قاتل صاف بچ گئے!

جو چُپ رہے گی زبان خنجر لہُو پکارے گا آستین کا! 
آپ نے یہ مصرعہ بارہا سنا ہوگا،اسے ایک بار پھر پڑھ لیں۔ میں اپنے قارئین سے یہ درخواست اس لیے کر رہا ہوں کہ وہ مندرجہ ذیل سطور میں ایک ایسے قتل کے بارے میں پڑھیں گے جس کے سلسلے میں نہ صرف زبان خنجر چپ ہے بلکہ آستین کے لہوکی پکار بھی سنائی نہیں دیتی۔یہ قتل تھا بے نظیر بھٹو کا جو دسمبر2007 ء میں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں کیا گیا۔ کروڑوں پاکستانیوں نے اس المیے کی خبر سنی توغم واندوہ کے ساتھ ساتھ اُن کا رد عمل یہ بھی تھا کہ ان کے قاتل پکڑے نہیں جائیںگے ،کبھی پتہ نہیں چلے گا کہ اس قتل کا ذمہ دارکون تھا؟اہل پاکستان کوآج تک پتہ نہیں چل سکاکہ اسی لیاقت باغ میں لیاقت علی خان کے قتل کی سازش کرنے والے کون تھے؟1988ء میں جنرل ضیاء الحق کے طیارے کوکس نے تباہ کیاتھا؟ ایک وزیراعظم کے بیٹے اورحاضر سروس وزیراعظم کے بھائی مرتضیٰ کو کس کے حکم پر اُس کے اپنے گھر کے باہر پولیس کی اندھا دھند فائرنگ سے قتل کر دیاگیا؟ یہ تو ذکر تھا بڑے لوگوں کا، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہر روز عام لوگ کس طرح غائب کر دیے جاتے ہیں؟ اُنہیں کون ،کیوں ،کہاں اُٹھا کر لے جاتاہے ؟کسی کے پاس ان سوالوں کا جواب نہیں۔
آیئے اب ہم اصل موضوع کی طرف لوٹ چلیں۔ بے نظیرکے معاملے میں تو اس پر بھی اتفاق نہیں کہ وہ ہلاک کس چیزسے اورکس طرح ہوئیں؟ سر پرگولی لگنے سے یاکارکی چھت کے آہنی لیورکے سرسے ٹکرانے کی وجہ سے۔ پوسٹ مارٹم ہوتا تو یہ معمہ حل ہو جاتا۔ پوسٹ مارٹم کے بغیر بھی ڈاکٹروں کی ٹیم جس نے ہسپتال میں ان کی جان بچانے کی ہر ممکن کوشش کی، بآسانی بتا سکتی تھی کہ مرحومہ کے سر پرگولی کا نشان تھا یاکارکے Lever کا؟ میڈیکل رپورٹ ابھی تک سربستہ رازہے، آخرکیوں؟ یہ ہیں وہ سوالات جو Heraldo Munoz نے اپنی کتاب میں اُٹھائے ہیں جوگزشتہ ہفتے شائع ہوئی۔ کتاب کا عنوان ہی اُس کے مندرجات کو بخوبی بیان کر دیتا ہے۔۔۔ Getting Away with murder اس کا عام فہم مطلب ہے''ایسا قتل جس میں قاتل صاف بچ گئے‘‘۔ عام دستور یہ ہے کہ مقتول کے اقربا خون کا دعویٰ کرتے ہیں، مجرموںکو سزادلوانے تک چین سے نہیں بیٹھتے۔مجرموں کو سزامل بھی جائے تو اُن کی آہ وبکاختم نہیں ہوتی، اُنہیں صبر نہیں آتا اورمرتے دم تک اپنا ماتم جاری رکھتے ہیں۔ بے نظیر کے قتل پراقربا کا معاملہ مختلف ہے۔ مرحومہ کا خاونداس قتل کے بعد پورے پانچ سال پاکستان کا صدر رہا مگر قتل کی ایف آئی آر تک درج نہ کرائی، جوکچھ کیاگیا وہ بھی رہتی دُنیا تک اپنی مثال آپ رہے گا۔اقوام متحدہ سے تحقیقاتی ٹیم منگوائی گئی۔ یہ کتاب اُسی ٹیم کے سربراہ نے لکھی ہے۔اس کا پبلشر برطانوی ادارہ Norton ہے۔آپ25 پائونڈ خرچ کرکے یہ کتاب منگوالیں یا E-Book پر پڑھ لیں مگر 25 پائونڈ پھر بھی دینے پڑیں گے۔
2009ء میں کتاب کے مصنف اقوام متحدہ کی طرف سے چلی کے سفیر تھے۔ وہ اقوام متحدہ کی تفتیشی ٹیم کے سربراہ بنائے گئے جسے حکومت پاکستان کی دعوت اور درخواست پر بے نظیرکے قتل کے ذمہ داروں کا کھوج لگانے کے لیے بلایاگیا اور مصدقہ اطلاع کے مطابق اس کام کے لیے اقوام متحدہ کو بڑی رقم ادا کی گئی۔ یہ وفد تین ارکان پر مشتمل تھا۔ دُوسرے دو ارکان تھے Peter Fitzgerald (آئر لینڈ پولیس کے سابق سینئر افسر) اور Mazruki Darusman (انڈونیشیا کے سابق اٹارنی جنرل) ۔
کتاب شروع ہی اس وحشت ناک انکشاف سے ہوتی ہے کہ ابھی یہ وفد پاکستان کی سرزمین پر پہنچا بھی نہیں تھا کہ اسے دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں۔ یہ پتہ نہ چل سکا کہ دھمکیاں کون اور کیوں دے رہا ہے؟ وفد پاکستان پہنچا تو پہلے ہی دن اس کے ارکان کا ماتھا ٹھنکا جب اُنہیں وزیر داخلہ رحمان ملک سے ملنا پڑا۔ وفد کے لیے یہ ملاقات شدید حیرت ہی نہیں تشویش کا باعث بھی بنی۔ وزیر داخلہ نے فخریہ انداز میں بتایاکہ انہوں نے قتل کے جرم کے شبہ میں چار افراد کوگرفتار بھی کر لیا ہے۔ انہوں نے اسی پراکتفا نہ کی بلکہ وفدکو 70 صفحات پر پھیلی ہوئی رپورٹ پیش کر دی جس میں تفصیل سے بتایاگیاتھاکہ وفد کی آمد تک کن باتوں کا پتہ چلایا جا چکا ہے؟جو حکومت تفتیش کے اتنے مراحل سے گزر چکی اوراتنی گتھیاں سلجھا چکی ہے اُسے باہر سے تفتیش کے لیے ایک بین الاقوامی ٹیم منگوانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ وفد کے ارکان کے ذہن میں یہ سوال بجا طورپراُبھرا کہ حکومت قاتلوں کو پکڑنا چاہتی ہے یا اتنے سنگین جرم پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے؟ 
مصنف نے لکھا کہ جب وفدنے سرکاری رپورٹ پر تکیہ کرنے کے بجائے اپنی تفتیش شروع کی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیاکہ کوئی خفیہ آنکھ نہ صرف اس کی نقل و حرکت کو دیکھ رہی ہے بلکہ وہ اس کی تفصیل دُوسروںکو بھی بتا رہی ہے۔اُن کا باورچی تک اُن کے ایجنڈے سے واقف تھا۔آخری لمحے پر اُن کی پروازیں منسوخ کر دی جاتی تھیں تاکہ وہ جن لوگوں سے ملنا چاہتے تھے ، اُن سے نہ مل سکیں۔ ان پراسرار مشکلات کے باوجود وفد250 افرادکا انٹرویو لینے میں کامیاب ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ وفد کسی حتمی نتیجے پرنہ پہنچ سکا( نہ ہی وفدکواس مقصدکے لیے بلایا گیا تھا۔) مصنف نے یہ بھی لکھاکہ اگر وفدکے ذہن میں پہلے ایک شک تھاکہ کوئی خفیہ ہاتھ حقائق کو چھپانا چاہتا ہے توتفتیش نے اس شک کو یقین میں بدل دیا۔ ہسپتال کے ارباب بست وکشاد نے وفدکو قبرکشائی کا مشور ہ دیا تو وفد نے اسے نہ مانا کیونکہ اس کی رائے میں پولیس نے جان بوجھ کر تفتیش کا حلیہ بگاڑدیاتھا (مصنف کے الفاظ میں (Botched the Investigation ۔
اس کتاب کا مقصد قتل کے تفتیشی عمل کی اندرونی کہانی بیان کرنا ہے۔کتاب پرکئی تبصرے شائع ہوئے مگر سب سے قابل ذکر وہ ہے جوکرسٹینا ولیم نے لکھا۔ اُس کی رائے میں اس کتاب کی اشاعت پاکستان میں جنرل مشرف پر چلائے جانے والے مقدمہ میں استغاثہ کی مددکرے گی۔کتاب طرح طرح کے سوالوں سے بھری ہوئی ہے۔ جب قاتلانہ حملہ ہوا تواُن کی Back-up کارکیوں تیزی سے جائے واردات سے بھاگ گئی؟ جب بے نظیر تقریرکر رہی تھیںتواُن کا ایک محافظ سٹیج سے عجیب اشارے کیوںکررہا تھا ؟ قتل کے چنددن بعد اسی محافظ کوکیوں قتل کر دیا گیا ؟ مصنف نے وثوق سے لکھا ہے کہ جن لوگوں نے ان کے سامنے گواہی دی اُنہوں نے متضاد بیانات دیے اور وہ جھوٹ بولتے وقت گھبراہٹ کا شکار ہوجاتے تھے۔ وفد نے جنرل مشرف کا یہ موقف ماننے سے انکار کر دیا کہ ان کی حکومت کے پاس بیت اللہ محسودکی فون پرایک گفتگو کی ٹیپ موجود ہے جس میںوہ قتل کی کامیاب سازش کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔
مصنف نے کتاب کے آخر میں ایک ہسپانوی ڈرامے کا ذکرکیا جس میں ایک غیر مقبول آمر مطلق کے قتل کے بعد ہر دیہاتی کہتا ہے کہ اسے گائوں والوں نے مارڈالا۔ مصنف کی رائے میں بے نظیر کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے۔ تبصرہ نگاروں نے بجا طور پر ہماری توجہ اس بے اُصول ،موقع پرست اورناعاقبت اندیش سمجھوتے کی طرف دلائی جس کے تحت امریکی اور برطانوی حکومتوں نے مشرف اور بے نظیرکے درمیان صلح کروائی اوراُنہیں آنے والے دور کے اقتدار میں برابرکا شریک بن جانے پررضامندکر لیا۔اس معاہدے پر دستخط کرکے بے نظیر نے اپنی موت کے پروانے پردستخط کیے تھے۔۔۔اصل المیہ جو ہمیں اکثر یاد نہیں رہتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں