جون آف آرک

28 مارچ کی صبح میں اپنے ہم پیشہ وکیل بیٹے (فیصل)کے ساتھ لندن سے برسلز کے لئے بذریعہ ٹرین روانہ ہوا۔ اس ٹرین کویوروسٹار(Eurostar) کہتے ہیں۔ برطانیہ اور فرانس کے درمیان سمندر (رود بار انگلستان) کے نیچے ایسی سرنگ بنائی گئی ہے جس کے راستے یہ تیز رفتار ٹرین کو لندن سے پیرس اور لندن سے برسلز تک سینکڑوں میل کا سفر صرف ڈھائی گھنٹے ( یعنی لاہور سے سیالکوٹ جانے جتنے وقت) میں مکمل کر لیتی ہے۔ بوڑھا کالم نگار اُونگھ رہا تھا کہ فیصل نے جگایا اور بتایا کہ ٹرین فرانس کے شمال مشرقی شہر Lille (جسے 'لیل‘ بولا جاتا ہے) میں رُکی ہے اور جب دوبارہ چلے گی تو ہم ایک افسانوی شہرت کی مالک نوجوان لڑکی جون آف آرک کا مجسمہ دیکھ سکیں گے۔ ٹرین چلی تو ہم اس مجسمے کی صرف ایک جھلک دیکھ سکے۔ یہ جھلک اتنی ہی مختصر تھی جتنی تاریخ کے سٹیج پر اس لڑکی کا عملی کردار۔۔۔ پلک جھپکنے میں غائب مگر اپنے پیچھے انمٹ نقوش چھوڑگئی۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی یہ کہنا مشکل ہے کہ حقیقت کہاں ختم ہوئی اور افسانہ کہاں سے شروع ہوا۔ 
جون آف آرک ،جسے اورلیاں(Orleans) کی دوشیزہ بھی کہا جاتا ہے، 1412ء میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئی۔ بچپن گزار کر جوانی میں بمشکل قدم رکھا تھا کہ اُس نے یہ عجیب دعویٰ کردیا کہ اُسے خواب میں تین فرشتوں نے بار بار بشارت دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے فرانس کو انگلستان کی فوج کا مقابلہ کرنے ، اسے شکست دینے اور فرانس کے مفتوحہ علاقوں کو آزاد کرانے کے لئے نامزد کیا ہے۔ اُس وقت فرانس اور انگلستان کے درمیان سو سالہ جنگ جاری تھی۔ فرانس میں تخت کے دعویٰ داروں میں اس طرح کی خونریزخانہ جنگی جاری تھی جو ہمیں مغلیہ دور کے آخری حصہ میں نظر آتی ہے۔ بادشاہ چارلس دوئم جون آف آرک کے مذہبی جوش و خروش اور جنونی کیفیت سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے اس سولہ سالہ لڑکی کو فوج کی کمان سونپ دی۔ جون نے نہ صرف 'اورلیاں‘ کے قلعہ کو انگریز فوج کے محاصرے سے آزاد کرایا بلکہ کئی جنگی جھڑپوں میں حملہ آوروں کو شکست دی۔ جب جون پیدا ہوئی تو فرانس کے بادشاہ ( چارلس ششم ) پر دیوانگی کے اتنے شدید دورے پڑتے تھے کہ اس میں حکمرانی کرنے کی اہلیت جاتی رہی۔ ( 1962ء میں پاکستان کے ایک فوجی آمر نے جب امریکی دبائو میں آکر ہندوستان کے ہاتھ اپنے تین دریا فروخت کیے توغالباً اس پر بھی اسی قسم کا دورہ پڑا ہوگا۔) جون آف آرک کو تخت نشینی کی جنگ میں ایک فریق (چارلس دوئم ) نے اپنی فوج کا سپہ سالار بنایا تو اُسے تلوار، گھوڑا ، زرہ بکتر اور فرانس کا پرچم بھی دیا۔
جون کی ولولہ انگیزقیادت نے شکست خوردہ فوج کے سینوں میں بھری ہوئی راکھ کو چنگاریوں اور شعلوں میں تبدیل کر دیا (جس طرح 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں چھمب جوڑیاں کے محاذ پر جنرل اختر ملک اور چونڈہ کی ٹینک لڑائی میں بریگیڈیئر امجد ملک کی بہادری اور بے خوفی نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا تھا)۔ بلاشبہ جون کو تجربہ کار فوجی کمانڈروں کی مشاورت حاصل تھی مگر انگریز فوج کے سیل رواں کے سامنے ایک نو خیز لڑکی کے مجاہدانہ جذبہ نے بند باندھ دیا۔ میدان جنگ میں جون ہمیشہ اپنی فوج کے ہراول دستے میں رہی۔ اگر اُس نے آہنی خود نہ پہنا ہوتا تو دُشمن کا توپ کے ذریعہ پھینکا جانے والا پتھر اُسے ہلاک کر دیتا، پھر بھی جون زخمی ہو گئی مگر بڑھ چڑھ کر دشمن پر حملہ آور ہوتی رہی۔ وہ اپنی فوج سے کئی گنا بڑی فوج پر دیوانہ وار لپکتی تھی تو اُس کی زیرکمان رہنے والی سپاہ کیونکر اس یلغار میں اُس کا ساتھ نہ دیتی !
جون کی بہادری اور رزم آرائی نے ایک ایسی داستان رقم کی کہ صدیاںگزر جانے کے باوجود اُس کی شہرت گھٹنے یا ماند پڑنے کے بجائے آسمان پر روشن ستاروں کی طرح آب و تاب سے چمک رہی ہے۔ تیز رفتار ٹرین میں سفرکرنے والے دو مسافروں نے سنگ مر مر کے بلند و بالا مجسمے کو لمحہ بھر کے لئے دیکھا مگر وہی لمحہ ان کی زندگی کا سرمایہ بن گیا۔
جون آف آرک کا کمال یہ ہے کہ اُس نے فرانس اور انگلستان کے درمیان روایتی جنگ کو مذہبی جنگ میں بدل دیا۔ یہ حکمت عملی بھی گویا بارودی سرنگوں سے اٹی ہوئی تھی ۔ جون روایتی قسم کی ایک عام عیسائی لڑکی نہ تھی۔ اُس کے حامیوں کو یہ خوف لاحق تھا کہ اگرجون کے مخالفین لوگوں کے دلوں میں اس شک کا بیج بونے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ جادوگرنی ہے ، اس کی روحانیت جعلی ہے اور وہ دراصل سفلی علم کی پیداوار ہے تو پھر فرانس کے عوام یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ جون جس شخص کی تخت نشینی کے لئے انگریز فوج سے برسر پیکار ہے وہ بھی شیطانی قوتوں کا آلہ کار ہے۔ فیصلہ کیا گیا کہ بڑے پادریوں کا ایک کمیشن جون کے کردارکی اچھی طرح چھان بین کر کے رپورٹ پیش کرے۔ جون کی خوش قسمتی تھی کہ اپریل 1429ء میں جب پادریوں نے اپنی رپورٹ کا اعلان کیا تو اُس میں کہا گیا کہ جون کی شخصیت ہر قسم کے گناہ سے پاک ہے ، بے داغ کردارکی مالک ہے اور وہ انکساری ، دیانتداری اور سادگی جیسی خوبیوں سے مالا مال ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ غالب امکان اس بات کا ہے کہ جون کو اُس کی روحانی قوت اور فرشتو ں کی بشارت نے میدان عمل میں اتارا ہے اور اُس کے دل و دماغ پر جنات کے قبضے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ جون کے فوجی قیادت سنبھالنے سے پہلے والے دور میں ( جو تقریباً سو سال جاری رہا ) فرانسیسی فوج کے جرنیل بزدلی یا غیر ضروری احتیاط یا دونوں کی وجہ سے دُشمن کے خلاف دفاعی جنگ لڑنے کی حکمت عملی پر سختی سے کاربند رہے۔ جون نے مورچوں سے نکل کر دُشمن پر جارحانہ حملوں کی نئی روش اپنائی تو نتیجہ فتوحات کی شکل میں سامنے آنے لگا۔ ان میں سے کسی بھی فتح کو بڑا نہیں کہا جا سکتا مگر چھوٹی چھوٹی فتوحات ، پے درپے شکستوں سے تو بہرحال بہتر تھیں۔آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جون کے ذہن پر کتنی بڑی قیامت گزری ہوگی جب اُسے پتہ چلا کہ دقیانوس ، روایت پرست اور جامد ذہن رکھنے والے جرنیلوں نے اپنے ہر اُس اجلاس میں جون کی شرکت کو روک دیا تھا جس میں جنگی حکمت عملی پر غور و خوض کر کے اُسے آخری شکل دینا مقصود ہوتا تھا۔ جون کی بہادری اور بے خوفی کی اس سے بہتر اورکیا مثال دی جا سکتی ہے کہ جب جرنیلوں نے ایک قلعے پر حملہ کرنے اور ا س پر قبضہ کرنے کا منصوبہ ترک کرنے کا متفقہ فیصلہ کیا تو جون رات کی تاریکی میں صرف ایک فوجی افسر کے ساتھ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلی اور ایک ایسے قلعہ کو فتح کر لیا جسے اس کے جرنیل ناقابل تسخیر سمجھتے تھے۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں