ایک روشن ستارہ ڈوب گیا

30 مارچ کی شام کو میں بیلجیم کے دو روزے طوفانی دورہ سے واپس آیا تو یہ خبر ملی کہ دو ہفتوں کے اندر برطانیہ ایک اور بااُصول اور باضمیر شخص سے محروم ہو گیا۔ ابھی اینتھونی بین کی قبر کی مٹی بھی خشک نہ ہوئی تھی اور نہ اُن کی وفات پر ماتم کرنے والے ہزاروں لاکھوںسوگواروں کے آنسوکہLorna Arnold کو بھی خالق حقیقی نے اپنے پاس بلالیا۔ صرف چند ہفتے پہلے دہلی میں وفات پانے والے خشونت سنگھ کی طرح اس بزرگ خاتون نے بھی 98 برس عمر پائی۔ وہ برطانیہ میں ایٹمی توانائی کی سرکاری مورخ تھیں۔ اُنہوں نے کئی کتابیں اور بے شمار تحقیقی مضامین لکھے مگر اُن میں تین سب سے نمایاں ہیں اور سنگ میل کا درجہ رکھتی ہیں۔ اوّل۔ 1957 ء میں برطانیہ میں Wind Scale کے مقام پر ایٹمی ری ایکٹر میں ہونے والا حادثہ۔ دوم۔ وہ ایٹمی تجربات اور اُن کے خوفناک اثرات جو برطانوی حکومت نے خفیہ طور پر آسٹریلیا میں کیے۔ سوم۔ برطانیہ کا بڑی خاموشی اور رازداری سے ہائیڈروجن بم بنانا (جو ایٹم بم سے کئی گنا زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے)۔ اس خاتون کا کمال یہ ہے کہ اُنہوں نے مذکورہ بالا نازک موضوعات پر کتابیں اتنی عالمانہ غیر جانبداری اور تحقیق سے لکھیں کہ ایٹمی ہتھیاروںکے حامی اور مخالف دونوں اُن کی عزت کرتے تھے اور اُن کی کتابوں کا حوالہ دیتے تھے ۔ اُنہوں نے دُوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی حکومت کے اُس شعبہ میں اعلیٰ سطح پر کام کیا، جس کا کام جنگ کے خاتمہ کے بعد جرمنی سے معاملات طے کرنے کی منصوبہ بندی کرنا تھا۔ اسے کہتے ہیں دُور اندیشی۔ انہوں نے ایک زمانے میں واشنگٹن میں سفارتی فرائض بھی انجام دیئے۔ اُن کے ہم عصر افسروں کی نظرمیں اُن سے زیاہ فرض شناس ،محنتی اور تفصیلات کا ماہر ہونے کا اعزاز سارے برطانیہ میں کسی اور شخص کو نہیں دیا جا سکتا۔ اُنہوں نے اپنی طویل زندگی میں کئی اتار چڑھائو دیکھے۔ وہ ایک کم آمدنی والے گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ اُنہوں نے تعلیمی وظیفہ پا کر 1934 ء میں لندن کے بیڈ فورڈ کالج میں اعلیٰ تعلیم اور کیمبرج یونیورسٹی سے تعلیم وتدریس کی ڈگری لی۔ پڑھانے میں اُن کا دل نہ لگا۔وہ کیمبرج میں دُنیا کے بڑے بڑے دانشوروں کی علمی تقریبات میں شریک ہونے لگیں مگر وہ کسی سے بھی متاثر نہ ہوئیں اور اپنی ڈائری میں لکھا کہ میں کسی ایک موضوع پر اتنے وثوق سے عبور ہونے کا زعم نہیں رکھتی، جتنا یہ دانشور جو اپنے آپ کو دنیا کے ہر مسئلہ کا ماہر سمجھتے ہیں اس کا دعویٰ کرتے ہیں اور اعلیٰ مقامات پر فائز ہیں۔ جنگ عظیم شروع ہوئی تووہ دل کے ایک موذی مرض کی وجہ سے صاحب فراش تھیں۔ جنگ شروع ہوئی تو اپنی بیماری کو نظر انداز کر کے سرکاری فرائض ادا کرنے لگیں اور وہ بھی اتنی تن دہی اور جانفشانی سے کہ چند سالوں کے اندر فرش سے عرش تک جا پہنچیں۔ اُن کی عمر ابھی تیس سال بھی نہ ہوئی تھی جب برطانوی فوج کے تین میجر اُن کے ماتحتوں میں شامل تھے۔ جنگ ختم ہوئی تو اُنہیں بے حد غیر محفوظ جرمنی جا کر رہنا پڑا۔ وہ اس عالم میں رات کو سوتی تھیں کہ تکیہ کے نیچے گولیوں سے بھرا ہوا ریوالور رکھا ہوتا تھا۔ برطانوی سپاہی اُنہیں سلیوٹ کرتے وقت اس نام سے پکارتے تھے۔ Miss Rainbow Sir!(یہ اُن کا خفیہ نام تھا۔) جب اُنہیں امریکہ میں برطانوی سفارت خانہ میں تعینات کیاگیاتو اُنہیں ایک ایسے شخص (Donald Maclean) کے ساتھ کام کرنا پڑا جو اپنی عجیب و غریب حرکات کی وجہ سے اس خاتون کے لئے بے حد پریشانی کا باعث بنا۔ اس شخص کے غیر رواجی کردار کا راز اُس وقت فاش ہوا جب پتہ چلا کہ وہ روسی ایجنٹ اور جاسوس ہے اور اُسے جان بچانے کیلئے روس بھاگ کر پناہ لینی پڑی ۔
وہ چند برس سفارتی ملازمت کے بعد مستعفی ہو کر برطانیہ واپس آئیں تاکہ اپنا گھر بسا سکیں۔ اُنہوں نے ایک امریکی موسیقار سے شادی کر لی۔ وہ دو بیٹوں کی ماں بن گئیں تو بدقسمتی سے اُن کا خاوند اُنہیں چھوڑ کر واپس امریکہ چلا گیا۔ 58 برس کی عمر میں اس خاتون کوبے روزگاری کا مقابلہ کرنا پڑا تو وہ ایک بسکٹ فیکٹری میں سب سے کم تنخواہ ملنے والی ملازمت قبول کرنے پر مجبور ہو گئیں۔ چند سال بعد لندن کے مشہور رسل سکوائر (جو لندن یونیورسٹی کا باغ سمجھا جاتا ہے) میں ایک پرانی ساتھی سے اتفاقیہ ملاقات اُنہیں سرکاری ملازمت میں واپس لے آئی۔ یہاں سے اُن کی قسمت کا ستارہ پھر چمکا اور ایٹمی توانائی کے مشکل موضوع پر اُن کی رائے کو مستند اور معتبرتسلیم کیا جانے لگا۔ کمال یہ ہے کہ یہ خاتون نہ سائنس دان تھیں اور نہ علم طبیعیات کی ماہر، مگر اُنہوں نے سائنس دانوں سے اپنی علمیت منوالی۔85 سال کی عمر تک تحقیقی کام جاری رکھا۔ بدقسمتی سے 12 سال قبل وہ اپنی بینائی سے محروم ہوگئیں مگر یادداشت کے بل بوتے پر اپنی شائع شدہ کتابوں پر نظر ثانی کا کام جاری رکھا۔ وفات سے کچھ عرصہ قبل اُنہوں نے زندگی میں پہلی بار اپنی ذاتی رائے بتاتے ہوئے کہا کہ وہ اس حق میں نہیں کہ برطانیہ ایٹمی ہتھیاروں کا مالک ہو چونکہ اس کے فوائد کم ہیں اور نقصان زیادہ۔ دُنیا سے اس طرح رخصت ہوئیں کہ دونوں بیٹوں نے اپنی نحیف ونزارمگر بلند علمی درجہ رکھنے والی محقق بوڑھی ماںکا تابوت اُٹھا رکھا تھا۔ مداحوں نے پھولوں کی شکل میں خراج عقیدت پیش کیا،اتنے پھول کہ اُنہوں کی قبر کی مٹی کو ڈھانپ لیا۔ گارڈین جیسے بڑے اخبار نے لکھا کہ آج برطانیہ کے علمی اُفق پر چمکنے والا ایک اور روشن ستارہ ڈوب گیا، چونکہ ہماری Lorna (جس نے ساٹھ برس برطانیہ کی کئی میدانوں میں خدمت کی) ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گئی۔ بصارت سے محروم ہو جانے کے باوجود ہماری بصیرت میں اضافہ کرتی رہی۔ برطانیہ کی خوش نصیبی کا راز یہ ہے کہ اس ملک کو Lorna جیسی عظیم شخصیات کی خدمات سے استفادہ کرنے کا شرف حاصل ہے۔ ہماری بدقسمتی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم ڈاکٹر عبدالسلام جیسے بڑے سائنس دان، اقبال احمد جیسے سماجی علوم کے ماہر، ڈاکٹر حمید اللہ اور جناب غامدی صاحب جیسے بڑے علماء اور اسلام کی رُوح کو سمجھنے والے دانشوروں کو اپنے ملک میں رہ کر ملک کی خدمت کرنے کا موقع نہیں دیتے اور اُنہیں جلا وطنی کی سزا دے کر دیار غیر میں ہجرت کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
ماضی قریب میں برطانیہ میں بائیں بازو (سوشلسٹ) کے نظریات رکھنے والوں کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی تو اُن کے اخباروں اور رسالوں پر بھی موسم خزاں آگیا۔ (فرانس، اٹلی اور جرمنی کے برعکس جہاں آج بھی بائیں بازو کے اخبار رسالے بڑی تعداد میں چھپتے اور فروخت ہوتے ہیں)۔ برطانیہ میں پہلے ڈیلی ورکر بند ہوا، پھر (سوویت یونین کا حامی) مارننگ سٹار غروب ہوا۔ اب ٹراٹسٹکی نظریات کا ایک ہفتہ روزہ (سوشلسٹ ورکر) مصنوعی تنفس اور پارٹی کے چند ہزار کٹڑ اراکین کی دیوانہ وار حمایت کی بدولت زندہ سلامت ہے جو کہ ایک کارنامہ سے کم نہیں۔ فل ایونز Phil Evans کے بنائے ہوئے کارٹون اس ہفت روزہ کے تیس سال تک زینت بنے۔ اب پچھلے دنوں وہ دل شکستگی کے باعث صرف 68سال کی عمر میں فوت ہوئے تو دائیں بازو کے اخبارات نے بھی اُن کی تعریف میں تعزیتی مضامین لکھے اور فنی خوبیوں کو سراہا۔ ایک اچھا کارٹون بنانے والے چند نقش و نگار کے ذریعہ وہ بات لوگوں کو کہہ سکتاہے اور اتنے موثر طریقے سے سمجھا جا سکتاہے جس کے لئے ایک طویل مضمون بھی شاید کافی نہ ہو۔ اس کالم کے آخر میں اپنے قارئین کو اس بڑے ہر دلعزیز فنکار کا بنایا ہوا صرف ایک کارٹون دکھانا چاہتا ہوں۔ کارٹون میں آٹھ مزدور کام ختم کر کے گھر جاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ہر لحاظ سے ایک دُوسرے کی فوٹو کا پی ہیں اور طنزاً وہ بات ایک دُوسرے سے کہہ رہے ہیں جو سوشلزم کے مخالفین کہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اگر سوشلسٹ نظام آگیا تو وہ سب مزدوروں کو ایک دُوسرے کی طرح بنا دے گا۔ مخالفین کا موقف یہ ہے کہ سوشلسٹ نظام کی مساوات لوگوں کے درمیان فرق کو مٹا کر اُنہیں یکساں بنا دے گی۔ کارٹون میں آپ کو جو آٹھ برطانوی کارکن گھر جاتے نظر آتے ہیں، وہ سرمایہ داری نظام میں بھی بالکل ایک جیسی زندگی گزارتے ہیں اور حلیہ کے اعتبار سے بھی قطعاً مختلف نظر نہیں آتے۔Evans نے ہمارے طارق علی کی لکھی ہوئی ایک کتاب اور کارل مارکس کی سب سے اہم کتاب ''Kapital‘‘کو اپنے کارٹونوں سے قابل فہم اور دلچسپ بنا دیا۔ دس سال پہلے والدہ (جن سے اُن کوگہری جذباتی وابستگی تھی) کی المناک وفات اوراُسی سال اپنی بیوی سے علیحدگی اور پھر چھ سال پہلے اپنی جواں سال بیٹی کی وفات نے اس بڑے عمدہ اور نظریاتی فنکار کا دل توڑ دیا اور اُن میں زندہ رہنے کی اُمنگ ختم کر دی۔پس ماندگان کی تعداد تو صرف پانچ ہے۔ ایک بھائی، ایک بہن اور تین نواسیاں، مگر سوگواران کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ گنوائی نہیں جا سکتی۔ اگر آج یہ فنکار زندہ ہوتا تو یہ سن کر کتنا خوش ہوتا کہ 29 مارچ کو پیرس کے میئر کا انتخاب ایک خاتون نے جیتا اور وہ بھی جو اشتراکی ذہن رکھتی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں