نیویارک کا عوام دوست میئر

دہلی میں عام آدمی پارٹی کی وجہ سے بہار کے کچھ آثار پیدا تو ہوئے ہیں۔ مرجھائی ہوئی شاخوں پر اُمید کے جو شگوفے کھلے ہیں وہ شاید آگے چل کر پھولوں میں تبدیل ہو جائیں۔ پھول کھلیں گے تو سارا باغ مہک اُٹھے گا۔ پھر ہمارے اُجڑے ہوئے اور خون آلود صحن میں خوشی اور خوشحالی کا چاند طلوع ہوگا۔ اغلب تھا کہ میں دُوسرا شیخ چلی بن جاتا اور دل کو خوش کر دینے والے تصورات کے فرضی محلات تعمیر کرنے لگ جاتا اور اپنے پیارے قارئین کو فرطِ جذبات سے دعوت دیتا کہ وہ بھی میرے ساتھ مل کر خیالی پلائو پکائیں، لیکن اچانک یاد آیا کہ میں نے پچھلے ہفتے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ آپ کو دو اچھی خبریں سنائوں گا۔۔۔ایک کا تعلق دہلی سے تھااور دُوسری کا نیویارک سے۔ دہلی کا ذکر کافی ہو چکا۔ آئیے آج نیویارک چلتے ہیں۔
ہم وہاں ایک ایسا منظر دیکھ سکتے ہیں جو معجزے سے کم نہیں۔اس کی جھلک امریکی عوام نے بھی نہیں دیکھی۔ نیویارک کی سیاست اس لیے اہم ہے کہ وہ امریکہ کا سب سے بڑا شہر ہی نہیں، سب سے بڑا تجارتی مرکز بھی ہے اور وُہی امریکہ کا دل ہے۔ مشہورمحاورہ ہے کہ نیویارک کو چھینک آجائے تو پورے امریکہ کو زکام ہو جاتا ہے۔ نیویارک کا ریٹائر ہونے والا میئر ارب پتی روایتی سیاست دان تھا۔اب جو نیا غیر روایتی میئر منتخب ہوا ہے اُ س کی حلف برداری کی تقریب میں سنجیدہ ، باوقار اور رسمی موسیقی کے بجائے مقبول عام پاپ موسیقی کی دُھنیں سنائی گئیں۔ ڈسکو ہال میں موسیقی پر رقص کرنے والوں میں ہیلری اور اُن کے شوہرکلنٹن بھی شامل تھے۔ نئے میئر کا نام Bill de Blasio ہے۔ عمر 52 برس، آدھا امریکی اور آدھا اطالوی۔ اس دراز قد آدمی کی بیوی سیاہ فام ہے اور دونوں حبشی نسل کے متبنّیٰ (Adopted) بچے ہیں۔ میئر کے خیالات اتنے غیر روایتی ہیں کہ امریکی اخباروں نے اپنے تعصّب اور حماقت کی وجہ سے اُس پر سوشلسٹ ہونے کا لیبل لگا دیا ہے۔ اس شخص کے انتخاب سے پورے امریکہ میں سیاسی زلزلے کی لہریں محسوس کی گئیں۔ نئے میئر کا ارادہ امیروں پر ٹیکس لگا کر شہر کے لاکھوں بے حد غریب لوگوں کی مالی مدد کرنا ہے۔ میئر کا یہ فیصلہ بے شمار پیشانیوں پر شکن ڈالنے اور جسموں میں کپکپی پیدا کرنے کا موجب بنا کیونکہ اُس دن جب نیویارک کا درجہ حرارت صفر سے کم تھا، حلف برادری کی تقریب سٹی ہال کے باہر کھلی جگہ پر منعقد کی گئی تاکہ اُس میں زیادہ لوگ حصہ لے سکیں۔ جونہی میئر نے حلف اُٹھایا ہیلری کلنٹن نے آگے بڑھ کر میئر کی نہایت غیر دلکش بیوی چِل لین کو اپنائیت سے گلے لگالیا۔ میئر کا پروگرام ایسی انقلابی اصلاحات پر مشتمل ہے جو امریکی ذہن کے مزاجاً بے حد عوام دشمن رویوںکے لیے بے حد ناقابل قبول اور غیر پسندیدہ ہیں۔ 
نئے میئر نے تیرہ سال قبل ہیلری کلنٹن کو نیویارک سے امریکی پارلیمنٹ کے ایوان بالا (سینٹ) کے انتخاب میں کامیاب ہونے میں ایسا کردار ادا کیا تھا جو کلنٹن گھرانے کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ جن دنوں Bill de Blasio الیکشن کی مہم چلا رہا تھا کلنٹن گھرانہ اُس سے فاصلے پر رہا کیونکہ ڈیموکریٹک پارٹی سے ٹکٹ لینے کی جنگ میں اُس کا سب سے بڑا حریف ہیلری کا مشیر تھا۔(یہ وُہی رُسوائے زمانہ شخص ہے جوانٹرنیٹ پر اپنی برہنہ تصویروں کی نمائش اورجنسی فتوحات کی تشہیرکرتاتھا۔ بے چاری ہیلری کلنٹن کا شرم کے مارے جو حال ہواوہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ دیدہ دلیری کا یہ عالم تھا کہ وہ نہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوا اور نہ نیویارک کے میئر کے الیکشن کے لیے اپنی پارٹی کے ٹکٹ کے مقابلہ سے دستبردار!) 
De Blasio کی خلاف توقع کامیابی میں Occupy Wall Street کی عددی اور انقلابی تحریک کا کردار فیصلہ کن ثابت ہوا۔ امریکہ کی سیاسی لغت میں ہر عوام دوست کو لبرل کہا جاتا ہے۔ یقین جانیے، قدامت پسند اور سرمایہ دارانہ نظام کی قدروں کے علمبردار، 'لبرل‘ کا لفظ اتنی حقارت سے بولتے ہیں کہ لگتا ہے گالی دے رہے ہیں۔ اگر کوئی شخص لبرل سے ایک قدم آگے بڑھا کر عوام دوستی کا دم بھرے تو اُسے بلاتوقف کمیونسٹ ہونے کا خطاب دیا جاتا ہے اور یہ ٹھپہ لگنے کے بعد اس شخص کی شامت آجاتی ہے اوراس کا جینا حرام کردیا جاتا ہے۔ آپ کو صرف ایک مثال دیتا ہوں۔ جب اپنے وقت کے مشہور ترین اداکار چارلی چپلن پر یہی الزام لگا تو اُسے جلا وطن ہو کر زندگی کا بڑا حصہ امریکہ سے باہر رہ کر گزارنا پڑا۔ اب ہر شخص تو چارلی چپلن نہیں ہوتا، اُسے امریکہ میں رہ کرہی عمر بھر طرح طرح کے عتاب و عذاب برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ یہ کالم نگار اُنہیں جھک کر سلام کرتا ہے۔ اُن کی بہادری ، عوام دوستی ، اُصول پرستی اور روشن خیالی کو سلام!
عوام دُشمن ارب پتی ابھی نیویارک کے الیکشن کے صدمے سے سنبھل نہ پائے تھے کہ اُنہیں دُوسری بری خبر یہ ملی کہ نیویارک کی پڑوسی ریاست میسا چیوسٹس میں وال سٹریٹ کی کڑی نقاد اورلبرل خاتون ایلزبتھ وارن امریکی کانگرس کے ایوان بالا (سینٹ ) کی رُکن بن گئی ہیں اور وہ بھی اپنے قدامت پسند حریف کو بری طرح شکست دے کر۔۔۔ یک نہ شد دو شد!
میرے جن قارئین کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت ہے ،انہیں چاہیے کہ 17 جنوری کے روزنامہ گارڈین کا صفحہ نمبر27 پڑھ لیں تاکہ اُن کے چودہ طبق روشن ہو جائیں۔ یہ مضمون پڑھنے تک اس کالم نگار کو بھی خوش فہمی تھی کہ وہ امریکہ کے حالات سے کافی واقف ہے، مگر پتہ چلا کہ میں حقیقت سے بالکل ناواقف ہوں۔ امریکہ کی ایک ریاست سائوتھ کیرولینا میں بے روزگار لوگوں کو مفت خوراک بطور خیرات دی جاتی ہے۔ مفت خوراک تقسیم کرنے والی جگہوں کو فوڈ بینک کہا جاتا ہے جہاں تھوڑی سے خوراک کے ڈبے وصول کرنے والوں کو آٹھ آٹھ گھنٹے قطار میں کھڑا رہنا پڑتا ہے۔ خوراک لانے والے ٹرک بعد دوپہر چار بجے آتے ہیں مگر ضرورت مند لوگ (بچے، بوڑھے اور عورتیں) آٹھ بجے صبح قطار بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس ریاست نے جولائی 2013 ء میں بے روزگاری الائونس میں ایک تہائی کمی کر دی۔آبادی کا دس فیصد بے روزگار ہے اور خیرات کے سہارے زندہ رہنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھلا ہو دو فرشتہ سیرت بہنوں کا جو مقامی فوڈ بینک میں بطور رضا کار کام کرتی ہیں اور ہر ماہ لوگوں سے عطیات وصول کر کے 175 گھرانوں کو فاقہ کشی سے بچاتی ہیں۔ ساری دُنیا میں امریکہ نے American Dreamکاڈھونگ رچایا ہوا ہے ؛ حالانکہ لاکھوں بے روزگار اورمفلوک الحال امریکیوں کے لیے یہ ملک ایک ڈرائونا خواب بن چکا ہے۔
امریکہ میں بنیادی علاج مفت دستیاب ہے نہ اعلیٰ تعلیم۔ صدر اوباما میں لاکھ برائیاں سہی مگر اُس نے صحت کے میدان میں قابل تعریف کارنامہ سرانجام دیا کہ جو لوگ اپنے علاج کا خرچ ادا نہیں کر سکتے وہ اپنی صحت کی انشورنس کروا لیتے ہیں۔ میں صرف ایک مثال دوں گا۔۔۔ یکم جنوری سے لاگو ہونے والے نئے قانون کے تحت ایک 63 سالہ خاتون جو 22 ہزار ڈالر سالانہ کماتی ہے، ہر ماہ صرف 64 ڈالر دے کر اپنی صحت کا بیمہ کرواسکتی ہے۔ اگراُس کے بیٹے کی عمر 33 سال ہو اور وہ ایک دُکان میں17 ہزار ڈالر سالانہ تنخواہ پر ملازم ہو تواُسے صرف 20 ڈالر ماہانہ ادا کرنا ہوں گے۔ 65 سال سے زائد عمر کے لوگوں کو پہلے بھی مفت علاج کی سہولت حاصل تھی۔ اس کالم نگار کے لیے یہ خبر باعث مسرت ہے کہ امریکہ کے عوام دُشمنوں نے خطرناک کمیونسٹوں کی جو تازہ فہرست شائع کی ہے، اُس میں اپنے صدر کا نام سب سے اُوپر لکھا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں