سمندری سفراورعجائب گھر کی سیر

بار بار طعنہ دیا جاتا ہے کہ ہم اپنے موجودہ خراب حالات کی پردہ پوشی کرنے ، آج کے دن کی تلخ حقیقتوں سے نظریں چرانے اور اپنے آپ کو خود فریبی میں مبتلا کرنے کے لیے اپنے ( پاکستانی مسلمان نہیں بلکہ اُمت مسلمہ) شاندار ماضی کو یاد کرتے ہیں۔ ہمیں جب گزرا ہوا اچھا وقت یاد آتا ہے تو ہم ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں اور اقوام عالم سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے اسلاف کی عظمت کی یادوں کا اپنی آنکھوں پر اتنا دبائو ڈالیں کہ وہ اس کی تیز روشنی سے چندھیا جائیں۔ نالائق اور ناکام لوگ جب اپنے ملنے والوں کی توجہ اپنے کامیاب بزرگوں کی طرف دلاتے ہیں تو وہ ان کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہتے ہیں: ''پدرم سلطان بود‘‘ ! مطلب یہ کہ مانا ، تمہارا باپ اپنے وقت کا بادشاہ تھا مگر تم کیا ہو؟ تمہاری اوقات کیا ہے؟اپنے باقی ہم عصر لوگوں کی طرح میری عمر بھی ان طعنوں کے تیروں کی بارشوں کا سامنا کرتے ہوئے گزری ہے۔ یقیناً میرے قارئین بھی اس معاملے میں میری کشتی میں سوار ہوں گے۔ معذرت چاہتا ہوں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی تمہید اتنی لمبی ہو گئی۔
آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے پچھلے ہفتے آپ سے مل کر یہ پروگرام بنایا تھا کہ ہم نیو یارک چلیں گے (خیال ہی خیال میں) اور وہاں کے ایک مشہورو معروف عجائب گھر کی سیر کریں گے۔ خیالی پلائو پکائے جا سکتے ہیں تو خیالی سیر کیوں نہیں کی جا سکتی؟ عجائب گھروں میں عام طو رپر تصویروں کی نمائش ہوتی ہے یا مجسموں کی یا صادقین جیسے فنکاروں کی خطاطی کی۔ نیویارک کے اس عجائب گھر نے یہ کمال کر دکھایا کہ انسانی تاریخ ، تہذیب اور ثقافت کو سوتی ، اُونی اور ریشمی ملبوسات کے حوالے سے اُجاگر کیا ہے۔ یورپ کے تاجر بادبانی جہازوں پر دُنیا کے سفر پر نکلے تو یہ کارنامہ بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے کے مترداف تھا۔ نہ ریڈار ، نہ جدید مواصلاتی نظام ،نہ مستند نقشے ،ماسوائے عزم و استقلال اور 
بے مثال ہمت اور حوصلے کے کچھ بھی ان کے پاس نہ تھا۔ شوق کی ، سروسامان سے رقابت کی داستان بڑی پرانی ہے مگر مغربی دُنیا کے جہاز رانوں نے بے سروسامانی کے باوجود محض بہادری اور بے خوفی کے بل بوتے پر جن تاریخی لمحات کی داستان رقم کی، وہ ہندوستان سے لے کر امریکہ کے ساحلوں تک پھیلی ہو ئی ہے۔ جدید سرمایہ داری نظام کے پہلے مفکر ایڈم سمتھ کی عہد آفرین کتابThe Wealth of Nations 1776ء میں شائع ہوئی جس میں 1492ء میں امریکہ کی دریافت اور Cape of Good Hope کے ذریعے 1498ء میں ہندوستان کے پہلے بحری سفرکے بارے میں لکھا گیا۔یہ دونوں واقعات غالباً پوری انسانی تاریخ میں سب سے اہم اور نتیجہ خیز ہیں۔ بحری مہمات میں ہر اُس یورپی ملک نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جسے سمندر تک رسائی حاصل تھی۔ اٹلی کے دو شہروںVenice اور Genoa سے لے کر سپین، پرتگال، فرانس، ہالینڈ (اُردو میں ولندیز) اور برطانیہ تک کے لوگ کھانے میں استعمال ہونے والے مصالحہ جات آج اپنے محلے کی قریبی دکان تک چند منٹ پیدل چل کر خرید لاتے ہیں۔ یقینا آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ انہی گرم مصالحوں کے حصول کی خاطر یورپی جہاز رانوں نے صدیوں تک اپنی جان کو شدید خطرے میں ڈالا اور ہزاروں میل کا بحری سفر کیا تاکہ اپنی بے ذائقہ خوراک کو گرم مصالحوں کے اضافے سے مزیدار اور خوشبودار بناسکیں۔ دُوسری بات آپ کے لیے اس سے بھی زیادہ ناقابل یقین ہوگی۔۔۔ تین چار سو سال پہلے گرم مصالحوں اور سونے کی (وزن کے اعتبار سے) ایک جتنی قیمت ہوتی تھی۔ تیسرا انکشاف بھی اتنا ہی ناقابل یقین ہے، جنوبی ایشیاء اور جنوب مشرقی ایشیاء میں اسلام اسی تجارت کی وجہ سے پھیلا۔ عرب، ترک اورایرانی تاجروں نے سمندروں کا پرُ خطر سفر کر کے بین الاقوامی تجارت کو اک نئی جہت دی اور اسے ترقی کی اک نئی اور بڑی منزل تک پہنچایا تو نہ صرف ان تاجروں نے
خرید و فروخت سے دولت کمائی بلکہ مقامی آبادی کو محض اپنے حسن سلوک اور تبلیغ سے مشرف بہ اسلام کیا۔ عرب تاجر مشرق بعید کا مال خرید کر قاہرہ میں عیسائی تاجروں کے ہاتھ فروخت کرتے تھے جو انہیں اطالوی بندرگاہوں کے ذریعے یورپی ممالک تک پہنچاتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سمندری سفر کرنے والے گھر کا راستہ بھول جاتے ہیں ۔ سمندری سفروں کا ذکر کرنے والا یہ کالم نگار بھی نیویارک کے اس عجائب گھر کو بھول گیا جہاں سے بات شروع ہوئی تھی۔ آیئے اب ہم اس عجائب گھر کی طرف واپس چلتے ہیں۔ 
سامراج کی بنیاد اس مفروضے پر رکھی گئی کہ مشرقی ممالک غیر مہذب تھے اور انہیں مغربی سامراج نے تہذیب سے روشناس کرایا۔ اس نمائش کا مقصد اس مفروضے کو غلط ثابت کرنا ہے۔ ہر ناقد کی رائے میں یہ نمائش اس مقصد میں بڑی حد تک کامیاب رہی۔ نمائش دیکھنے والوں کو یہ دیکھ کر اور جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ جہاز رانی کے فن میں عربوں کو اتنی زیادہ مہارت حاصل تھی کہ ایڈمرل کا لفظ بھی 'امیر البحر‘ کی بگڑی ہوئی شکل بن کر انگریزی لغات میں شامل ہوا۔ چینی بھی کسی سے پیچھے نہ تھے ، 1403ء اور 1433ء کے درمیان چینی تاریخ کے ایک ہیروAdmiral Zhen نے جنوبی ہند ، جنوبی ایران ،خلیجی ممالک اور مشرقی افریقہ سے چین کی بحری تجارت کا راستہ پہلی بار کھولا۔ نوٹ فرمائیں کہ یہ آج سے چھ سو سال پہلے کی بات ہے۔ تین صدیاں قبل ہندوستان کے سوتی اور چین کے ریشمی ملبوسات نے مغربی ممالک میں اپنی وہ دھاک بٹھائی جو آج کل ہم جیسے بدنصیب مغرب زدہ ممالک کا حال ہے۔ یورپ اور امریکہ کا بنا ہوا مال اس طرح سمجھا جاتا ہے جیسے آسمان سے اُترا ہو اور اسے فرشتوں نے فرصت کے لمحات میں بنایا ہو۔ پنجابی میں کہتے ہیں ''جنہاں دے گھر دانے ، انہاں دے کملے وی سیانے‘‘ (جس شخص کے پاس وافر وسائل ہوں اُس کے پاگلوں کو بھی دانشور سمجھا جاتا ہے۔) آج کل دانے یورپ اور امریکہ کے پاس ہیں اور سیانے بھی۔ ہمارے پاس نہ دانے ہیں نہ سیانے ۔جن قوموںکے پاس دانے ہوں وہ منطقی طو رپر اپنے کملوں کو بھی بآسانی سیانا بنا لیتی ہیں؛ بلکہ کملوں کا پہلے سیانے بن جانے کا مرحلہ طے ہوا تو گھر میں دانے بھی آگئے۔ دانوں اور سیانوں کے وجود کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اقبالؔنے بجا طور پر رونا رویا : 
حمیت نام ہے جس کا ،گئی تیمور کے گھر سے 
اقبال یقیناً بڑے فلسفی ہیں اور وہ یقیناً جانتے ہوںگے کہ حمیت سب سے آخر میں جاتی ہے۔ جانے کی ترتیب کیا ہے؟ پہلے عقل و خرد ، پھر مادی وسائل اور سب سے آخر میں حمیت۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔ پنجاب کا متوسط طبقہ مادری زبان کے بجائے اُردو بولنا شروع کر دیتا ہے اور امیر طبقہ اُس ملک میں انگریزی میں گفتگو کرتا ہے جس ملک میں بمشکل چند ہزار افراد درست (گرامر اور لہجہ کے اعتبار سے ) انگریزی بول اور لکھ سکتے ہیں۔اسی ملک میں اٹھارہ کروڑ لوگوں کی سرکاری زبان انگریزی قرار دے دی گئی ہو تو ہمارا ناطقہ سر بہ گریباں نہ ہو تو اور کیا ہو؟ بقول غالبؔ ع
بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دُنیا ہے نہ دین 
بات پھر دُور نکل گئی۔ نیویارک کا عجائب گھر ہماری توجہ کا منتظر ہے۔ اس منفرد نمائش کا نام ہی اس کے موضوع کو بیان کر دیتا ہے:Inter Woven Globe...History Which Textile Made (1500 - 1800) نمائش میں جس چیز کو سب سے زیادہ توجہ ملی وہ اٹھارویں صدی میں سوت اور ریشم کا بنا ہوا ایک پردہ ہے جس میں برطانوی اور فرانسیسی فوجوں کے درمیان لڑی جانے والی خونریز جنگ (ہندوستان پر قبضہ کرنے کا فائنل مقابلہ) کا منظر کڑھائی کی شکل میں بنائی جانے والی تصویر کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں