چینی ملکہ کے بارے میں کچھ اور

گزشتہ کالم چینی ملکہ CIXI پر لکھی جانے والی دلچسپ کتاب کی تقریب رونمائی کی نذرہوگیا۔اس کتاب پر ہراچھے اخبار اور رسالے میں تبصروں کی بھرمار ہوگئی۔نامناسب ہوگا، اگرکئی اہم موضوعات چھوڑکراپنے قارئین کوآئندہ کئی کالم CIXIپر لکھے جانے والے تبصروں کے لیے وقف کردیے جائیں؛البتہ قارئین سے جان کی امان مانگتے ہوئے مندرجہ ذیل سطور میں ان تمام تبصروں کا ترجمہ اورکم ازکم الفاظ میں خلاصہ بیان کروں گا۔وعدہ کرتا ہوںکہ آئندہ CIXI کا نام نوک قلم پر نہیں آئے گا۔ 
بادشاہ کی وفات پرCIXIکے پانچ سالہ بیٹے کی رسم تاجپوشی میں وہ اس لیے شرکت نہ کر سکی کہ شاہی محلات کے جس احاطے (Forbidden City ) میں یہ رسم ادا کی گئی اس میں کسی بھی درجے کی خواتین نہیں جاسکتی تھیں۔بادشاہ نے بستر مرگ پر تین بزرگ ترین درباریوںکواپنے پانچ سالہ جانشین کااتالیق اورسرپرست مقررکیا مگر CIXI کوان تینوںکواولین فرصت میں ہلاک کر کے اُن سے جان چھڑانے میںکوئی دقت پیش نہ آئی۔ اقتدارِ مطلق کے حصول میں اُس کی راہ میں صرف تین بڑے پتھر تھے،وہ ہٹائے گئے تو CIXI کے لیے پورے سینتالیس برس تک چین کی مطلق العنان حکمران بن جانے میںکوئی رکاوٹ نہ رہی۔ وہ اس قدر مصروف رہی کہ آخری سانس آنے سے صرف تین گھنٹے پہلے تک اُمور سلطنت نمٹاتی اوراحکامات صادرکرتی رہی۔
اُس کا پالا جتنے بھی بڑے بحرانوں سے پڑا Taiping بغاوت اُن میں سب سے بڑی تھی۔نیم عیسائی فرقے کی بغاوت کے شعلے دس برس تک بھڑکتے رہے۔آپ کوشاید یہ پڑھ کر یقین نہ آئے کہ یہ گمنام بغاوت دوکروڑ افرادکی ہلاکت کا باعث بنی۔بغاوتیںاوربھی ہوئیں مگر CIXI اُن سب کو کچل 
دینے میں کامیاب رہی۔اس کی روشن دماغی کی بدولت چین میں اختراعات،ایجادات اورنئے تصورات کا سیلاب آگیا۔۔۔ برقی تارکی ترسیل کانظام،سڑکوں کے کنارے فٹ پاتھ، بجلی کے قمقمے ، جدید فوج اورجدید بحریہ سے لے کر قومی پرچم تک۔ 1900ء میں CIXI کو پیکنگ سے مفرور ہوکرجان بچانی پڑی تواُس نے محفوظ پناہ گاہ تک جانے کے لیے بیل گاڑی استعمال کی۔منزل دورتھی،سڑکیں ناپیداورسفر بے حدکٹھن تھا۔منزل پر پہنچ کر خوش وخرم ملکہ نے اپنے فکرمنددرباریوںکوبتایا کہ اُسے بیل گاڑی اورشاہی تخت (ریشم اورمخمل سے تیارشدہ) میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوا۔جدت پسندی کا ذہنی رُجحان اپنی جگہ مگر ملکہ نے ساراسال اس ذہنی کشمکش میںگزاردیا کہ ریلوے کا لائسنس اورپٹڑی بچھانے کی اجازت دی جائے یا نہ دی جائے؟ملکہ کے ذہن میں چین کی قدیم روایات اور کلچرکااتنااحترام تھا کہ وہ سمجھتی تھی کہ ریلوے انجن کے شور سے ہزاروں مقبروں میں ابدی نیند سونے والوں کی رُوحوں کے آرام اور سکون میں خلل پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ریلوے کا نظام متعارف کرانے کی اجازت دینا ملکہ کے لیے کڑوا گھونٹ پینے کے مترادف تھا۔CIXI کے ہم عصرمورخین اُس کے خلاف لکھتے اوربدترین الزامات لگاتے رہے۔الزامات کیا تھے؟رجعت پسند،خود پسند،رحم کی خوبی سے محروم،سنگدل،اذیت پسند اورناقابل تسکین جنسی مریضہ (Nymphomaniac)۔
صرف دوواقعات پڑھ لیں توآپ کو ملکہ کی سنگدلی کا اندازہ ہوجائے گا۔ وہ خود بستر مرگ پر تھیں،زندگی کا چراغ ٹمٹمارہا تھا اورگل ہونے کو تھا مگراپنے منہ بولے بیٹے کو زہر دے کرمروا دینے سے دریغ نہ کیا۔ 1900ء میں پیکنگ سے شاہی خاندان کا بہت تھوڑے وقت میں انخلا ضروری ہوگیا مگر مصیبت یہ تھی کہ بیل گاڑیوں کی تعداد کم تھی اور سواریوں کی تعداد زیادہ۔CIXI کو پتا چلا تو اُس نے حکم دیا کہ اُس کے منہ بولے بیٹے کے باپ اوروفات پاجانے والے بادشاہ کی داشتائوں کو بالوں سے کھینچ کرقریب ترین کنویں میں گرا دیا جائے تاکہ وہ دُشمن کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔Xinjiang کے علاقے میں سرکاری حکم کی تعمیل کرتے ہوئے فوج نے جوقتل عام کیا اُس کی ساری ذمہ داری ملکہ پرعائدکی جاتی ہے۔سنگدلی صرف قتل عام تک محدود نہ تھی،کرپشن بھی زوروں پر تھی ۔حکومت سے بحریہ بنوانے کے لیے بڑی رقم منظورکروائی گئی اوراس رقم کاایک حصہ (یقیناً کافی بڑا حصہ) اپنے محلات کی تعمیر پر خرچ کر لیا۔(اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے راجہ رینٹل کے پیشروسوڈیڑھ سوسال پہلے کے چین میں بھی تھے۔) CIXI کے انتقال کوصرف تین سال گزرے تھے کہ عوامی مخالفت کا طوفان Qing شاہی خاندان کو خس وخاشاک کی طرح بہا کر لے گیا۔قوم پرست سیاست کے شگوفے پھوٹے اورچین نے اشتراکیت کی طرف اپنا لانگ مارچ شروع کردیا۔ CIXI کے دور حکومت میں جو قابل تعریف اصلاحات کی گئیں اُن سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر اُنہیں انگریزی میں ضرورت سے کم اور بعد از وقت (Too Little,Too Late)کہتے ہیں۔
یہی فاش غلطی ہم نے 1970-71ء میں کی، مشرقی پاکستان کے کروڑوں عوام کا صوبائی خودمختاری کا مطالبہ اُس وقت ( بادل نخواستہ)تسلیم کیا گیاجب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا اوربات صوبائی خود مختاری سے آگے بڑھ کرآزادی کے مطالبے تک جا پہنچی تھی۔ خدا نہ کرے کہ ہم بلوچستان کے معاملے میں بھی اسی غلطی کو دُہرائیں۔ 
CIXI کا ذکر کرتے کرتے اب کالم نگارکادل بھی بھرگیا ہے جس سے قارئین کی بے زاری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔کالم یہاں تک پہنچا تھا کہ بی بی سی ریڈیو پرنشر ہونے والی ایک آواز سن کر ہمہ تن گوش ہوگیا۔کالم نگار پانچ سال پہلے ممبئی پر ہونے والے حملے پرلکھی جانے والی کتاب پر تبصرہ پڑھتے اوراس کالم میں اس کا ذکرکرتے تھک چکا ہے مگر ستم کی منطق کے مصداق اب ایک اوررازکے انکشاف کا جبر برداشت کرنا پڑا۔مبصر نے اپنی پراعتماد آواز میں بتایا کہ ممبئی پر حملے کا کوئی نتیجہ نکلا یا نہیں، ہم نہیں جانتے مگر ایک بات پکی ہے کہ اس حملے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہندوستان نے امریکی حکومت کو قائل کرلیا کہ پاکستان،اس کی فوج اوراس کے جاسوسی ادارے سب کے سب اتنے غیر ذمہ داراورناقابل اعتبارہیں کہ ان کی زیادہ سے زیادہ نگرانی کی جانی چاہیے (یعنی ان کی مشکیں کس کر رکھی جائیں۔)امریکی حکومت کے رویے میں اس بڑی تبدیلی سے ہی پاک امریکہ تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوا ہے۔ 
مرحوم انشاجی نے ایک کتاب لکھی تھی ''چلتے ہوتوچین کو چلیے‘‘ اگر وہ میرے لکھے ہوئے دونوں کالم پڑھ لیتے تو اتنے تنگ آجاتے کہ شاید چین جانے کا اتنے جوش وخروش سے پروگرام نہ بناتے۔چین کوچھوڑیں،آئیے اب ہم مشرق کی بجائے مغرب کی طرف چلتے ہیں۔مغرب میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ اوروہاں بھی نیویارک اورنیو یارک میں بھی ایک فقید المثال عجائب گھرجس کا نام ہےMetropolitan Museum of Art۔ یہ امریکی کلچرکے جمالیاتی پہلوکا کمال نمونہ ہے۔ نیو یارک جائیں (مشورہ دینے والا خود کبھی نہیں گیااور نہ ارادہ رکھتا ہے؛حالانکہ ویزا پابندی سے آزاد ہے) تو یہ عجائب گھرضرور دیکھیں۔ ارادہ ہے کہ اگلے کالم میں آپ کو اُس نمائش کا نظارہ کرائوں جوان دنوں وہاں دکھائی جا رہی ہے۔ برطانوی اخبارات اس نمائش کی ایک دُوسرے سے بڑھ کر تعریف کر رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں