جھیلیں اور پرندے

20 جنوری صبح پانچ بجے، درجہ حرارت صفر سے نیچے، لندن سے ڈیڑھ دو سو میل شمال میں ڈربی شائر میں پہاڑیوں کے درمیان گھری ہوئی جھیل اوراس کے کناروں پر عورتوں اور بچوں کی بڑی تعداد سمیت پچاس ہزار افرادکا جم غفیر۔۔۔ آپ متجسس ہوں گے کہ وہاں ہوکیا رہا تھا؟ ان افراد کی نظریں اُفق پر جمی تھیں ، یہ لوگ دور درازکا سفر طے کرکے جس گھڑی کابہت دیر سے انتظارکر رہے تھے، آخر وہ آپہنچی تھی۔ جھیل کے دُوسرے کنارے سے کم ازکم پچاس ہزارچڑیاں جوق در جوق ، جتھوں کی شکل میں، پرَے باندھ کر ایک ساتھ ہوا میں بلند ہوئیں اور ایک وحدت کی صورت میں دور دراز ایک ان دیکھی منزل کی طرف روانہ ہوگئیں جہاں اُنہیں اپنے گھونسلے بنانے تھے، انڈے دینے تھے ، محفوظ مقام پرکافی عرصہ آرام کرنا تھا ، اپنی اگلی نسل کو پروان چڑھانا تھااوراسے فن پرواز سکھانا تھا۔
افسوس کہ میں یہ خوبصورت اور ناقابل فراموش منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور لطف اندوز ہونے سے محروم رہا۔ 21 جنوری کے اخبارات میں اس منظر کی جو تصاویر دیکھیں اُس میں یہ ہزاروں سفید پرندے آسمان پر جھلملاتے ہوئے ستاروں کی طرح نظر آرہے تھے۔ میں مصور ہوتا تو اس منظرکی تصویرکشی کرتا، شاعر ہوتا تو نظم لکھتا،موسیقار ہوتا تو صبح کا راگ گاتا، عبادت گزار ہوتا تو سجدہ شکر بجا لاتا کہ مجھے خدائے بزرگ و برتر نے اتنا روح پرور منظر دیکھنے کی توفیق بلکہ سعادت عطا کی ۔ ایک عمر رسیدہ ، بے ہنر اورکم علم شخص صرف کالم نگار ہو تو وہ اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ لکھ سکتا ہے تاکہ اپنے پیارے قارئین کو اپنی خوشی میں شریک کر سکے۔
اگر آپ چند لمحوں کے لیے اپنی آنکھیں بند کر لیں توآپ ہزاروں میل کے فاصلہ کے باوجود چشم تصور سے ڈربی شائرکی ایک گمنام جھیل سے اپنی لمبی پرواز شروع کرنے والے پچاس ہزار سے زائد پرندوں (یا ممولوں) کی اجتماعی پروازکو دیکھ سکتے ہیں۔ ایک مقولے کے مطابق قوت بصارت اوربصیرت کا فاصلے اور وقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، شرط یہ ہے کہ آپ اُسی طرح اور انہی معنوں میں آنکھیں کھولیں جس طرح اقبالؒ نے اپنی سوئی ہوئی قوم کوآنکھیں کھولنے کا مشورہ دیا تھا: 
کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
صد افسوس کہ جن لوگوں کو یہ بے حد قیمتی مشورہ دیا گیا تھا، اُن کی آنکھیں بدستور بند ہیں، اُن کے خراٹوں کی آوازیں مجھے چھ ہزار میل کے فاصلہ سے سنائی دے رہی ہیں۔ میر تقی میرؔ کی فریاد پر بھی کوئی کان نہیں دھرتا: 
مژگان کو کھول، شہر کو سیلاب لے گیا
بات جھیل سے شروع ہوئی تھی۔ سیف الملوک کاغان وادی میں ہے ، سنا تھا کہ وہاں پریاں رہتی ہیں۔ آج سے پچاس سال پہلے میں وہاں بال بچوں کے ساتھ گیا، پریاں تو کجاوہاں پرندے تک نہ تھے۔ جو مافوق الفطرت داستان اس جھیل کے ساتھ وابستہ ہے اُس کی دنیا بھر میں کوئی مثال نہیں ملتی۔گلگت کی جھیل جس میں دریائے سندھ کا پانی پگھلی ہوئی چاندی کی طرح دکھائی دیتا ہے، عام سیاحوں کی دسترس سے باہر ہے۔ اس جھیل کی میزبانی سے لطف اندوز ہونے کا شرف صرف اُن بہادر لوگوں کوحاصل ہوتا ہے جو دُنیا کی دشوارگزار پہاڑی چو ٹی کے۔ ـ 2پر چڑھنے کی ایک اورکوشش کرنے پر تلے ہوئے ہوں۔ پرندوںکی بڑی تعداد کے معیار پر صرف ایک جھیل پورا اُترتی ہے اور وہ سندھ میں ہے۔۔۔ اس کانام منچھرجھیل ہے جو حیدرآبادکے شمال مغرب اور سہون شریف کے مغرب میں واقع ہے۔ برسات میں جھیل کا رقبہ 500سے ایک ہزار مربع کلو میٹر تک پھیل جاتا ہے۔ یورپ کے ہر ملک کے ہزاروں لوگ ہر سال اس جھیل پر رہنے والے آبی پرندوں کو دیکھنے جاتے ہیں۔ افسوس، میں آج تک کراچی کے کسی ایک ایسے شخص سے نہیں ملا جو منچھر جھیل کے پرندوں کو بچشم خود دیکھ چکا ہو یاکم از کم اس کا ارادہ رکھتا ہو۔
برطانوی کابینہ کے ایک اہم رُکن کینتھ کلارک ایک زمانے میں وزیر خزانہ تھے،وہ ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے کراچی گئے۔کانفرنس سہ روزہ تھی، دو دن تو موصوف فضول تقاریر سنتے رہے، جب اُن کی اپنی باری آئی تو خرابی صحت کا بہانہ بنا کرغائب ہو گئے۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ اپنے ایک مقامی دوست کی مہمان نوازی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے پوری رات منچھر جھیل کے کنارے دوربین لیے بیٹھے رہے تاکہ رات کواور خصوصاً فجر کے وقت اُڑنے والے پرندوں کی نقل و حرکت کا نظارہ کر سکیں۔ میں اُنہیں صرف ایک بار ملا ہوں۔ انہوں نے پاکستانی سیاست کے بارے میں ایک لفظ نہ کہا مگر اس جھیل کے پرندوں کے بارے میں میری بے حد ناقص معلومات میں بیش قیمت اضافہ کیا۔ 
پرندوں کا مسکن صرف ڈربی شائر کی برطانوی جھیل نہیں، وہ پاکستان میں بھی رہتے ہیں۔ انتظار حسین نے بیریوں کے درختوں کو کاٹنے کا المیہ اپنی تحریروں میں کئی جگہ بیان کیا ہے۔آپ جانتے ہیں کہ وہ درخت جن میں پرندے رہتے رہیں کاٹ ڈالے جائیں تو پرندے بے گھر ہوجاتے ہیں۔ پرندے اتنے صابروشاکر ہیں کہ ہمارے جنگلوں، دریائوں، جھیلوں اور کھیت کھلیانوں میں رہتے ہیں۔ پرندوں کو دوسری جگہ جانے کے لیے ویزا چاہیے نہ ہوائی جہازکا ٹکٹ ، وہ تو اُڑکرجہاں جی چاہے جا سکتے ہیں ، مگراپنی ساری زندگی اپنے ہی ملک میں گزارتے ہیں۔
ہمارے ملک کے لوگ دُوسرے ملکوں میں سیاسی پناہ مانگتے ہیں مگر رُوس جیسے سرد ملک کے پرندے شدید سردی سے بچنے کے لیے ہمارے ملک میں ہر سال پناہ لیتے ہیں۔ میں رُوس گیا تو وقت نکال کر ان پرندوں سے ملنے گیا اورانہیں یہ مخلصانہ مشورہ دیا کہ وہ پاکستان میں ہر جگہ جائیں مگرگوجرانوالہ نہ جائیں جہاں لوگ چڑوں کو بڑی رغبت سے بھون کر کھاتے ہیں، اور رحیم یار خان سے بھی دور رہیں جہاں عرب امارتوں کے شہزادے اُن کا ذوق و شوق سے شکارکرتے ہیں۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ہر سال معصوم اور سادہ لوح پرندوں کی بڑی تعداد میرے مشورے پر عمل نہیں کرتی اور پاکستان کی طرف موسمی ہجرت کا سفر اُن کا سفر آخرت بن جاتا ہے۔ یہ کالم اتفاقاً پرندوں کے تذکرے سے شروع ہوا اور چلتے چلتے (بلکہ اُڑتے اُڑتے) وطن عزیز تک آپہنچا۔ آپ نے پاکستانی پرندوں کی دلکش اور دلفریب تصویریں دیکھنی ہوں توگلبرگ (لاہور) کے ایک خستہ حال گھر جائیں جہاں ڈاکٹر مبشر حسن رہتے ہیں۔اُن کی اُتاری ہوئی تصویریں اُن کے اُس ڈرائنگ روم کی زینت ہیں ۔ اگر ڈاکٹر صاحب آپ کو اُس بوسیدہ کرسی پر بیٹھنے کی اجازت دے دیں (یہ اعزاز مجھے ہمیشہ حاصل ہوتا ہے) جس پر جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم بیٹھ کر اپنے میزبان سے سیاسی مشورے کیا کرتے تھے تو آپ کو چاروں طرف لگی ہوئی پرندوں کی تصاویردیکھنے میں آسانی رہے گی۔ مناسب ہوگا کہ یہ کالم ختم کرنے سے پہلے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس میں اپنی دوست خاتون امینہ سیدہ صاحبہ کا شکریہ ادا کیا جائے جنہوں نے ٹی جے رابرٹس کی دو جلدوں میں ضخیم کتاب شائع کی جس کا نام ہے ''پاکستانی پرندے‘‘ ۔کتاب میں بتایا گیا ہے کہ پرندوں کی 660 قسمیں (Species ) دیسی یعنی مقامی ہیں۔570 قسم کے پرندے صرف موسم سرما میں ہمارے مہمان بنتے ہیں تاکہ یہاں انڈے دے سکیں۔ رابرٹس نے ہم پر ایک اور احسان یہ کیا کہ ہمارے ہاں دودھ دینے والے جانوروں (Mammals) پر بھی کتاب لکھی۔ وہ 1946ء میں ہندوستان آئے اور 1984 ء تک پاکستان میں رہے اورخانیوال کے قریب بڑے پیمانے پر کپاس اُگائی۔ پرندوں پر کتابیں لکھنے میں رابرٹس کی معاونت اُن کے مقامی اور قابل ساتھی جناب سلیم علی نے کی۔کالم اس دُعا پر ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان میں رہنے والے انسانوں اور وہاں کے بے زباں پرندوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں