ممبئی حملوں سے متعلق کتاب پر ایک اور تبصرہ

اس کالم کا نام ہوناچاہئے ''گذشتہ سے پیوستہ‘‘۔ قارئین کویاد ہوگا کہ گزشتہ کالم ممبئی پرکیے جانے والے حملے پرصحافی خاتون (کرسٹینالیم) کے تبصرے کے لیے وقف کیا گیا تھا۔اُس کالم کی اشاعت کے بعد برطانیہ کامعتبرہفت روزہ اکانومسٹ پڑھا۔کتابوں پرتبصرے کے حصے میں اسی کتاب(The Siege: Three days of terror inside the Taj) پرتبصرہ میری خصوصی توجہ کا مرکز بنا۔ آئیے! آپ بھی جی کڑا کر کے اس کا خلاصہ پڑھیں:''پانچ سال قبل پاکستانی مسلم افراد نے بھارت کے تجارتی مرکز ممبئی پرخوفناک حملہ کیا۔ دس کے دس حملہ آوروں کا تعلق لشکر طیبہ سے تھا۔ یہ جہادی تنظیم آئی ایس آئی کے ساتھ اتنا قریبی تعلق رکھتی ہے کہ انہیں یک جان دو قالب کہا جا سکتا ہے۔ آئی ایس آئی کے ایک فوجی افسر (جس کا فرضی نام میجر اقبال تھا) نے ان دہشت گردوں کو مکمل فوجی تربیت دی۔ پاکستانی فوج کا ایک پُراسرار جاسوس (جس کا خفیہ نام Honey Bee تھا) حملے کے دوران دہلی میں مقیم رہا تاکہ حملہ آور دہشت گردوں کی لمحہ بہ لمحہ رہنمائی کر سکے۔دُوسرا شخص جوحملہ آوروں کی قیادت پر مامور تھااس کا نام David Headley تھا۔۔۔۔۔ وہ اس معنی میں ڈبل ایجنٹ تھا کہ بیک وقت آئی ایس آئی اور سی آئی اے دونوں کا تنخواہ دارتھا۔دہشت گردوں نے ممبئی شہر میں شدید خوف وہراس پھیلایا، بھارتی فوج کو ذلیل کیا اوردُنیا بھر کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔ممبئی میں ان کے کئی اہداف تھے۔۔۔ ایک ریلوے اسٹیشن، دو مہنگے ترین ہوٹل،ایک ایسا چائے خانہ جو غیر ملکی سیاحوں میں بہت مقبول تھااوریہودیوں کی عبادت گاہ ۔ حملے کا سب سے بڑا ہدف تاج محل ہوٹل تھا۔اس سوسال پرانے اورفقید المثال ہوٹل کی شان میں انگریز شاعروں نے قصیدے لکھے ۔آپ قصیدے کا ایک مصرع پڑھنے پر اکتفا کریں:"Giant sand castle tipped from its mould"اس ہوٹل پرچاردہشت گردوں کاحملہ تین دن جاری رہا۔وہ محصورافراد کی بڑی تعداد کو ہلاک اورعمارت کو نذر آتش کرتے رہے۔صومالیہ کے دہشت گردوں نے ٹیلی ویژن پر یہ خوفناک مناظراتنی توجہ سے دیکھے کہ انہیں دو ماہ قبل کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے بارونق بازار میں بالکل اُسی طرح کا حملہ کرنے دہرانے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی (جس میں 72 افراد ہلاک ہوئے)
اکانومسٹ کے تبصرہ نگار نے بھارتی حکومت کا کوئی لحاظ نہیں کیا اور بے رحمی سے لاٹھی چارج کرتے ہوئے لکھا کہ پانچ سال گزر گئے مگر بھارتی حکومت نے ابھی تک کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی کہ وہ معاملے کی تہہ تک پہنچے اور تفتیش کے بعد پتا چلائے کہ یہ حملہ کیونکر ممکن ہوا؟اس طرح کی کارروائیوں کی کامیابی سے روک تھام کیوں نہ کی جا سکی اور ایسے اقدامات کرنے میں کیوں ناکام رہی کہ اس طرح کا حملہ دوبارہ نہ ہو سکے؟ بھارتی سیاست دان پاکستان پرالزام لگا کرمطمئن ہو جاتے ہیںکہ اُن کا کام مکمل ہو گیا ہے۔ان کی طرف سے یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ لشکر طیبہ جیسی جہادی تنظیمیں آئی ایس آئی کی پیداوار ہیں اوراپنے بنانے والوں کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتی ہیں۔ تبصرہ نگار کتاب کے مصنفین سے متفق ہے کہ جو لوگ ممبئی کے شہریوںاورتاج ہوٹل کے مہمانوںکے قتل عام کے جرم کے مرتکب ہوئے،اُنہیں آج تک عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا تاکہ یہ ثابت ہوتاکہ اصل مجرم کون ہے؟ لگتا ہے کہ ممبئی کے حملہ نے صرف ایک کام کیا اور وہ تھا دو پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات میں بے حد خرابی اورقیام امن کی ہرکوشش کی ناکامی۔تبصرہ نگار نے بتایا کہ اس کتاب کے دونوں مصنفین برطانوی تفتیشی صحافی ہیں جنہیں جنوبی ایشیا کے خطے کے مطالعے میں مہارت حاصل ہے اوراُنہوں نے یہ کتاب بڑی جانفشانی سے لکھی ہے۔انہوں نے نشانہ بننے والوں، فوجی اورغیرفوجی افسروںاور حملہ آوروں کے رشتہ داروں سے کئی ملاقاتیں کیں۔ تبصرہ نگار نے اعتراف کیا کہ تاج ہوٹل کودوبارہ کھولا گیا تو وہاں رہنے والوں میں وہ بھی شامل تھا اوراس نے حملے کی داستان اسی ہوٹل میں قیام کے دوران پڑھی۔اس نے ہماری معلومات میں یہ اضافہ بھی کیا کہ انہی مصنفین نے اس سے پہلے دواوردلچسپ کتابیں بھی لکھی ہیں۔ ایک کتاب کانام مرغزار(The Meadow)ہے جو1995ء میں وادی کشمیر میں مغربی سیاحوں کی پاکستانی جہادی تنظیموں کے ہاتھوں ہلاکت پرجبکہ دُوسری ''دھوکہ‘‘ (Deception) ہے جو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی مرحلہ وارتاریخ بیان کرتی ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ دونوں کتابوں کے موضوعات اور مندرجات سے ہی ان کا تعصب، جانبداری اور پاکستان دشمنی واضح ہو جاتی ہے۔اگر وہ سچ کی تلاش میں دلچسپی رکھتے تھے تو اُنہیں کشمیر میں ہندوستانی فوج کا غاصبانہ قبضہ، بھارتی کارندوں کے ناقابل بیان مظالم، اُڑیسہ اوردُوسری ریاستوں میں کسانوں کی باغیانہ تحریک اور مسلح جدوجہد کیوں نظر نہ آئی؟ لگتا ہے کہ ان کا ایک کان سماعت سے اورایک آنکھ بصارت سے محروم ہے۔غالباً یہ رائے دیتے وقت میں نے (جزوقتی برطانوی ہونے کی وجہ سے) ان کا لحاظ کیا ہے۔ زیادہ مناسب ہوتا کہ میں انہیںاندھے اور بہرے لکھتا۔ یہ دونوں جو بھی لکھیں میرے وطن عزیز کے خلاف ہی ہوگا۔میں یہ دعویٰ تو نہیں کرتااورنہ کر سکتا ہوںکہ میرے بدنصیب ملک کی ہر حکومت نے پہاڑجتنی بڑی غلطیاں نہیں کیں۔بھارت کے ہاتھ تین دریا فروخت کرنے سے ڈرون حملوں کی اجازت دینے تک، مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے سے بلوچستان میں قوم پرستی کی تحریک کو کچلنے کی کوشش کرنے تک،آزادی کشمیر کے بجائے الحاق کشمیرکی ناکام تگ ودوکرنے سے افغانستان میں امریکی آلہ کار بن کر روس کے خلاف نام نہاد ''جہاد‘‘ میں حصہ لینے تک۔۔۔۔۔پوراجسم داغ داغ ہو جائے تو پھرمرہم کہاں کہاں رکھیں؟ مگر یہ ہمارا اپنا داخلی معاملہ ہے، ہمارے گھر کی بات ہے۔ برطانوی صحافیوں کو جانبداری اور تعصب بالکل زیب نہیں دیتا۔اُنہیں بھارتی حکومت کے بے شمار مظالم میں سے ایک بھی نظر نہیں آتا۔کیوں نہیں آتا؟ تبصرہ نگارنے دیانت داری سے لکھا ہے کہ ان دونوں مصنفین کی تینوں کتابوں میں اس موقف کوسچ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان اپنے پڑوسی ممالک کی سکیورٹی کے لیے بڑاخطرہ بن چکا ہے۔تبصرہ نگار نے بھارتی حکمرانوں کو بھی نہیں بخشا ،اُن کے بارے میں لکھاکہ وہ مغرور ہیں، خود پسند ہیں،اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتے ہیں، خرابیوں سے نظریں چرائے رکھتے ہیں،ابن الوقتی کے فن میں ید طولیٰ رکھتے ہیں اور مصلحت پسندی کو اُصول پرستی پر ترجیح دیتے ہیں۔ تبصرہ نگار نے صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ اگر بھارتی قیادت اپنی کوتاہیوں، نالائقیوں اورشکستوں پر غورکرے تو وہ بہتر اندازمیں حکمرانی کر سکتی ہے۔تاج ہوٹل کے ملازمین اورپولیس نے بہادری سے بہت سے لوگوں کی جان بچائی۔ پولیس اور فوج کی بے حد کمزورکارکردگی کی پردہ پوشی ممکن نہیں۔ بہت سے لوگوں نے حد درجہ نااہلی اورنالائقی کا مظاہرہ کیا۔تاج ہوٹل کی انتظامیہ کواس حملے کے بارے میں پولیس کی طرف سے خبردار کر دیا گیا تھا مگرانہوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی بلکہ حفاظتی عملے میں کمی کر دی تاکہ ولائتی مہمانوں کو زیادہ مسلح چوکیداروں کی موجودگی گراں نہ گزرے۔ممبئی پولیس کے سربراہ کا نام حسن غفور ہے، اُس نے اپنے ماتحتوں کو ہدایت دی کہ وہ فوجی کمانڈو یونٹ (جوبارہ گھنٹے کے بعد دہلی سے بمبئی پہنچا) کی آمد کا انتظار کریں۔
یہ گزشتہ پانچ برسوں میں ممبئی پر ہونے والا دہشت گردی کا تیسرا واقعہ تھا۔ 1993 ء میں بم دھماکوں نے ڈھائی سو سے زائد افراد کی جان لے لی تھی۔ 2006 ء کے دھماکوں سے مرنے والوں کی تعداد 207 تھی۔ تاج ہوٹل پر حملہ اس لیے دُنیا بھر میں خصوصی توجہ کا مرکز بنا کہ مرنے اور زخمی ہونے والوں میں مغربی ممالک کے بہت سے باشندے شامل تھے۔ اس حملے کا سب سے بڑا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارتی حکومت اور سیاسی قیادت امریکہ سے بغل گیر بلکہ شیر وشکر ہوگئی۔ وہی امریکہ جسے ہم ساٹھ برسوں سے اپنا مائی باپ سمجھتے چلے آئے ہیں:
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں