ٹرین لُوٹنے والے ڈاکو کاشاندارجنازہ

نہ معلو م یہ مصرعہ کس شاعر نے لکھا تھا:عاشق کا جنازہ ہے،ذرا دُھوم سے نکلے!( شاعر کا نام قارئین بتائیں،میں نہیں جانتا)غالباً کسی اور مصرعے میں شاعر نے سوگواروں کو مشورہ دیا تھا: عاشق کا جنازہ ہے اسے توپ پررکھ کر کھینچا جائے۔ مطلب یہ کہ عاشق زِارکی زندگی(ہماری شاعری میں ) طرح طرح کی ذلتیں برداشت کرنے اورگالیاں سن کر بھی بے مزہ نہ ہونے میں گزری(حد ہے بے غیرتی کی!) مگر اب جب کہ وہ اس عالم فانیِ سے عشق میں شرطیہ ناکامی کے بعد کوچ کر گیا ہے تو اُسے پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کرنا چاہیے۔ بات تو شروع ہوئی تھی فرضی عاشق کاجنازہ دھوم دھڑکے سے اٹھانے سے مگر اس غیر ضروری تمہیدکے بیان کرنے کا میرے پاس جوازیہ ہے کہ میں آپ کو برطانیہ کے سب سے بڑے مجرموں میں سے مشہورڈاکوBiggsکے جنازے کا احوال بتا سکوں جو تمام برطانوی اخبارات (بشمول گارڈین اور ٹائمز) کے صفحہ اوّل پر تصویروں کے ساتھ شائع ہوا۔
18 اگست 1963ء کوگلاسگو سے لندن ڈاک لے جانے والی ٹرین (جس میں بھاری رقوم بھی تھیں)کو روک کرلوٹ لیا گیا۔یہ واقعہ برطانیہ کی عصری تاریخ میں Great Train Robbery کے نام سے جانا جاتا ہے اورہربرطانوی باشندہ اس سے تھوڑا بہت ضرور واقف ہے۔ ڈاکہ ڈالنے والاگروہ بھاری رقم لوٹنے اوراس میں سے چند برطانیہ سے فرار ہو جانے میں کامیاب رہے۔ ڈاکوئوں کی تعداد 16 تھی۔ڈاکے کی منصوبہ بندی ایک سال کی جاتی رہی ۔ٹرین کو روکنے کے لیے ریلوے کے سگنل کی برقی تاروں کو اس طرح خراب کردیاگیا کہ سگنل کی سرخ روشنی نے ڈرائیورکو ٹرین روکنے پر مجبورکردیا۔جہاں ٹرین رُکی وہ لندن کے مضافات کاغیرآباد علاقہ تھا۔واردات کے لیے آدھی رات اور سحرکے درمیان کا وقت چنا گیا۔ٹرین میں محکمہ ڈاک کے 72 افراد سوار تھے جن کاکام طویل سفر 
کے دوران لندن جانے والی ڈاک کو پتوں کے لحاظ سے چھانٹ کر سینکڑوں خانوں میں رکھنا تھا۔واردات میں بندوق، پستول یا کوئی بھی آتشیں اسلحہ استعمال نہ کیاگیا۔ ٹرین رُکی تو ڈاکوئوں نے ریلوے انجن میں داخل ہوکرڈرائیورکے سر پر ڈنڈا مارکر اُسے بے ہوش کر دیا۔اُس کی جان تو بچ گئی مگرملازمت سے ہمیشہ کے لیے فارغ ہوگیا۔لوٹی گئی رقم کی مالیت اڑھائی ملین پائونڈ تھی جو آج کے حساب سے 46 ملین پائونڈ بنتی ہے۔ٹرین میں ایک بھی سکیورٹی گارڈ نہ تھااس لیے ڈاکوئوںکو مزاحمت پرقابو پانے میں زیادہ دشواری پیش نہ آئی۔ڈاکوئوں نے آدھے گھنٹے کے اندررقوم سے بھرے ہوئے تھیلے ٹرین سے نکال کر اپنی گاڑیوں میں رکھے اور قریبی سنسان علاقے کے فارم ہائوس میں جا پہنچے جہاں سے وہ باری باری فرار ہوتے رہے۔ فارم ہائوس میں قیام کے دوران لوٹی ہوئی رقم کو بڑے قرینے سے بڑے اورچھوٹے حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ڈاکہ ڈالنے میں چھوٹی سی چھوٹی مدد دینے والے کی بھی حق تلفی نہ کی گئی۔ ڈاکوئوں نے جائے واردات کے گرد و نواح میں ٹیلی فون کی سب تاریں کاٹ دی تھیں تاکہ خطرے کی گھنٹی بجانے اور پولیس کو جائے واردات تک پہنچنے میں زیادہ سے زیادہ دیرلگے۔ 
پہلا ڈاکواتفاقاً پکڑا گیا۔وہ برطانیہ کے ساحلی شہر میں اپنے ایک ایسے دوست کے گھر جا کر چھپ گیا تھا جو اس کا احسان مند تھا۔ا س نے ایک خستہ حال گیراج تین مہینے کا پیشگی کرایہ ادا کر کے اپنے حصے کی رقم چھپانے کے لیے لے لیا۔کرائے کی رقم دس شلنگ استعمال شدہ نوٹوں کی شکل میں ادا کی گئی۔ایک پولیس افسرکی بیوہ گیراج کی مالکہ تھی۔اُس کی ہوشیاری ملاحظہ فرمائیں کہ رقم وصول کرتے ہی اُس نے پولیس بلا کر اپنے دونوں کرایہ داروں کو گرفتارکرا دیا۔ بے چارہ میزبان مفت میں ماراگیا۔ ڈاکے کی رقم سے کوئی حصہ نہ لینے کے باوجود اُسے عدالت نے 24 سال کی سزادی۔ 1970ء میں اس کاجیل میں ہی انتقال ہوگیا۔قابل ذکر بات پولیس کی '' زود پشیمانی ‘‘ ہے جس نے اس شخص کی وفات کے بعد اعتراف کیا کہ استغاثے کی سنگین غلطی کی وجہ سے ایک بے گناہ شخص کو عمر قید کی سزا ملی۔
سولہ میں سے صرف آٹھ ڈاکو جلد یا بدیرگرفتار ہوئے۔ڈاکے سے صرف آٹھ دن بعد دوافراد اپنے گائوں میں صبح کی سیرکے لیے نکلے تو اُنہیں کھیتوں میں پڑے بیگ نظر آئے۔ اُنہوں نے فوراً پولیس بلائی، بیگ کھولے گئے توایک لاکھ پائونڈکی رقم ملی جو ڈاکے کی واردات کا ایک چھوٹا سا حصہ تھی۔ ڈاکہ پڑنے کے 9 ماہ بعد فروری1964ء میں عدالت میں گرفتار ہونے والے ڈاکوئوں کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع ہوئی۔ایک ڈاکو اپنے نامور وکیل کی اچھی پیروی کرنے اورناکافی شہادت کی وجہ سے بری کردیا گیا، باقی سات ڈاکوئوں کو 30 سال فی کس کے حساب سے عمر قیدکی سزادی گئی۔ 
برطانوی مزاج کا نرالا پن ملاحظہ فرمایئے کہ واردات کا شکار ہونے والی ٹرین کا ایک ڈبہ صنعتی شہرPeterborough کے ریلوے عجائب گھر میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا گیا۔آپ برطانیہ آئیںتویہ عجائب گھردیکھنے کے لیے ضرور وقت نکالیں۔
جب ڈاکے کی یہ واردات ہوئی،برطانیہ کے وزیراعظم ہیرلڈ میک ملن تھے۔1963-64ء میں کرسٹین کیلر نامی طوائف کے اس وقت کے وزیردفاع سے تعلقات کا انکشاف ہوا اوریہ پروفومو سیکنڈل کے نام سے برطانوی تاریخ کا حصہ بن گیا، جس سے حکومت کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی۔ اس سکینڈل کے ساتھ مذکورہ ڈاکے کی واردات نے رہی سہی کسرنکال دی (اس کا ہماری سخت جانی سے مقابلہ کیجئے کہ کراچی میں روزانہ دس سے پندرہ افرادکی ٹارگٹ کلنگ کے باوجود حکومت کوکوئی پروانہیں ہوتی) ٹرین پر پڑنے والے ڈاکے سے لوگ حکومت سے اتنے بدظن ہو گئے کہ صرف دو ماہ بعد (اکتوبر1963ء) وزیراعظم نے خرابی صحت کا بہانہ بنا کر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ایک سال بعد ہونے والے انتخابات میں ٹوری پارٹی شکست کھا گئی اور کئی برسوں بعد ہیرلڈ ولسن کی قیادت میں لیبر پارٹی برسر اقتدارآئی۔ 
تین ڈاکو برطانیہ سے بھاگ کر غیر ممالک میں چھپ جانے اورایک ڈاکو جیل سے فرار ہو کر برازیل میں پناہ لینے میں کامیاب ہوگیا۔اس کا نام Ronnie Biggs تھا،اس کا انتقال دسمبر2012 ء میں ہوا اور اُس کا تابوت برطانیہ اوربرازیل کے پرچموں میں لپیٹاگیا۔ جنازے کی رسوم کے دوران آنجہانی کی پسندیدہ موسیقی کی دھنیں بجائی گئیں۔ موٹرسائیکلوں پر سواری کرنے والے اور موٹے چمڑے کا لباس پہننے والے باغی نوجوانوں کے گروپ Hells Angels نے تابوت کو سلامی دی۔ پادری نے اپنے خطبے میں کہا کہ یسوع مسیح کا زیادہ وقت گناہ گاروں کے ساتھ گزرتا تھا،اگر آج وہ زندہ ہوتے تواس جنازے میں شرکت کرتے اورمرنے والے کے گناہوں کی پروردگارِ عالم سے معافی مانگتے۔ Biggs نے برازیل میںایک مقامی خاتون سے شادی کر لی تھی، وہ ایک بیٹے کا باپ بنا جو اس کے جنازے میں میزبان کے فرائض اداکررہا تھا۔اُس نے اشکبار آنکھوںاوررُندھی ہوئی آواز میں اپنے آنجہانی باپ کے اعزازمیں تعزیتی اورتعریفی تقریرکی۔ Biggs نےOdd Man Outکے نام سے بے حد دلچسپ سوانح عمری لکھی جو ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوئی۔ Biggs مزاحاً کہتا تھاکہ اگر اُسے علم ہوتا کہ وہ کتاب لکھ کر اتنی رقم کمالے گا تو وہ کبھی ڈاکہ نہ ڈالتا،لیکن اسے یہ خیال نہ آیا کہ اگر وہ ڈاکہ نہ ڈالتا تواپنی سوانح عمری میںکیالکھتا(میاں نوازشریف اور اُن کے بھائی تقریباً دس سال جلا وطن رہے مگروہ دس صفحات بھی نہ لکھ سکے) Biggs کو یہ اعزاز بھی ملاکہ فرار ہونے سے پہلے لندن کی جس جیل میں قیدرہااس میں آسکروائلڈ اوروالٹیئرجیسے عالمی شہرت یافتہ ادیب بھی کچھ عرصہ قید رہے تھے۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ Biggs برازیل سے رضاکارانہ طور پر برطانیہ واپس آگیا تھاتاکہ قیدی بن کر اپنی باقی سزاکی میعاد پوری کر سکے۔اس کاکہنا تھا کہ وہ ایک مفرور قیدی کی موت نہیں مرنا چاہتا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ برطانوی عوام اسے بڑی عزت اور احترام سے دیکھنے لگے تھے۔ایسے شخص کے بارے میں ہم اپنے محاورے میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ۔۔۔حق ِمغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں