تمنا مختصر سی ہے مگر تمہید طولانی

شروع ابوالاثر حفیظ جالندھری کے ایک مصرع سے کرتے ہیں ؎
تمنا مختصر سی ہے مگر تمہید طولانی
اس غزل کے باقی اشعار میں مجھے نہ تمنا نظر آئی اور نہ تمہید۔ مگر میری تمنا اور تمہید دونوں مختصر ہیں۔ تمنا یہ ہے کہ میرے تصنع اور بناوٹ کے بغیر صدق دل اور خلوص نیت سے لکھے ہوئے کالم میرے قارئین کی دلچسپی کا باعث بنے رہیں۔ اُن کے علم میں اضافہ کریں۔ اُن کے شعور کی سطح کو بلند کریں اور میرے ساتھ اُن کی ہم کلامی کا سلسلہ یونہی چلتا رہے۔ اب آئیے تمہید کی طرف۔ روزنامہ 'دُنیا‘ میں میرے پہلے کالم کی اشاعت کو آج پورا ایک سال ہو گیا ہے۔ اس لحاظ سے آج میرے کالم کی پہلی سالگرہ ہے۔ میں اپنے پیارے قارئین (جن سے میں دُکھ سکھ کی باتیں بلاتکلف اور بلا کم و کاست کرتا ہوں) کو بھی اس خوشی میں شریک کرتا ہوں۔
ہر اس شخص‘ جو میری طرح فلسطینی عوام کا ہمدرد اور خیر خواہ ہونے اور اُن کے حق خود ارادیت کی حمایت کرنے کی وجہ سے اسرائیل کا مخالف ہے‘ کو دیانتداری سے جائزہ لینا چاہیے کہ اسرائیل کون سی خوبیوں کا مالک ہے۔ اگر آپ انصاف پسند اور حق گو ہوں تو آپ کو دوست کی خامیاں اور دشمن کی خوبیاں نظر آنی چاہئیں۔ ماضی قریب میں اسرائیل کی ہائی کورٹ نے سابق اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ کو مالی بدعنوانی کے جرم میں چھ سال قید کی سزا دی اور حکم جاری کیا کہ جب تک سپریم کورٹ میں اپیل کی سماعت نہیں ہوتی اُس وقت تک مجرم کی ضمانت نہیں ہو سکتی اور وہ جیل میں رہ کر اپنی اپیل کی پیروی کرے گا۔ اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین کی جتنی خلاف ورزیاں کی ہیں‘ اُن کی تعداد گنوانا مشکل ہوگا‘ مگر داخلی طور پر اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہے۔ آئے دن اسرائیلی عدالتیں اپنی فوج کے سپاہیوں کو نہتے فلسطینی بچوں (جو صرف غلیل سے مسلح ہوتے ہیں) پر گولی چلا کر اُنہیں ہلاک کرنے کے جرم میں سزا دیتی ہیں۔ آپ کو غالباً اعتبار نہ آئے کہ اسرائیل کی کمیونسٹ پارٹی اس ملک کے وجود کی نفی کرتے ہوئے اسرائیلی ریاست کو خلافِ قانون قرار دیتی ہے اور کھلم کھلا مطالبہ کرتی ہے کہ اسرائیل کا وجود ختم کر کے اسے فلسطینی ریاست کا حصہ بنا دینا چاہیے۔ نہ صرف یہ پارٹی ہر الیکشن میں حصہ لیتی ہے بلکہ متناسب نمائندگی کے طفیل ہر بار پارلیمنٹ (Knesset) میں کم از کم ایک نشست ضرور حاصل کر لیتی ہے۔ مصر میں جمال عبدالناصر کا جانشین اور حسنی مبارک کا پیش رو انور سادات اسرائیل سے صلح کا معاہدہ کرنے کے بعد وہاں کی پارلیمنٹ سے خطاب کرنے گیا‘ تو واحد کمیونسٹ رُکن نے اُس کی تقریر کے دوران اتنی بار اور اتنے زور و شور سے مداخلت کی کہ انہیں کہنا پڑا: 'عرب اسرائیل امن معاہدہ کی اتنی شدت سے مخالفت خود ان کی اپنی پارلیمنٹ کے کسی رُکن نہیں کی‘۔ 
ہم دُور کی کوڑی کیوں لائیں۔ آئیے اپنی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر ہونے والے بڑے سیاسی واقعات اور اُن سے پیدا ہونے والے زلزلوں کا ایک بار پھر جائزہ لیں۔ مودی کی کامیابی دائیں بازو کی بنیاد پرست اور فرقہ پرست تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ (جس کی بھارت میں 45 ہزار مقامی شاخیں ہیں) کی مرہونِ منت ہے‘ دُوسری طرف کانگریسی دور حکومت کے دوران اربوں روپوں کی کرپشن کے سیکنڈل اور موروثی قیادت سے عوام کی بیزاری دس سال تک حکمران رہنے والی اس پارٹی کو لے ڈوبی۔ جواہر لال نہرو نے وزیر اعظم بننے سے دس سال پہلے لکھا تھا: ''ہندوستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ نہرو آنے والے دنوں میں سیزر (Caesar) جو رومی سلطنت میں آمر مطلق کا لقب ہوتا تھا‘ نہ بن جائے۔ بھارت کو خدمت گزار اور عوام کے سامنے جواب دہ رہنمائوں کی ضرورت ہے۔ Caesar کی طرح کسی بھی آمر مطلق کی نہیں‘ چاہے وہ کتنی ہی خوبیوں کا مالک ہو‘‘۔
لڑکپن میں ریلوے اسٹیشن کے ایک ٹی سٹال پر مسافروں کو چائے پلانے والے نے ایک ایسے شہزادے اور سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والے کو بھارت کی تاریخ میں بدترین شکست دی‘ جس کا باپ دادا اور پڑدادا (یعنی تین پشتیں) وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر متمکن رہ چکے تھے۔ اس موقع پر مجھے اقبال کا ایک مصرع یاد آتا ہے۔ ؎
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
حالیہ بھارتی انتخابات کے بارے میں کئی چونکا دینے والے حقائق سامنے آئے ہیں‘ جو میں اپنے قارئین کو بتانا چاہتا ہوں۔ اُتر پردیش کے وہ حلقے جہاں مسلمانوں کی آبادی دس فی صد سے زیادہ ہے‘ وہاں مودی کی پارٹی نے 21 نشستیں جیت لیں۔ (میرا اندازہ بالکل غلط نکلا۔ میر اندازہ تھا کہ وہاں سے جنتا پارٹی کو ایک بھی نشست نہیں ملے گی) میں ابھی اس صدمہ سے نہ سنبھلا تھا کہ خبر آئی‘ راجستھان میں مسلمانوں کی سیاسی جہالت اور حماقت انہیں مودی کی خباثت سے آنکھیں بند کر لینے سے نہ روک سکی۔ وہاں مودی نے مسلمانوں کے تیس فی صد ووٹ لیے۔ المیہ یہ ہے کہ 1947ء سے لے کر اب تک بھارتی مسلمانوں کی اکثریت کانگریس کا دُم چھلہ بنی رہی اور اسے کمیونسٹ پارٹی (جو سیکولر‘ غیر فرقہ پرست‘ عوام دوست اور ترقی پسند ہے) میں جوق در جوق شامل ہونے اور اُس کی بھرپور حمایت کا دانشمندانہ فیصلہ کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کی ترجمانی کا کام ایسے لوگ کرتے ہیں‘ جن کی سیاسی سوجھ بوجھ کے مکمل فقدان‘ بے اُصولی کا یہ عالم ہے کہ بھارت میں ہونے والے ہر الیکشن میں دقت دہ کانگریسی کی حمایت کا اعلان جاری کرتے ہیں اور مسلمانوںکو یہ قیمتی مشورہ دیتے ہیں کہ وہ کانگریس کو ووٹ دیں تاکہ اُن کی آخرت نہیں تو کم از کم دُنیا ہی سنور جائے۔ بھارتی مسلمانوں کی تائید حاصل ہوتی تو عام آدمی پارٹی صرف چار نشستوں پر کامیابی کی ذلت سے دوچار نہ ہوتی۔ اب ہم بھارتی مسلمانوں کے سیاسی شعور کا تقابل دُوسری ریاستوں (صوبوں) میں رہنے والوں عوام سے کرتے ہیں۔ مغربی بنگال میں لوک سبھا کی 42 نشستوں میں جنتا پارٹی کو صرف دو نشستیں ملیں اور وہ بھی بمشکل (صرف ایک دو ہزار ووٹوں کے فرق سے)۔ جنوبی بھارت میں کیا ہوا؟ مودی کی پارٹی کو تلنگانہ (آندھرا پردیش سے حال ہی میں علیحدہ کی جانے والی نئی ریاست) کی سترہ نشستوں میں سے صرف دو‘ تامل ناڈو (سابق مدراس) کی 39 نشستوں میں سے بھی صرف دو‘ اُڑیسہ (نیا نام Odisha) کی 21 نشستوں میں سے ایک اور کیرالا کی 20 نشستوں میں سے کوئی بھی سیٹ نہیں ملی۔ اس کا مطلب ہے کہ بھارت کے مشرق اور جنوب کی 139 نشستوں میں سے صرف سات۔ مانی پورہ اور تری پورہ کی ریاستوں میں سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو ایک بھی نشست نہ ملی۔ سارے ملک میں اس پارٹی کو کل ووٹوں کا 31 فیصد ملا۔ یاد رہے کہ 1977ء میں کانگریس مخالف جنتا دل نے مودی کی نسبت زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں۔ مودی کی پارٹی کے کامیاب ہونے والے کئی لوگوں کے خلاف سنگین فوجداری مقدمات درج ہیں۔ کرپشن اور قتل سے لے کر زنا بالجبر تک۔ جن ارب پتی لوگوں نے مودی کے انتخابات میں بھاری سرمایہ کاری کی‘ اب وہ اس کا صلہ اور معاوضـہ طلب کریں گے۔ مودی کو بہت جلد پتہ چل جائے گا کہ شیر پر سوار ہو جانا بھی آسان نہیں مگر اُس کی پیٹھ سے اُترنا اور زیادہ مشکل ہوتا ہے۔
بھارت کی معیشت (جی ڈی پی) میں سالانہ اضافہ کی شرح اس وقت صرف پانچ فی صد ہے (پاکستان کی تقریباً چار فی صد ہے) بھارتی عوام نے مودی کو اس اُمید پر ووٹ دیے کہ وہ اچھی حکمرانی اور سرمایہ داری کے امتزاج سے قومی پیداوار کے سالانہ اضافہ کو پانچ سے دس فیصد کر دیں گے۔ میرے قارئین میری اس کمزوری سے بخوبی واقف ہیں کہ میں دُنیا کے کسی بھی حصہ کا جائزہ لوں‘ نظر ادھر اُدھر گھوم کر وطن عزیز کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ وہ بدنصیب ملک جس کے اربوں ڈالر (اور وہ بھی چوری کے) بیرونی ملکوں کے بینکوں میں پڑے ہیں۔ جو کرکٹ کنٹرول بورڈ کا سربراہ ہر سال چار پانچ بار تبدیل کر کے ساری دُنیا کے لیے تفریح کا سامان پیدا کرتا ہے۔ ہماری حکومت نے سٹاک مارکیٹ پر بڑھوتی ٹیکس عائد نہ کر کے قومی خزانے کو ایک سال میں بارہ ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔ فارسی کے ایک شعر کے مطابق جب سارا جسم جل جائے تو ہم روئی کہاں کہاں رکھیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں