خشونت سنگھ: بے باک مصنف

2 فروری 1915ء کو ایک بچہ پنجاب کے ضلع خوشاب کے دُور افتادہ، گم نام اور ریت کے بگولوں میں گھرے ہڈالی نامی گائوں کے ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوا۔ 99 برس بعد 20 مارچ2014 ء کواس کا انتقال ہواتو برطانیہ کے ہر اچھے اخبار میں تعزیتی اور تعریفی مضامین شائع ہوئے ۔ نام تھا اُس کا خشونت سنگھ ، سو کے قریب کتابیں لکھیں مگر 1956ء میں شائع ہونے والے ناول Train to Pakistan کو سب سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی ، اسے 1998ء میں فلمایا گیا ، پامیلا نے اس فلم کا ڈائریکٹر ہونے کی وجہ سے کافی داد سمیٹی۔ 1959ء میںاُن کی شائع ہونے والی دوسری کتاب کا عنوان تھا: ''میں اب بلبل کی آواز نہ سن پائوں گا‘‘۔ 1990ء میں '' دہلی‘‘ کے عنوان سے ایک اور اچھا ناول لکھا۔ 1995ء میں شائع ہونے والے ناول The Company of Women کو بھارت میں لکھے جانے والے انگریزی ادب میں ممتاز مقام حاصل ہے۔ 2002 ء میں شائع ہونے والی خود نوشت کا نام اُتنا ہی دلچسپ تھا، جتنے کتاب کے مندرجات۔ Truth, Love and Little Maliceمیں حمیرہ قریشی کے ساتھ مل کر اُنہوں نے اپنی ساٹھ سالوں پر پھیلی ہوئی تحریروں کو مرتب کیا۔ (یہ کتاب 2010 ء میں شائع ہوئی۔) سب لوگوں کا خیال تھا کہ اب کتابوں کی تصنیف اور تالیف کے مرحلہ سے گذر چکے ہیں۔ یہ اندازہ غلط نکلا چونکہ اُنہوں نے پچھلے برس (98 سال کی عمر میں) The Good, The Bad and the Ridiculous کے نام سے سوانحی خاکوں کی کتاب شائع کر دی۔
خشونت سنگھ کو اُردو ادب خصوصاً اُردو شاعری سے گہرا شغف تھا۔ اُنہوں نے کئی بڑے اُردو شعرا کے کلام کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ شاعری کا دُوسری زبان میں ترجمہ کرنا آسان کام نہیں ہوتا مگر اُنہوں نے ترجمہ کا حق ادا کر دیا۔ فیض احمد فیض بھی اُن کے دوستوں میں شامل تھے۔ اُنہوں نے دو برس پہلے کسادلی کے ادبی میلہ میں فیض کی چند نظموں کا انگریزی ترجمہ سنایا، تو اُن پر دادو تحسین کے پھول برسانے کے لئے فیض کی ایک بیٹی (سلیمہ ہاشمی) نے خاص طو رپر اس میلہ میں شرکت کی۔ ظاہر ہے کہ خشونت سنگھ کی مادری زبان پنجابی تھی۔ گفتگو سلیس اُردو میں کرتے تھے اور کتابیں بڑی عمدہ اور نستعلیق انگریزی میں لکھتے تھے۔ اُس دور کے ہر تعلیم یافتہ شخص کی طرح فارسی ادب سے بھی کافی شناسائی تھی۔ دُنیا بھر کا ادب پڑھا مگر اُسے اس طرح ہضم کیا کہ وہ ان کی ثقافتی شخصیت اور تہذیبی مزاج میں رچ بس گیا۔ وہ صرف دُوسروں پر نہیں اپنے آپ پر ہنسنے اور اپنا مذاق اُڑانے کے مشکل فن کے ماہر تھے۔ اُنہوں نے کسی کو نہیں بخشا (جس میں اُن کی ذات بھی شامل تھی)۔ سیاست دانوں، مذہبی رہنمائوں، بڑے بڑے سرکاری افسروں اور بھارت میں پوجا کئے جانے والے بے شمار دیوتائوں، سب کو طنز و مزاح کے چبھتے تیروں کا بے دریغ نشانہ بنایا۔ ایک زمانے میں خشونت سنگھ کالم لکھا کرتے تھے (اُن کا یہ شغل ہر کالم نگار کے لئے باعث فخر ہے)۔ کالم کا نام پڑھ کر آپ خوش ہو جائیں گے۔ With Malice towards one and All یہ کالم بھارت کے ہر اچھے اخبار میں بیک وقت شائع ہوتا تھا۔ (اس کا مطلب ہے درجنوں اخبارات میں)۔ پاکستان کے ضلع خوشاب کے ایک گائوں میں پیدا ہونے کی وجہ سے پاکستان کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے اور اس کا اتنا برملا اور کھلم کھلا (یعنی بہ با نگ دُہل) اعلان کرتے رہتے تھے کہ بھارت میں دائیں بازو کے مہاسبھائی، تنگ نظر اور فرقہ پرست ذہن رکھنے والے اُن کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ واحد پاکستانی ہے جو بھارت میں رہتا ہے۔
خشونت سنگھ کے والد کو کاروبار میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔ وہ ٹھکیداری میں اس عروج تک پہنچے کہ اُنہیں برطانوی حکومت نے سرکاخطاب دیا۔ (اُن کے چچا کو بھی)۔ باپ کے سر بن جانے سے اُن کی ماں کے نام کے ساتھ لیڈی کا اضافہ ہو گیا۔ خشونت سنگھ کی ذہانت سے انکار نہیں، مگر اُنہیں صرف اپنے باپ کی خوشحالی کی بدولت اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ابتدائی تعلیم دہلی کے ST. Stephens کالج میں حاصل کی۔ (جنرل ضیاء الحق بھی اسی کالج سے پڑھے تھے ۔) بی اے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا اور (اس کالم نگار کی طرح تھرڈڈویژن لے کر بمشکل پاس ہوئے)۔ اعلیٰ تعلیم برطانیہ میں حاصل کی۔ انگریزی ادب پڑھنے کے ساتھ ساتھ بیرسٹر بن جانے کے مراحل بھی طے کئے اور لاہور واپس جا کر ہائی کورٹ میں پریکٹس شروع کر دی مگر نیم دلی کے ساتھ۔ وکالت میں (علامہ اقبال کی طرح) عدم دلچسپی کی وجہ سے کوئی نمایاں مقام حاصل نہ کر سکے۔ بٹوارا کے بعد اُن کا سارا خاندان دہلی منتقل ہو گیا تو خشونت سنگھ بھی اہل خانہ کے ساتھ ہجرت کر گئے مگر اپنا دل خوشاب کے ریگستان میں چھوڑ گئے۔ 1947 ء میں یہ ناکام وکیل بھارت کی وزارت خارجہ سے بطور پریس افسر وابستہ ہوگیا۔ اوٹاوا اور لندن میں بھارتی سفارت خانوں میں اس طرح کام کیا کہ اپنے ہر غیر پیشہ ورانہ مشغلہ (اپنے تخیل سے کام لے کر آپ ان کی فہرست خود ہی مرتب کر لیں) کو اپنے سرکاری فرائض پر ترجیح دی۔ ظاہر ہے کہ اس ملازمت کا دور مختصر رہا۔ بھارت واپس جا کر اُنہوں نے تصنیف و تالیف پر توجہ دی اور اتنا نام کمایا کہ پارلیمنٹ کے ایوان بالا (راجیہ سبھا) کے رُکن بنائے گئے۔ اُن کے مداحوں کی طرح اُن کے مخالفین کی تعداد کبھی کم نہیں رہی، جو اُنہیں خوشامدی سنگھ کے نام سے پکارتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ وہ اندرا گاندھی اور اُس کے بدنام زمانہ بیٹے (سنجے گاندھی) کے قریبی ساتھی تھے اور ماں بیٹے کی کسی ایک زیادتی اور مجرمانہ اور غیر قانونی حرکت کے خلاف ایک لفظ نہ بولتے تھے اور نہ لکھتے تھے۔ مسزگاندھی نے اُنہیں سب سے بڑا سرکاری ایوارڈ بھی دلوایا۔ (جو انہوں نے بعد میں احتجاجاً واپس کر دیا)۔گہری مگر قابل مذمت یہ دوستی اُس وقت ختم ہو گئی ، جب مسز گاندھی کے حکم پر سکھوں کے متبرک ترین مقام دربار صاحب امرتسر(گولڈن ٹمپل)پر فوجی دھاوا بول کر سینکڑوں سکھوں کو ہلاک کیا گیا۔ مسز گاندھی کے قتل (اور وہ بھی سکھ محافظوں کے ہاتھوں) کے بعد دہلی میں ہندوئوں نے ہزاروں سکھوں کاقتل عام شروع کیا تو خشونت سنگھ کو بھاگ کر سویڈن کے سفارت خانہ میں پناہ لینی پڑی۔ 
خشونت سنگھ نے سکھوں کی تاریخ دو جلدوں میں لکھی جو علمی تحقیق کا بہترین نمونہ سمجھی جاتی ہے، مگر یہ کارنامہ بھی اُنہیں سکھوں میں اس لیے ہر دل عزیز نہ بنا سکا کہ وہ خالصتان کی مخالفت میں پیش پیش رہے۔ یعنی ع
اپنے بھی خفا مجھ سے بیگانے بھی ناخوش
مقام افسوس ہے کہ مسز گاندھی اور اُن کے غیرمقبول بیٹے کے معاملہ میں خشونت سنگھ زہر کو قند کہنے پر اصرار کرتے رہے اور یہ فعل اُن جیسے بااُصول، باضمیر ، روشن دماغ اور اخلاقی اقدار کے علمبردار شخص پر بدنما دھبہ بن کر اس طرح چپک گیا کہ ان کی دُوسری بے شمار خوبیاں ماند پر گئیں۔ خشونت سنگھ نے ماحولیات کو بہتر اور صحت افزا بنانے کے لیے بڑی کاوش کی۔ وہ پھولوں، پرندوں اور بلیوں کو بے حد پسند کرتے تھے، مگر ساری عمر اُن کی سب سے بڑی دلچسپی کا مرکز (عمر سے قطع نظر) خوبصورت خواتین رہیں۔ اُن کی ہر خود نوشت اُن کی جنسی فتوحات کے تذکروں سے بھری پڑی ہے۔بے حد معمولی شکل و صورت، دیہاتی حلیہ اور خاص طور پر سکھ ہونے کے باوجود اُن کے یہ سیکنڈل نما انکشافات حیرت انگیز ضرور ہیں اور پڑھنے والوں کے حاسدانہ جذبات کو اُبھارتے ہیںمگر ہیں سچائی پر مبنی ۔ 
چند برس ہوئے خشونت سنگھ کو اپنی رفیقۂ حیات (ساٹھ سال کی خوش گوار شادی کے بعد) سے جدائی کا صدمہ سہنا پڑا۔ اُن کا آخری وقت آیا تو خوش قسمتی سے اُن کا بیٹاراہول اور بیٹی مالا، اُن کے پاس بیٹھے ان کی سدا بہار باتیں سن رہے تھے اور محظوظ ہو رہے تھے۔ (ان سے پہلے ان گنت سامعین کی طرح) اچانک اپنی داستان سناتے سناتے داستان گو ہمیشہ کے لئے سو گیا۔اس سے زیادہ پرُسکون اور قابل رشک انجام اور کیا ہو سکتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں