ایک تہلکہ خیز کتاب

اس کالم کے پڑھنے والوں کی اکثریت نہ صرف کارل مارکس کے نام سے متعارف ہوگی بلکہ اُس کی عہد آفرین اور شاہکار تصنیف داس کیپٹیل (Das Kapital) سے بھی۔ یہ کتاب مارکس نے لندن کی شہرئہ آفاق برٹش لائبریری میں سالہا سال روزانہ صبح سے شام تک بیٹھ کر لکھی۔ وہ لائبریری میں داخل ہونے والے سب سے پہلے اور باہر جانے والے آخری آدمی ہوتے تھے۔ پہلی جلد 1867 ء میں شائع کی گئی اور تیسری جلد1894 ء میں مکمل ہوئی۔ یعنی 27 سالوں کی عرق ریزی نے ایک ایسی کتاب کو جنم دیا جس نے آنے والی صدی میں دُنیا کی تاریخ بدل دی۔ پچھلے ماہ ایک فرانسیسی ماہرمعاشیات اور یونیورسٹی پروفیسرThomas Piketty کی کتاب کا انگریزی ترجمہ شائع ہوا ۔اُس کا نام ہے ''اکیسویں صدی میں سرمایہ ‘‘۔اس کتاب نے بھی چار دانگ عالم میں دھوم مچا دی ہے۔ گزرے ہوئے مہینہ تک امریکہ میں والٹ ڈزنی کی بچوں کی شائع کردہ کہانیوں کی کتابJourney to the Ice Palace زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں سر فہرست تھی۔ آپ یقین جانیے کہ معاشیات جیسے خشک اور خواب آور مضمون پر لکھی گئی مذکورہ بالا کتاب اب امریکہ میںفروخت کے اعتبار سے ،سب سے آگے ہے۔ محض اس بات سے آپ یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ایک ملک صرف فوج یا سرمایہ کی بنیاد پر بڑی طاقت نہیں بن جاتا ،بلکہ علم ،شعور اور آگہی (جو طاقت کا سب سے بڑے ستون ہیں) کے بغیر کسی بھی قوم کا ترقی کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ 6 مئی کو لندن کے بڑے معیاری اخبار گارڈین نے Piketty کی اس کتاب کی تعریف میں اداریہ لکھا اور اپنے قارئین کو بتایا کہ مصنف نے دُنیا میں امیر ترین اور غریب ترین کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج اور اس کے تباہ کن اثرات کو ٹھوس دلائل دے کر ثابت کیا ہے۔ کتاب کے مصنف نے ارب پتی اور کھرب پتی افراد پر خصوصی ٹیکس لگانے کی تجویز دی ہے۔کارل مارکس نے برٹش لائبریری کے ایک حصہ میں ایک ہی میز کرسی کو 30 سال استعمال کیا۔ اب لائبریری کا سٹاف کسی اور شخص کو اُس کرسی پر بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ مارکس نے 1883 ء میں وفات پائی۔ اُس کی تصنیف کو اُس کے ہمدم اور ہم خیال اور قریب ترین ساتھی اینگلز(Engells) نے مکمل کیا۔ کیپٹیل کی دُوسری اور تیسری جلد کو (مارکس کی وفات کے بعد) مرتب اور شائع کرنے کا سہرا بجا طور پر Engells کے سر باندھا جاتا ہے۔ اشتراکی منشور بھی دونوں دوستوں نے مل کر لکھا۔ ہم خیالی کا کمال دیکھئے کہ یہ کتابچہ پڑھتے وقت بالکل پتہ نہیں چلتا کہ مارکس نے کیا لکھا اور اس کے دوست نے کون سی سطور کا اضافہ کیا۔ ان دونوں کی اتفاقیہ ملاقات1844 ء میں پیرس میں ہوئی اور اگلے 60 برس (مارکس کی وفات تک) دوستی کا رشتہ نہ صرف قائم رہا بلکہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔ بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ لندن میں طویل قیام کے دوران مارکس کی قلیل آمدنی کا واحد ذریعہ نیویارک کے ایک اخبارکی نامہ نگاری تھی۔مارکس کی دُنیا داری قابل تعریف ہے کہ اُس کے کالموں میں اشتراکی نظریات کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔
اینگلز کی مالی حالت بہت اچھی تھی مگر اُس کی خوشحالی اُسے محنت کش طبقہ کا بہترین ترجمان بن جانے سے نہ روک سکی اور پورے چالیس سال وہ مارکس کو مالی مدد دینے کا خوشگوار فرض ادا کرتا رہا۔ اُس کا انسانی فکر و دانش پر یہ بڑا احسان ہے کہ اُس نے مارکس کی نامکمل کتابوں کو اس طرح مکمل کیا کہ پڑھتے وقت یہ گمان تک نہیں ہوتا کہ یہ مارکس کی اپنی تحریر نہیں بلکہ اُس کے ایک ہم خیال دوست کی ہے۔ ذہنی پیوند کاری ہو تو ایسی ہو۔ دُنیا بھر کے فلسفہ ،تاریخ اور سماجیات میں اتنی زیادہ ذہنی ہم آہنگی کی اور کوئی مثال نہیں ملتی۔ اینگلز کو بخوبی علم تھا کہ اُس کے ذہنی ساتھی کارل مارکس کے دماغ میں کون سے خیالات اور نظریات نے جنم لیا ہے اور اُنہیں مارکس کے پیرایہ میں کس طرح بیان کرنا ہے۔ اینگلز نے مارکس کی مالی اور ذہنی دونوں طرح عمر بھر مدد کی اور دوستی کا حق ادا کر دیا۔
ہم اب ایک بار پھر فرانس کے 42 سالہ دانشورPiketty (نہ معلوم یہ نام فرانسیسی زبان میں کس طرح ادا کیا جاتا ہے) کی طرف لوٹ چلتے ہیں۔ اس دور میں معاشی عدم مساوات( سماجی ڈھانچہ اور معاشی استحکام کے لئے سب سے بڑا خطرہ ) کے موضوع پر اُن کی لکھی ہوئی مذکورہ بالا 577 صفحات پر مشتمل کتاب کی ایک ماہ کے اندر دو لاکھ جلدیں فروخت ہوئی ہیں اور اس تیز رفتاری میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ اس کتاب میں 30 ممالک کے اعداد و شمار کی روشنی میں سرمایہ داری کی تین سو پُرانی تاریخ کا ناقدانہ جائزہ لیا گیا ہے۔ فاضل مصنف نے نہ صرف معروف ناول نگاروں (بالزاک اور جین آسٹن) بلکہ مشہور فلم Titanic کے حوالے دینے سے گریز نہیں کیا۔ کتاب کا موضوع بڑا سادہ اور زود فہم ہے۔ عصر حاضر میں امیر طبقہ کا زیادہ تیزی سے امیر ہونے کا عمل زور پکڑ رہا ہے جب کہ آبادی کی اکثریت اپنے معیار زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے کڑی جدوجہد کر رہی ہے۔ مصنف نے سرمایہ کی منصفانہ تقسیم کے لئے چوٹی کے امیر لوگوں کی آمدنی پر 80 فیصد ٹیکس لگانے کی انقلابی تجویز دی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یورپ میں بائیں بازو کی کسی سیاسی جماعت میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ وہ اس تجویز کو اپنے منشور میں شامل کر لے۔ برطانیہ کی مثال دینا کافی ہوگا، جہاں آبادی کا غریب طبقہ قومی دولت کے صرف چار فی صد کا مالک ہے۔ آج سے سو برس پہلے برطانیہ میں آبادی کا دس فی صد امیر طبقہ قومی دولت کے نوے فیصد حصہ کا مالک تھا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ دس فی صد امیر طبقہ قومی دولت کے ستر فی صد کا مالک ہے اور باقی آبادی صرف تیس فی صد کا۔ Piketty نے خطرہ کی گھنٹی بجاتے ہوئے مغربی دُنیا کو خبردار کیا ہے کہ جوں جوں معاشی عدم مساوات بڑھتی جائے گی، سماجی اور سیاسی استحکام کو برقرار رکھنا اُتنا ہی مشکل ہوتا جائے گا۔ آیئے اب ہم اس تجزیہ کی روشنی میں اپنے ملک پر نظر دوڑائیں۔ یہی معاشی ناہمواری 1947 ء میں ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے ظہور کا باعث بنی۔ اسی معاشی ناہمواری نے 1971 ء میں پاکستان کو توڑا اور اب اسی تاریخی کلیے کا اطلاق ہماری مغربی سرحدوں پر طالبان اور بلوچستان میں ہونے والی مسلح جدوجہد پر ہوتا ہے جو ہمارے لئے سب سے بڑا عذاب بن گیا ہے۔مسائل کی سنگینی سے آنکھیں بند کر کے ہم سرطان جیسے مہلک مرض کا علاج اسپرین سے کرنے کے جتن میںمصروف ہیں اور اتنے خوش اُمید ہیں کہ معجزوں کی توقع رکھتے ہیں۔ 
آیئے اب ہم کارل مارکس کے ذہنی جانشین Piketty کے تذکروں کے بعد کارل مارکس کی چہیتی بیٹی الینار (Eleanor ) کی طرف چلیں، جو صرف 43 سال کی عمر میں 31 مارچ1898 ء (اپنے عظیم باپ کی وفات سے 15 سال بعد) کو لندن میں اپنے گھر میں مردہ پائی گئی۔ آنکھیںکھلی ہوئی اور جلد کا رنگ (یقینا زہر خورانی کی وجہ سے) عُنابی(Purplish)۔ وفات سے کچھ وقت قبل مقامی دواخانہ سے اس خاتون کے ملازم نے کلورو فارم اور ایک تیزابی مواد خریدا۔ خریدار نے اپنے نام کی بجائے (دُکان کو بھیجی جانے والی پرچی پر) صرف AE لکھا۔ یہ خاتون شادی کئے بغیر بطور بیوی جس شخص کے ساتھ رہتی تھی اُس کا پورا نام Edward Aveline تھا۔ AE) اس کے نام کا مخفف تھا)۔یہ بدبخت جو نہ صرف دوسری خواتین کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کے فن کا ماہر تھا بلکہ اس نے اپنی رفیقہ کو بالکل لاعلم رکھتے ہوئے ایک نوجوان اداکارہ سے انہی دنوں میںشادی بھی کر لی تھی۔ وکٹورین عہد میں الینارکی وفات نے ایک بہت بڑے سیکنڈل کی شکل میں لندن کو ہلا کر رکھ دیا۔ کیا اُسے قتل کیا گیا تھایا اُس نے خود کشی کی؟ یہ سوال جواب طلب رہا 
وفات پا جانے والی خاتون کی ساری رقم اُس کے رفیق نے ہڑپ کر لی۔ یہ وہ دور تھا جب یورپ میں خواتین صرف گھر گرہستی میں اپنی ساری زندگی گزار دیتی تھیں۔ (IBSEN کے مشہور ڈرامہ 'A Doll's House ‘کے کردارNora کی طرح)۔ اس خاتون نے اپنے جلیل القدر والد کے اشتراکی خیالات کے پرچار کے لئے دن رات کام کیا۔ وہ معلمہ بھی تھیں اور مزدوروں کو شیکسپیئر پڑھانے کے ساتھ ساتھ اُنہیں ہڑتالوں پر بھی ساری عمر اُکساتی رہیں۔ نہ صرف کتابوں کا ترجمہ کیا (جن میں فرانسیسی زبان کے شاہکار ناول مادام بواری کا پہلا انگریزی ترجمہ بھی شامل تھا۔)بلکہ کتابیں بھی لکھیں۔حال ہی میں اُس صاحب کمال خاتون کی زندگی پر ایک دلچسپ کتاب شائع ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ کتنی خوبیوں کی مالک تھیں۔ وہ گھریلو فرنیچر سے لے کر فرش مرمت کرنے تک کا ہنر جانتی تھیں۔ تمباکو نوشی اُن کی اتنی بڑی کمزوری تھی کہ لگتا تھا کہ کوئی چمنی دھواں اُگل رہی ہو۔ لباس کے معاملہ میں بھی اُنہوں نے اُس دور کے رواج کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پائوں تک لمبے سکرٹ کے نیچے Corset کو بطور زیر جامہ کبھی نہ پہنا۔ (بڑے سخت کپڑے سے بنے ہوئے اس زیر جامہ کا مقصد سکرٹ کے پھیلائو کو بڑا کرنا اور خواتین کی کمر کو سیکڑ کر چھوٹا کرنا ہوتا تھا)۔ مارکس کے خاندان میں گھریلو نام رکھنے کا رواج تھا۔ الینار کی دو بڑی بہنوں کے نام Jenny اور Lavra تھے جو اُس سے عمر میں دس سال بڑی تھیں۔ چھوٹی بہن الینار کوگھر میں ہمیشہ Tussy کے نام سے پکارا جاتا تھا اور وہ ساری عمر اس نام سے جانی جاتی تھیں، (جبکہ اُن کے والد کو گھر میںMohr کے نام سے)۔ اُن کی اولین یادداشت یہ تھی کہ کہ وہ اپنے عظیم باپ (کارل مارکس) کے کندھوں پر سوار ہو کر اپنے گھر کے باغ میں سیر کرتی تھیں۔ بیٹی نے اپنی یادیں مرتب کیں تو لکھا کہ اُنہوں نے سواری کے لئے باپ کے کندھوں سے بہتر کوئی اور گھوڑا نہیں دیکھا۔ اُس نے آٹھ سال کی عمر میں جو خط لکھے وہ اُس کے سیاسی شعور کی گواہی دیتے ہیں۔ ایک خط میں اُس نے پولینڈ کے لوگوں کی بہادری کی تعریف کی اور اُس دور کے مشہور فرانسیسی اشتراکی راہنما Avgrst Blague کو اپنا بہترین دوست قرار دیا۔ اپنی دونوں بڑی بہنوں کے برعکس (جن کی زندگی سو فیصدی ازدواجی سرگرمیوں تک محدود تھی، یعنی شوہر اور بچے اُن کی زندگی کا محور اور مرکز تھے) Tussy رُسوم و قیود سے آزاد تھی۔ 1898 ء میں لندن کی آبی گزرگاہوں پر سامان اُتارنے چڑھانے والے مزدوروں نے بہتر اُجرتوں کے مطالبہ کے لئے ہڑتال کی تو اس خاتون کو ہائیڈ پارک میں ایک لاکھ مزدوروں کے اجتماع سے خطاب کرنے کا اعزاز ملا۔ غیر رواجی ہونے کی وجہ سے شادی کے بندھن کو بھی قبول نہ کیا۔ زندگی کے بہترین چودہ برس ایک خودغرض، بدقماش، بدکردار اور بے وفا شخص کے ساتھ گزارے جس میں خوشی ناپید تھی اور دُکھ بے شمار۔ اس خاتون کا نام بجا طور پر تحریک آزادی نسواں کے اوّلین قائدین میں لکھا جا سکتا ہے۔ کارل مارکس کی وصیت کے مطابق اُن کی بیوی اور تینوں بیٹیوں کو بھی لندن کے Highgate قبرستان میں یکے کے بعد دیگرے اُن کی قبر میں دفن کیا گیا۔ میں 1967 ء کے جون کے مہینہ میں پہلی بار لندن آیا تو قبل دوپہر دفتری کام مکمل کر کے لوگوں سے راستہ پوچھتا بھاگم بھاگ مذکورہ بالا قبرستان گیا تاکہ کارل مارکس کی قبر کی زیارت کر سکوں۔ بڑی دیراحتراماً سرجھکائے کھڑا رہا۔ ذہن میں مارکس کی لکھی ہوئی انقلابی تحریروں کی فلم چل رہی تھی۔ قبر کے کتبہ پر لکھا تھا۔ ''فلاسفروں اور دانشوروں نے حالات دُنیا کی کئی طرح تشریح اور تفسیر کی ہے مگر اصل کام حالات پر تبصرہ کرنا نہیں بلکہ اُنہیں بدلنا ہے۔‘‘ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں