پاکستان کی کمزور معیشت اور بھارتی الیکشن

برطانیہ میں صرف معاشی اور کاروباری موضوعات پر نہ صرف ماہ نامے اور ہفت روزہ (مثلاً اکانومسٹ) بلکہ روزنامے (مثلا ً فنانشل ٹائمز) بھی شائع ہوتے ہیں۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اگر آپ کے اس کالم نگارکوکسی بھی جریدے میں صرف پاکستان کا لفظ ہی نظر آجائے تو وہ اسے کتنی دلچسپی سے پڑھے گا اور پھر فیصلہ کرے گا کہ کیا اُس خبر میں اپنے قارئین کو بھی حصہ دار بنایا جائے یا نہیں؟ آپ سب جانتے ہیں کہ مہنگائی کی تین بنیادی وجوہ ہوتی ہیں۔۔۔۔ رسدکی کمی، طلب میں اضافہ اور افراط زَر ۔ اگر بازار میں صرف ایک سیب ہو اور خریداروں کی جیب میں ایک روپیہ ہو تو سیب کی قیمت ایک روپیہ مقرر ہو جائے گی۔ اگر آپ کی جیب میں روپوںکی تعداد دُگنی ہو جائے اور سیب ایک ہی رہے تو اس کی قیمت خود بخود دو روپے ہو جائے گی۔ ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے ہماری تمام حکومتیں قومی بجٹ کے مستقل خسارے کا علاج تین طریقوں سے کرتی آئی ہیں ۔۔۔۔غیر ملکی قرضے لے کر، ملک کے اندر سے قرضے لے کر یا پھر نوٹ چھاپ کر۔ 
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی ، ڈاکٹر شاہدکار دار اور محمد یعقوب (سابق گورنر سٹیٹ بینک) برسوں سے فریادکر رہے ہیں کہ ہم قرض لیں نہ نوٹ چھاپیں تاکہ افراط زرکے موذی مرض کے شکار نہ ہوں۔ گزشتہ مہینے سٹیٹ بینک نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ موجودہ حکومت نے ایک ماہ میں بیسیوں ارب روپے قرض لیا جبکہ اس کا ہدف صرف دس ارب روپے قرض لینے کا تھا۔ برطانوی اخباروں نے تو صرف سٹیٹ بینک کی رپورٹ کا حوالہ دینے پر اکتفا کیا، یہ کام ان کا نہیں کہ وہ پاکستانیوں کو یہ بھی یاد کرائیں کہ حکو مت جو قرض لیتی ہے اُس پرسُود ( اسلامی شریعت میں حرام ) بھی ادا کرنا ہوتاہے ۔ کتنا سُود؟ اس کی کب اورکیسے ادائیگی ہوگی ؟ غالباً مزید قرض لے کر! یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ قرض لی گئی رقم کن منصوبوں پر خرچ ہوگی۔
میاں نوازشریف کی دوسری حکومت کے آغاز پر'' قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ کا جو نعرہ بلند کیا گیا تھا وہ چھ ہزار میل کے فاصلے پر مقیم اس عمر رسیدہ کالم نگارکے کانوں تک بھی آپہنچا تھا۔ مڑ کر دیکھتا ہوںتو پتہ چلتا ہے کہ قرض اُترا نہ ملک سنورا۔ جنوبی ایشیا اور مشرق بعید کے ممالک کو دیکھیے۔ وسائل کے اعتبار سے ہمارے مقابلے میں بہت پیچھے اور ہر لحاظ سے پسماندہ تھے مگر دیکھتے ہی دیکھتے ہم سے کہیں آگے نکل گئے ؎
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
مذکورہ بالا خبر کسی رائے یا تاثر پر مبنی نہیں۔ یہ ایک ٹھوس اور بے حد پریشان کن حقیقت بیان کرتی ہے۔ وہ حکومت جس کا بال بال پہلے ہی قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ ماہ اپریل میں اربوں روپے کا مزید قرض لیتی ہے ۔۔۔۔ چہ دلاوراست دزدے کہ بکف چراغ دارد (چور اتنا نڈر ہے کہ چوری کرنے نکلا تو ہاتھ پر چراغ رکھ کر) مگراس پر قومی اسمبلی اور میڈیا میں خاطر خواہ تشویش دیکھنے میں نہیں آئی ۔ یہ منظر بالکل ایسا ہی ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے گھرکا ایک فرد کینسرکا مریض ہواور ڈاکٹر اُس کی جان بچانے کی کوشش کرنے کے بجائے اپنی توجہ اس بات پر مرکوزکر دیں کہ مریض کی قمیض کا تیسرا بٹن کیسے ٹوٹا؟ اور نیا بٹن لگے تو کیونکر؟ اس صورت حال میں جائیں تو کہاں جائیں؟ 
ہندوستان میں عام انتخابات سے ایک مہینہ پہلے تک ہمار میڈیا بالعموم بھارتی جمہوریت کے گن گاتا رہا، لیکن جونہی الیکشن کا نتیجہ سامنے آیا، تعریف فوراً مذمت میں بدل گئی۔ نریندر مودی دائیں بازوکا فاشسٹ لیڈر ہے جس کی ذہنی تربیت اُس وقت ہوئی جب وہ راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس ) کا رُکن رہا اورطویل عرصہ رہا ۔ پاکستان میں یہ بحث زور شور سے جاری ہے کہ آیا طالبان ہماری سیاست کے قومی دھارے کا حصہ بن سکتے ہیں یا نہیں؟ مشرقی سرحد کے اُس پار دیکھیں تو وہاں بنیاد پرست ہندوئوںکا ترجمان وزیراعظم بن گیا۔ بھارتی آبادی کی اکثریت نے سیکولرنظریے کو خیر باد کہہ دیا جس کے نتیجے میں ایک ہندو بنیاد پرست برسر اقتدار آگیا ۔ تاریخ کا جبر ملاحظہ کیجیے ، دہلی میں جواہر لال نہرو کی کرسی پر مودی بیٹھ گیا۔ پاکستان میں بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوا۔ قائداعظم کی کرسی پر کیسے کیسے لوگ براجمان ہوتے رہے ۔ 18 مئی 2014 ء کا دن اس لئے تاریخ میں یادرکھا جائے گاکہ اس دن بھارت میں برطانوی راج کے بچے کھچے ورثے (سیکولرازم) کا خاتمہ ہوگیا ۔ کانگریس کی حکومت دراصل ایک طرح سے برطانوی راج کا تسلسل تھا۔ وہ نسل جو 1947ء میں یا اس کے لگ بھگ پیدا ہوئی وہ اب بوڑھی ہوچکی ہے بلکہ صرف بوڑھی نہیں ناکام بھی۔ سرحدکی دونوں جانب عوام کی اکثریت آج بھی آزادی کے حقیقی ثمرات سے محروم ہے۔۔۔۔ تمام لوگوں کو علاج، تعلیم اور روزگار دستیاب ہے نہ خوشحالی کی کوئی رمق۔ سیاست میں کبھی خلا نہیں رہتا، کانگریس ناکام ہوئی تو اُس کی جگہ بھارتی جنتا پارٹی نے لے لی۔ پاکستان میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی بار بار ناکام ہوئیں تو اُن کی جگہ فوجی آمریت لیتی رہی لیکن وہ بھی برُی طرح ناکام رہی۔ یہی وجہ ہے کہ وطن عزیزکے شمال مغربی اُفق پر طالبان کی اور بلوچستان میں آزادی پسندوںکی مسلح مزاحمت کی بجلیاں چمک رہی ہیں اور وہ ہمارے بچے کھچے خیر من کو جلا کر راکھ کر دینے کے لیے پر تول رہی ہیں۔ایسے میں قوم کو چاہیے کہ وہ اپنی مسلح افواج کے وقار پر کوئی حرف نہ آنے دے۔
بھارت میں جس کا تعلق بالائی متوسط اور انگریزی بولنے والے طبقے سے تھا‘ اسے اقتدار سے محروم کردیا گیا۔ ہندوستان کے لوگ اندھے نہیں ہیں کہ انہیں مودی کے ہاتھوں پر بے گناہ مسلمانوں کے خون کے دھبے نظرنہ آئیں، وہ جانتے ہیں کہ مودی میں کون کون سی بڑی خامیاں ہیں مگر یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی اُنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اُنہیں تاریخ کے اس مرحلے پر ایک مضبوط لیڈر (عرف عام میں مرد آہن) کی ضرورت ہے جو اُن کے ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے بچا سکے۔ مودی کم پڑھا لکھا سہی مگر سیاسی سوجھ بوجھ بہت رکھتا ہے اور غالباً باقی سیاسی لیڈروں سے زیادہ رکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا بڑا کارنامہ ہے لیکن الیکشن میں کئے گئے وعدوں کو پوراکرنا اورکروڑوں عوام کی توقعات پر پورا اُترنا اس سے زیادہ مشکل کام ہے۔
پڑوس میں اتنی بڑی تبدیلی آجانے کے بعد پاکستان کو اپنی صفیں درست کرنا پڑیں گی۔انتشارکی جگہ اتحاد، مخاصمت کی جگہ مفاہمت! اور سب سے بڑھ کر اتحاد‘ ایمان‘ نظم ونسق جو میرا نہیں حضرت قائداعظمؒ کا فرمان ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں