے۔اس سے پیشتر کہ نیند غالب آجاتی ،میں تیزی سے صفحہ نمبر47 پر پہنچ گیاجس پر ’گارڈین ‘کی روشن دماغ، حق گوئی میں بے مثال، سادہ اورسلیس تحریر کی ماہر تبصرہ نگارDeborah Orr کی جاذب نظر تصویر کے ساتھ متوجہ کرنے اور آنکھیں کھولنے والا مضمون نظر آیا جس کا موضوع سرینگر اور وادی کشمیر تھا۔ یہ خاتون وہاں چند دن کی تعطیلات گزار کر لندن واپس آئیں تو سیدھی رائل کورٹ تھیٹر میں ’’عید گاہ کے جنات‘‘ نامی اُس ڈرامہ کو دیکھنے چلنے گئیں جس کاگزشتہ کالم میں ذکر کیا گیا تھا۔صحافی خاتون نے اپنے قارئین کو دعوت دی کہ وہ اپنی آنکھیں بند کرکے اُس شہر کا تصور کریں جو پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے ، سرسبز درختوں سے بھرے ہوئے خوبصورت اور رعب دار پہاڑٰ، شہر میں ایک ایسی جھیل جس کا پانی اتنا صاف شفاف کہ آپ اپنا چہرہ دیکھ سکیں۔ جھیل میں کنول کے پھول تیرتے اور اُوپر آبی پرندے اُڑتے رہتے ہیں ،جن میں اس انگریز خاتون کا دل پسند King Fisher بھی شامل ہے۔ سلمان رُشدی ملعون جان بوجھ کرحضور پاک ﷺ کی گستاخی پر مبنی غلیظ اور دل دُکھانے والی رسوائے زمانہ کتاب ’’شیطانی آیات‘‘لکھ کراپنی دنیا وآخرت تاریک نہ کرتا تو اس کاپہلا ناول ’’اطفال نصف شب‘‘جو اُس کی پہلی تصنیف بھی تھی اُسے نوبل انعام کااعزاز دلا دیتی۔ رُشدی ،جس کا اپنا تعلق بھی کشمیر سے تھاکا یہ ناول ان سطور سے شروع ہوتا ہے:’’یہ ان دنوں کی بات ہے جب کشمیر کو بجا طور پر جنت کہا جا سکتا تھا۔ اگر سیاح تصویریں اُتارتے ہوئے نظر آجاتے تو اُنہیں جاسوس قرار دے کر گولی نہ ماری جاتی تھی۔اگر جھیل میں تیرتی ہوئی سینکڑوں ہائوس بوٹ کہلانے والی کشتیوں میں ڈیرے لگانے والے انگریزوں کو نظر انداز کر دیاجائے تو وادی کشمیرکا منظر نامہ صدیاں گزر جانے کے باوجود بالکل نہیں بدلا۔ بالکل وُہی ہے جو مغلیہ دور میں تھا‘‘۔ اس صحافی خاتون نے بھی سرینگر جا کر جھیل میں تیرنے والی ایک ہائوس بوٹ میں قیام کیا۔ یادگار اور بے حد خوشگوار قیام۔ اُنہوں نے تصویریں اُتاریں مگر اُن کو کسی نے جاسوس نہ سمجھا اور نہ اُن پر گولی چلائی گئی۔ ان کی رائے میں تشدد کی بدترین لہر گزر چکی ہے۔ کم از کم وقتی طور پر۔ بھارتی فوج جن دنوں تحریک آزادی کو وحشیانہ طاقت سے کچلنے میں مصروف تھی ،بیرونی دُنیا کے سیاحوں کو وادی کشمیر کی سیر کرنے کی اجازت نہ دیتی تھی۔ خاتون لکھتی ہیں۔ ’’پہاڑ بھی وہی۔ ان کا حسن اور شکوہ بھی وہی۔ جھیل بھی وہی۔ جھیل پر تیرنے والے کنول کے پھول بھی وہی۔ جھیل پر پرواز کرنے والے آبی پرندے خصوصاًKing Fisher بھی وہی۔ مگر اب سرینگر جنت نہیں رہا۔ تشدد اور اس سے پیدا ہونے والے خوف وہراس نے سرینگر کے درودیوار ، زمین ،فضا اور اُن کے درمیان ہر شے کو متاثر کیا ہے اور اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے کہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ جنگ آزادی نے کشمیر کو بری طرح مجروح کر دیاہے۔ جھیل ہو یا وادی میں اُگنے والے درخت اور پھولوں کے پودے ،سب اُداس اور غم و اندوہ میں ڈوبے ہوئے لگتے ہیں۔ اگر آپ سرینگر جا کر آنکھیں اور کان بند رکھیں، صرف سانس لیں تو اُداسی اور شدید صدمہ کی کیفیت آپ کے رگ و پے میں سما جائے گی‘‘۔خاتون صحافی سرینگر میں بہت سے لوگوں سے ملیں مگر کسی ایک نے بھی بھارتی فوج کی طرف سے کئے جانے والے قتل عام،خود کش حملوں، جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا ذکر نہیں کیا۔ 1996ء سے پہلے سیاحت (زراعت کے بعد) وادی کشمیر کی دُوسری بڑی صنعت تھی۔ آج سرینگر کے لوگوں کی اکثریت ایک ہی دُعا مانگتی ہے کہ وہ بھلے دن پھر لوٹ آئیں جب سرینگر میں سیاحوں کی اتنی بہتات ہوتی تھی کہ وہ ہر طرف نظر آتے تھے۔ صحافی خاتون سرینگر سے واپسی پر’’عید گاہ کے جنات‘‘ نامی ڈرامہ دیکھنے اس لیے گئیں کہ ڈرامے کا ایک کردار (بلال) فٹ بال کا اتنا اچھا کھلاڑی ہے کہ برازیل کی ایک ٹیم میں شمولیت کے لئے آزمائشی امتحانی مقابلے میں حصہ لینا چاہتا ہے مگر ایسا کرنے میں ایک بڑی رُکاوٹ یہ تھی کہ ہندوستان کے فوجی افسروں نے یہ شرط عائد کر دی کہ اُسے اپنی قمیض پر بھارتی پرچم کا نشان لگانا پڑے گا۔ بلال کے لئے اس شرط کو ماننا ہر گز آسان نہ تھا۔ بھارتی پرچم کا نشان لگانے والے سے نہ دوست ملنا پسند کریں گے اور نہ رشتہ دار اور ممکن ہے کہ حریت پسند اُسے اپنی گولی کا نشانہ بنا کر اس غداری کی سزا دے دیں۔ بلال کی بہن (اشرفی) کی ذہنی حالت دس سال کے بچے کی ہے کیونکہ وہ دس سال کی تھی جب اس کے والد (جب وہ اُن کی گود میں تھی) بم کے دھماکے سے ہلاک ہوگئے تھے۔ اشرفی کا علاج کرنے والے ماہر نفسیات ڈاکٹر بیگ تحریک آزادی کے مخالف ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اب اہل کشمیر میں مزید دکھ اٹھانے کی سکت نہیں۔خاتون صحافی دیانتداری سے اعتراف کرتی ہیں کہ وہ کشمیر یوں کے لیے ناقابل برداشت عذاب پیدا کرنے میں برطانوی حکومت کو بڑی حد تک ذمہ دار سمجھتی ہیں۔ (اُن کا اشارہ ریڈکلف ایوارڈ کی طرف ہے جس کی وجہ سے بھارت کو کشمیر تک زمینی راستہ مل گیا) ۔برٹش راج میں انگریز افسروں کو کشمیر میں زمینیں خریدنے کی اجازت نہ تھی،ان کے لئے ہندوستان میں موسم گرما اتنا تکلیف دہ تھا کہ وہ کشمیر کے خوشگوار موسم کو پناہ گاہ بنا کر وہاں ہر سال کئی ماہ گزارتے تھے۔اس کا واحد حل یہ تھا کہ بڑے بڑے بجرے بنوا کر عارضی قیام گاہ بنا لیں۔ (سرینگر کی جھیل میں ہائوس بوٹ پر قیام کر کے موسم گرما گزارنے والوں میں ہمارے قائداعظم بھی شامل تھے) ۔ صحافی خاتون کو سرینگر اور اٹلی کے مشہور شہر وینس میں گہری مماثلت نظر آئی، دونوں شہر جھیلوں اور آبی گزر گاہوں پر آباد ہیں۔ کشمیری شکارے اطالوی Gondolas سے ملتے جلتے ہیں۔ جب صحافی خاتون کا شکارا سرینگر کے پرانے شہر کے وسط سے گزرا تو چپو چلانے والے نے کہا کہ آپ کے لئے اندازہ کرنا مشکل ہوگا کہ ہنگاموں اور مصیبتوں سے پہلے یہ منظر کتنا خوبصورت تھا۔ اب کیا نظر آتا ہے؟خالی یا اُجڑے ہوئے گھر،لکڑی کے بنے ہوئے گھرجن کی ہر بالکونی صناعی کا دلکش نمونہ ہے۔ ان دل موہ لینے والے گھروں کے مالک زیادہ تر ہندوجان کے خوف سے وہاں سے جا چکے ہیں، جھیل کا پانی بھی پہلے کی طرح شفاف نہیں رہا،گدلا ہے اور آلائشوں سے اٹا ہوا۔ ملاح نے کہا کہ ہندوئوں کو پانی صاف رکھنے کا سلیقہ آتا تھا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ جھیل کو صاف رکھنے میں موجودہ حکومت ناکام ہوچکی ہے اور جب تک کشمیر آزاد نہ ہوگا اُس وقت تک جھیل کی حالت زار میں کوئی تبدیلی نہ آئے گی۔ صحافی خاتون نے سرینگر کو مشہور برطانوی شاعر ملٹن کی زبان میں گم شدہ جنت(Paradise Lost)کہا۔ پہلے زمانوں میں سرینگر میں ہندو، مسلم، سکھ اور بدھ مت کے پیروکار سب اچھے پڑوسیوں کی طرح خوش اخلاقی سے رہتے تھے۔ نہ جانے وہ وقت پھر کب آئے گا ۔ صحافی خاتون نے اپنا مضمون ڈرامہ کے کردار ڈاکٹر بیگ کی اس رائے پر ختم کیا کہ کشمیر کی آزادی کا خواب کتناہی دلفریب کیوں نہ ہو، اب اُس کی عملی تعبیرشاید ناممکن ہوچکی ہے۔ کشمیر کو بھارتی قبضے سے بفرضِ محال آزادی مل بھی گئی تو اُس پر پاکستان یا چین یا دونوں قبضہ کر لیں گے۔ میرے خیال میں بھارتی ڈرامہ نگار (موجمدار) نے ڈاکٹر بیگ کے منہ سے وہ کہلوایا ہے جو اُس کی اپنی اور بھارتی رائے عامہ کے ایک بڑے حصے کی ترجمانی کرتا ہے۔ ضروری نہیں کہ تاریخ کا فیصلہ ان کی رائے کی توثیق کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں