دو مہکتی خبریں

گزشتہ برس جہاں ہمارے لیے برُی خبریں لایا وہاں جاتے جاتے ہماری خوشیوں سے ترسی ہوئی جھولی میں کچھ پھول بھی پھینک گیا۔ایک پھول دہلی سے آیا اوردوسرا نیویارک سے۔ یورپ میں رہنے والے ہر عوام دوست شخص کا دل و دماغ ان دونوں کی خوشبو سے مہک اُٹھا۔ یہ کالم نگاراپنے پیارے قارئین کو بھی اپنا ہم دم، ہمراز اور ہم خیال بناناچاہتا ہے تاکہ اس کی اپنی خوشی بھی دوبالا ہو جائے۔
مناسب ہو گا، پہلے دہلی چلیں۔ وہ دن بیت گئے جب سیانے لوگ کہتے تھے:ہنوز دلی دُوراست۔اقبال فرماتے ہیں: تُورہ نوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبول مگر منزل کون سی ہے؟ آئیے پہلے اس کا تعین کریں۔ منزل ہے عوامی خوشی، عوامی خوشحالی،زودفہم الفاظ میں عوامی فلاح و بہبود۔مذکورہ محاورے کے برعکس اب دلی دُور نہیں رہی۔دہلی والوں نے فلاح کی منزل پالی ہے جس سے صرف بھارت ہی نہیں پورا جنوبی ایشیا مستفید ہوگا۔جلد یا بدیر پاکستان تک بھی یہ روشنی آپہنچے گی۔ ہسپانوی زبان کا محاورہ ہے کہ آپ کتنی ہی اُونچی دیوار بنالیں،آفتاب کی ضیاء پاشی کو صحن روشن کرنے سے نہیں روک سکتے۔تمہیدطولانی ہوگئی ،گویا: تمنامختصرسی ہے مگر تمہید طولانی! دہلی میں الیکشن جیتنے والی پارٹی کا نام ہے 'عام آدمی پارٹی‘ اس کی عمر بمشکل ڈیڑھ سال ہے۔ پارٹی لیڈرکا نام ہے اروندکیجری وال،وہ پنجاب کی پڑوسی ریاست ہریانہ کے رہنے والے ہیں۔ ناقابل یقین بات یہ ہے کہ محکمہ کسٹم کے بڑے افسر ہونے کے باوجود رشوت ستانی کے اتنے خلاف تھے کہ جب اپنے محکمے سے یہ ناسور نہ نکال سکے تو اپنے عہدے سے مستعفی ہوکر عام آدمیوں میں شامل ہوگئے۔ ان کی پارٹی کو 2011 ء میں اناہزارے کی زیر قیادت کرپشن کے خلاف چلائی گئی زبردست عوامی تحریک نے جنم دیا۔ پہلے سیاسی تجزیہ نگار یہ سوال کرتے تھے کہ کیا اروند دہلی کی سیاست پر اثر انداز ہو سکیں گے؟ اب پوچھتے ہیں،پورے بھارت کی سیاست پر اُن کی کتنی گہری چھاپ ہو گی؟بھارت میں عام ا نتخابات اپریل یا مئی میں ہوں گے۔ دسمبر میں دہلی اسمبلی کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے ایک تہائی ووٹ حاصل کیے۔اس کامیابی کی بدولت اروند نے دو جنوری کو دہلی کے وزیراعلیٰ کا حلف اُٹھایا۔اُن سمیت وزیروں نے سرکاری رہائش گاہوں میں منتقل ہونے سے انکارکر دیا۔دہلی کے وزیراعلیٰ کی پرشکوہ سرکاری رہائش گاہ کا نقشہ مشہورانگریز معمارLutye نے بنایا تھا۔ اروند اوراُن کے وزیروں نے سرکاری کاروں اور سرکاری حفاظتی دستے لینے سے بھی معذرت کر لی۔دوسرا کام یہ کیا کہ پولیس سے رکشا ڈرائیوروں کے چھوٹے جرائم (ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی) پرچالان کرنے کا اختیارواپس لے لیااور ہر شہری کے لیے بجلی اور پانی کی فراہمی یقینی بنا دی۔اب دہلی کے امیر لوگ غریبوںکو بجلی اور پانی خریدنے میں مالی امداد دیں گے۔
اب عام آدمی پارٹی نے ملک بھر میں رُکن سازی کی مہم شروع کر دی ہے۔وہ 35 میں سے 20 ریاستوں میں ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لے گی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی بھارت کے سب سے بڑی ریاست اُتر پردیش (جہاں200 ملین لوگ رہتے ہیں اور یہ تعداد پاکستان کی کل آبادی سے زیادہ ہے) کے ہر حلقے سے اپنا اُمیدوارکھڑا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جہاں سے راہول گاندھی کی دادی (اندرا گاندھی)الیکشن لڑاکرتی تھیں۔عام آدمی پارٹی کی حمایت ابھی زیادہ ترشہروں تک محدود ہے۔ شہری ووٹرنہ صرف کانگرس سے بیزار ہیں بلکہ وہ مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر بھی ووٹ نہیں ڈالتے۔
بھارتی میڈیا بھی عام آدمی پارٹی کے بارے میں نہ صرف نرم گوشہ رکھتا ہے بلکہ اپنی پر جوش حمایت کے اظہار سے بھی نہیں چوکتا۔ یہ عنصر کافی فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے چونکہ بھارت میں 53 ایسے شہر ہیں جہاں کی آبادی دس لاکھ سے زیادہ ہے اور ان کے انتخابی حلقوں کی تعداد لوک سبھاکی 543 نشستوں میں سترفیصد بنتی ہے۔ 
رشوت ستانی کے خاتمے کاواحد نعرہ آگے چل کر تبدیلی کے خواہش مند سیاسی کارکنوں، بائیں بازواور سیکولر ذہن رکھنے والوں (جن کی تعداد بہت زیادہ ہے) کو بھی اپنے ساتھ ملالے گا۔قوی امکان ہے کہ مقامی مسائل کی انتخابی اہمیت بڑھ جائے گی، مثال کے طو رپر جنوبی بھارت کی تامل ناڈوریاست کے ساحلی مقام پر چلنے والے ایٹمی بجلی گھر بنانے یا گوا اور کرناٹک میں معدنیات نکالنے کے لیے کان کنی کرنے کے تنازعات۔ 
یہ نہ سمجھیے کہ سیاست کی شاہراہوں میں کوئی سنگ گراں نہیں ہوتے۔ وہ طرح طرح کے کانٹوں سے اٹی ہوتی ہیں۔ حال ہی میں عام آدمی پارٹی کے ایک بڑے لیڈر نے کشمیرمیں رائے شماری کی حمایت میں اعلان جاری کر دیا اور یہ بھی کہا کہ کشمیری عوام کو یہ فیصلہ کرنے کا حق ملنا چاہیے کہ اُنہیں اپنی حفاظت کے لیے بھارتی فوج کی ضرورت ہے یا نہیں؟جونہی یہ خبرمنظر عام پر آئی، بھارتی جنتا پارٹی کے لٹھ برداروں نے عام آدمی پارٹی کے دفتر پر حملہ کر دیا اور اس کی کھڑکیاں توڑ ڈالیں۔شایداس ناخوشگوار واقعے کے بعد عام آدمی پارٹی کے رہنما بیانات دینے میں محتاط ہو جائیںگے۔
جب سے بھارتی سیاست کے اُفق پر چھوٹی اورعلاقائی جماعتیں اُبھری ہیں، اُس وقت سے لوک سبھا میں 20 سے 30 نشستوں والی جماعت بھی اقتدارکی بندر بانٹ میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ قابل تعریف بات یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی میں کوئی جہانگیر ترین،علیم خان، اعظم ہوتی یا شاہد خاقان عباسی جیسے لوگ نہیں جو صرف اپنی دولت کے بل بوتے پر اپنے حصے سے کہیں زیادہ سیاسی اثر ورُسوخ کے مالک بن جاتے ہیںاور نہ ہی پارٹی بڑے بڑے سرمایہ داروں یا کاروباری اداروں سے چندہ لیتی ہے۔ پارٹی اپنی آمدنی کے بارے میں بڑی شفاف ہے۔ یہ عام آدمیوں کی پارٹی ہے اور وُہی اسے چندہ دیتے ہیں۔
اس پارٹی کی ڈرامائی کامیابی کا راز یہ ہے کہ بھارت کے لوگوں کی اکثریت (خصوصاً شہری آبادی) دونوں بڑی پارٹیوں سے بدظن ہو چکی ہے۔ دونوں بڑی پارٹیاںتین ناپسندیدہ بلکہ قابل نفرت صفات کی حامل ہیں۔۔۔بے تحاشا کرپشن،ضعیف العمری اور موروثیت ۔اہل لاہور سیاسی شعور کی جس سطح پرکچھ عرصہ بعد پہنچیں گے،اہل دہلی نے وہ معرکہ ابھی سے سر کر لیاہے۔ آئیے ہم سب مل کر اُن کے لیے زندہ باد کا نعرہ بلند کریں اور اُن کی آرزوئوں کی تکمیل کے لیے دُعا مانگیں۔ ہمارے ملک کے اچھے مورخ مجھ سے جتنے بھی ناراض ہو جائیں مگر وہ مجھے یہ سچ لکھنے سے نہیں روک سکتے کہ اگر 1945ء میں کانگرس فرقہ پرست، تنگ نظراورکم ظرف سبھاش چندر بوس اورولبھ بھائی پٹیل کی کانگریس کے بجائے عام آدمی پارٹی ہوتی توشاید قائداعظم پاکستان کا مطالبہ نہ کرتے، ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا۔اور آگے چلیں، 1970ء میں پاکستان میں عام آدمی پارٹی کی حکومت ہوتی تو یقیناً ہمارا وطن عزیز نہ ٹوٹتا، پاک سر زمین شاد باد رہتی اور وہ خدائے ذوالجلال کے سائے سے بھی محروم نہ ہوتی۔اخوت کا پرچم پھٹ جائے اور اپنے ہی ملک کے انسانوں کے خون سے داغدار ہوجائے تو خدائے بزرگ و برتر کی نعمتوں کوٹھکرانے یعنی کفران نعمت کرنے والوں کو بڑی سخت سزا ملتی ہے جو ہمیں ان دنوں مل رہی ہے اور خطرہ ہے کہ آنے والے دنوں میں سزا اور سخت ہو جائے گی۔ 
لطیفہ یہ ہے کہ کانگرس نے اپنی انتخابی مہم میں چمک دمک پیدا کرنے کے لیے یہ حربہ سوچا ہے کہ وہ راہول کے مقابلے میں اُس کی زیادہ قبول صورت اور نیک سیرت بہن پریانکا کو فرنٹ سیٹ پر بٹھائے گی ،بالکل اسی طر ح جیسے ہمارے ہاں ایک طرف مریم نوازشریف اوردُوسری طرف بلاول بھٹوزرداری کی دونوں بہنوںکو منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔یہ کالم دہلی کے ذکر پر ہی تمام ہوگیا ،نیویارک سے جو پھول آیا ہے ،اس کی مہک میں قارئین محترم کو آئندہ کالم میں شامل کیا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں