کچھ احوال آئر لینڈ کا

25 اکتوبرکو طلوع آفتاب سے پہلے راقم الحروف لندن کے پانچوں ہوائی اڈوّں میں سب سے زیادہ مصروف اڈے ہیتھرو (Heathrow)جاپہنچا۔ منزل تھی پڑوسی ملک آئر لینڈ کا دارالخلافہ ڈبلن ۔ پہلے دن دفتری کام اور دُوسرے دن سیرو سیاحت جو ایک آبشار اور جھیل کے نظارے تک محدود تھی۔ برطانیہ میں 46 برس طویل قیام کے دوران یہ اس مسافر کا آئر لینڈ کا دُوسرا دورہ تھا۔ 40 سال پہلے بی بی سی کے ایک پروگرام کی تیاری کے لیے وہاں گیا اورسارا وقت دُنیا کی مشہور اور محترم یونیورسٹی کے ٹرینیٹی کالج میں سیاسیات کے اساتذہ کے انٹرویو ریکارڈ کرنے میں گزر گیا۔ اس کالج کا وہی بلند علمی درجہ ہے جو برطانیہ میں آکسفورڈ اور کیمبرج کا اور امریکہ میں ہارورڈ کا ہے۔ دونوں ملک ایک دُوسرے کے اتنے قریب ہیںکہ پرواز کادورانیہ صرف ایک گھنٹہ تھا۔ آئر لینڈ بھی برطانیہ کی طرح ایک بڑا جزیرہ ہے مگر بارش کی فراوانی میں برطانیہ پر فوقیت رکھتا ہے۔ میرے دو روزہ قیام کے دوران بھی موسلا دھار بارش ہوتی رہی مگر زندگی کے معمولات درہم برہم کرنے میںکامیاب نہ ہوسکی۔ نشیب و فراز کے باوجود پانی کسی جگہ کھڑا نظر نہ آیا۔ میں واپس آنے لگا تو میرے میزبانوں نے کہا کہ آپ کو آئر لینڈ کے خوبصورت قدرتی مناظر توغالباً زیادہ دیر یاد نہ رہیں گے مگر آپ کو اپنے گیلے کپڑے سکھانے میں زیادہ وقت لگے گا۔ میں نے واپسی کے ایک ہفتہ بعد اُنہیں یہ اچھی خبر دی کہ کپڑے تو جلد سوکھ گئے مگر یادیں وقت گزرنے کے ساتھ اور سرسبزو شاداب ہوتی جاتی ہیں۔ آیئے اب آپ کو اس ملک کے دُکھوں کی درد ناک تاریخ کی چند باتیں بتائیں۔ بارہویں صدی میں کیتھولک فرقہ کے سربراہ پوپ ایڈریان نے آئر لینڈ کی حکومت برطانیہ کے بادشاہ ہنری اول کو بطور انعام بخش دی۔اس بخشش کا نتیجہ یہ نکلا کہ آئر لینڈ کے عوام اور برطانوی حکومت میں ٹھن گئی اور یہ خونریز تصادم آٹھ سوسال تک جاری رہا۔ برطانوی قبضے کے خلاف اتنی بغاوتیں ہوئیں کہ گنوانا مشکل ہوگا ۔ بڑی مصیبت یہ بھی تھی کہ مذہبی مسلک صرف مختلف نہیں بلکہ ایک دُوسرے کی ضد تھے۔۔۔۔۔ برطانیہ پروٹسٹنٹ اورآئر لینڈ کٹٹر کیتھولک۔ شکست مان لینے کے بجائے 1800ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے ایکٹ آف یونین نامی قانون منظور کیا اور آئر لینڈ کو قانونی طور پربرطانیہ میں ضم کرلیااورآئر لینڈ کے لوگوں کو برطانوی پارلیمنٹ کے لئے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق دے دیا۔ آئر لینڈ کے عوام کی مزاحمت نے اتنا زور پکڑا کہ صرف انتیس برس بعد برطانوی پارلیمنٹ مجبور ہو گئی کہ Catholic Emanicipation Act منظور کرے تاکہ مقامی آبادی کے مجروح جذبات اور زخموں پر مرہم رکھا جاسکے۔ تالیف قلوب کا یہ کام بمشکل شروع ہی ہوا تھا کہ ایک اور بڑے عذاب نے آئر لینڈ کے ناراض اور دُکھی لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، یہ خوفناک قحط کی صورت میں تھا جو تاریخ میں Great Potato Famine کے نام سے مشہورہے۔ یہ عذاب 1845ء سے 1849ء تک پورے پانچ برس جاری رہا۔محتاط اندازے کے مطابق تقریباً دس لاکھ افرادفاقوں اور بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔ اگلے آٹھ برسوں کے دوران سولہ لاکھ لوگوں نے امریکہ نقل مکانی کر کے جان بچائی۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھی نیویارک میں آئریش باشندوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے جتنی برطانیہ کے شمالی شہروں مثلاً بریڈ فورڈ میں میر پور(آزاد کشمیر)یا ناروے میں کھاریاں کے رہنے والوں کی۔شاید اسی لیے امریکی سیاست دان آئریش لوگوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے اپنا کوئی نہ کوئی آبائی رشتہ آئر لینڈ سے جوڑتے ہیں اور اگر الیکشن جیت جائیں ،جیسے جان ایف کینیڈی تو آئر لینڈ جا کر اپنے آبائو اجداد کی قبر پر حاضری دیتے ہیں اور اپنے آئریش ہونے پر فخر کا اظہار کرتے نہیں تھکتے۔ قحط کے نام سے ہی آپ نے اندازہ لگالیا ہوگا کہ آئرش لوگوں کی خوراک میں آلو کا حصہ اتنا زیادہ تھا کہ جب اس کی فصل تباہ ہوگئی اورسالہا سال ہوئی تو لوگ بھوک سے مرنے لگے (جس طرح دُوسری جنگ عظیم کے دنوں میں چاول کی عدم دستیابی سے بنگال میں اتنا بڑا قحط پڑا کہ وہ آئرلینڈ سے بھی زیادہ لوگوں کی جان لے گیا) آئر لینڈ کے باشندوں کی پرُ امن مزاحمتی تحریک کامیاب نہ ہوئی تو اُنہوں نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق1905ء میں مسلح جدوجہد شروع کر دی۔آئی آر اے نامی تحریک نے برطانیہ کے خلاف گوریلا جنگ اوردہشت گردی کا وہ سلسلہ شروع کیا جو 1922 ء میں آئر لینڈکو آزادی مل جانے تک جاری رہا۔تاریخ کا یہ عمل دُنیا کے بہت سے ممالک میں بار بار دُہراگیا مگر افسوس کہ یہ عبرت دینے اور سبق سکھانے میں بار بار ناکام ہوتا رہا۔دُنیا بھر میں جو درجنوں ممالک برطانوی تسلط سے آزاد ہوئے وہ آزادی ملنے کے بعد برطانوی دولت مشترکہ میں شامل ہوگئے اورجب تک ری پبلک نہ بنے اور گورنر جنرل کی بجائے اپنا صدر مملکت منتخب کرنا نہ شروع کیا وہ ملکہ برطانیہ کو اپنا سربراہ تسلیم کرتے رہے۔ ہندوستان کی 1952ء اور پاکستان کی 1956ء تک یہی صورت حال رہی۔ آئرلینڈ دُنیا میں واحد ملک ہے جو برطانیہ سے آزاد ہوا تو اُس نے دولت مشترکہ میں شمولیت قبول نہ کی،اس کے باوجوددونوں ہمسایہ ممالک (برطانیہ اورآئرلینڈ) میں گہری دوستی اور بے حد قریبی رشتہ ہے۔ ایک دُوسرے کے ملک میں سفر کرنے اور وہاں جا کر ملازمت کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔ میں آپ کو ابھی آئر لینڈ کے بارے میں اور باتیں بتاتا مگرآج کے اخبار (گارڈین) میں ملالہ کی کتاب پر فاطمہ بھٹو کا تبصرہ شائع ہوا ہے جو آپ کے لئے زیادہ قابل توجہ اور دلچسپی کا موجب ہوگا۔ فاطمہ کی پہلی کتاب تو ذاتی سرگزشت ہے جو اُنہوں نے ایک سابق وزیراعظم کے بیٹے اور دُوسری وزیراعظم (جو حاضرسروس بھی تھیں) کے بھائی کے قتل کے حوالے سے لکھی اور اُسے یورپ میں کافی پذیرائی ملی۔ اب انہوں نے ایک ناول لکھا ہے The Shadow of the Crescent Moonیہ اگلے ماہ برطانیہ میں شائع ہوگا۔ فاطمہ نے تبصرے کا آغاز ہی کرکٹ کی زبان سے چوکا مار کرکیا، وہ کہتی ہیں کہ عربی میں انقلاب کا لفظ(الثورہ)مونث اسم ہے۔یہ بجا ہے کیونکہ عورتوں کی شمولیت کے بغیرتبدیلی کی کوئی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ملالہ نے اپنی کتاب مشہور صحافی خاتون کرسٹینا لیمب کے تعاون سے لکھی جس کا مطلب یہ ہے کہ خیالات ملالہ کے ہیں اور تحریر کرسٹینا کی۔ اس صورت میں یہ تعین کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ بولنے والے نے کیا کہااور لکھنے والے نے کیا لکھا؟ فاطمہ نے افسوس ظاہر کیا ہے کہ پاکستان میں بہت سے حلقوں کی طرف سے ملالہ کی مخالفت کی گئی ہے چونکہ ان کے خیال میں وہ امریکہ نواز عناصر کی آلہ کار بن گئی ہے۔ فاطمہ نے لکھا ہے کہ ظاہر ہے کہ ملالہ طالبان پر کڑی تنقید کرتی ہے مگر اس نے ڈرون حملوں کے خلاف کھل کر بات کی ہے۔ملالہ نے ناپسندیدہ افراد کے اغوا ، جاگیر داری ،حدود آرڈیننس اورریمنڈ ڈیوس کی رہائی کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ فاطمہ نے تبصرے کا اختتام بھی بہت اچھے طریقے سے کیا اور لکھا :’’مغربی طاقتوں کے مفاد میں یہی ہے کہ وہ جن ممالک پر قبضہ کرتی ہیں اور وہاں لوگوں کے قتل عام کی ذمہ دار ہوتی ہیں، اپنے آپ کو ان لوگوں اور اپنے ظلم کا شکار ہونے والوں سے زیادہ مہذب ثابت کریں‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں