یورپ میں انتخابات اور چند اہم خبریں

آج کے کالم کو یورپی پارلیمنٹ کے حال ہی میں ہونے والے انتخابات سے شروع کرتے ہیں۔ جس طرح پڑوسی ملک بھارت میں کانگریس کی بے حساب نالائقی اور بدعنوانیوں کی وجہ سے جنتا پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی، بالکل اُسی طرح برطانیہ میں قدامت پسند (Conservative) پارٹی ، لیبر پارٹی اور لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی کے عوام سے دُور ہو جانے اور اُمنگوں کی ترجمانی کرنے میں ناکامی کا یہ نتیجہ نکلا کہ دائیں بازو کی ایک نیم فاشی جماعت UKIP (United Kingdom Independent Party ) نے ساری بڑی اور پرانی جماعتوں کو شکست دے کر یورپین پارلیمنٹ کی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔ آپ سمجھ لیں کہ UKIP برطانیہ کی بھارتیہ جنتا پارٹی ہے۔ رود بار انگلستان کی دُوسری جانب سب یورپی ممالک میں بھی کم و بیش یہی ہوا۔ ماسوائے یونان کے جہاں بائیں بازو کی پارٹی نے پہلی بار اتنی بڑی کامیابی حاصل کی۔ جس طرح حبس پیدا ہو جائے تو قانون قدرت کے مطابق آندھی کا آنا یقینی ہو جاتا ہے، اسی طرح اگر ایک ملک میں سیاسی خلا پیدا ہو جائے تو اُسے کوئی اور طاقت پرُ کرتی ہے۔ چاہے وہ فوج ہو یا کوئی اور اُبھرتی ہوئی سیاسی قوت یا جس طرح پرانے زمانوں میںخارجی جارحیت (جس طرح ہندوستان میں ایک ہزار سال تک ہوتا رہا)۔ پاکستان میں سیاسی قوتوں کی مجرمانہ غفلت اور عوام سے لاتعلقی (بلکہ عوام دشمنی)، امریکی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے کی روش ، انتخابات میں دھاندلی اور گورنر راج کے بار بار نفاذ، عدلیہ کی طرف سے انتظامیہ کی تابعداری اور سول سوسائٹی کی نوزائیدگی اور کمزوری کے باعث ہمارے قومی وجود کو ایک مسلسل عذاب سہنا پڑا ۔نتیجہ یہ کہ1971 ء میں ہمارا پیارا ملک ٹوٹ گیا، ستر کی دہائی تک مسلم لیگ ایک مردہ یا نیم مردہ جماعت تھی۔ ضیاء الحق کی فوجی آمریت نے اس کے تن مردہ میں جان ڈال دی (چونکہ اس وقت پیپلز پارٹی زیر عتاب تھی) ۔صرف یہی نہیں کراچی میں ایم کیوایم کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت بنائی گئی ۔ نئی صدی شروع ہوئی تو سیاسی اُفق پر تین واقعات رُونما ہوئے۔ ایک طرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ پر عوام کے عدم اعتماد اور بددلی نے تحریک انصاف کو جنم دیا،دُوسری طرف پاکستان کی شمالی اورمغربی سرحدوں پر تحریک طالبان اُبھری اور بلوچستان میں آزادی کی مسلح مزاحمتی تحریک نے زور پکڑا۔
ستارہویں صدی میں مغلیہ سلطنت پر زوال آیا اور اُس کے اقتدار کی طنابیں اُکھڑنے لگیں تو جنوب میں مرہٹہ، مشرق میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی اور مغرب میں سکھوں کی حکومتیں معرض وجود میں آگئیں۔ جو لوگ اب مسند اقتدار پر بیٹھے ہیں اُنہیں لمحہ بھر کی فرصت ملے تو سوچیں کہ کون سا تاریخی عمل اُنہیں تخت و تاج تک کھینچ کر لے آیا ہے؟ تاریخ کی جو بے رحم آندھی اُنہیں اُڑا کریہاں تک لے آئی ہے ،وہ اُنہیں اُڑا کر خس و خاشاک کی طرح تاریخ کے کوڑے دان میں بھی پھینک سکتی ہے۔ یہ مقام عبرت اور لمحہ فکریہ ہے۔ چھ ہزار میل کے فاصلے سے وطن عزیز کو دیکھنے والوں کو لگتا ہے (اور یہ دیکھ کر دل شدید تشویش اور رنج و غم میں ڈوب جاتا ہے) کہ وہاں خانہ جنگی کا سماں ہے اور خانہ جنگی کا ہمیشہ بھیانک انجام ہوتا ہے، مذہبی رہنمائوں کے ہاتھوں میں ایک دُوسرے کے گریبان ہیں اور اداروں کا تصادم روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ نہ تعلیم ،نہ علاج، نہ انصاف، نہ بجلی، نہ گیس ، نہ صاف پانی، نہ روزگار، نہ امن و امان، نہ سکون اور اطمینان (جو یورپ میں زندگی کے اوّلین لوازمات ہیں) ۔شہر کراچی کو خون کا سیلاب لے گیا مگر ہماری آنکھیں کھلنے کا نام نہیں لیتیں۔ ع
نے ہاتھ باگ پر ہے ، نہ پاہے رکاب میں
ایک بار پھر وُہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔ بات شروع کرتا ہوں لندن، پیرس اور ایتھنز سے مگر ہمیشہ کی طرح تان کراچی (جو ہمارے داغ داغ جسم کا سب سے بڑا رستا ہوا ناسُور ہے) پر ٹوٹتی ہے۔ آیئے ہمت کر کے برطانیہ واپس چلیں۔ہم مختصراً وہاں کی اہم خبروں پر اُچٹتی نظر ڈالیںگے۔ آپ برطانیہ کے طول و عرض میں مساجد میں نماز پڑھنے والوں کی حیرت اور صدمہ کا اندازہ کریں، جب اُنہوں نے دیکھا کہ فوجی لباس پہنے ہوئے انگریز نوجوان جوتوں سمیت جائے نمازوں پر چلتے ہوئے اُن کی طرف جارحانہ انداز میں بڑھ رہے ہیں اور اُنہیںزبردستی انجیل مقدس دیتے ہوئے یہ ''دوستانہ ‘‘ مشورہ دے رہے ہیں کہ اگر آپ جہنم کی آگ میں جلنا نہیں چاہتے تو پھر انجیل پڑھیں اور عیسائیت کی طرف رُجوع کریں اور (نعوذ باللہ) اپنے مذہب سے تائب ہو جائیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ برطانوی معاشرہ کی بڑی اکثریت نے اس بے حد نازیبا اور دل دُکھانے والی حرکت کی سخت مذمت کی ہے۔ نمازیوں نے بھی صبر و تحمل کامظاہرہ کیا کہ یہاں کی پولیس کو سب سے بڑا اندیشہ نقص اِمن کا ہوتا ہے۔ برطانوی Queen'sقانون کی زبان میں امن و امان کو Queans Peace کہتے ہیں اور اس کو تہس نہس کرنا سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے۔
جہاں تک مذہبی انتہاپسندی کا تعلق ہے ،اس میدان میں انگریز چاہے جتنے بھی جتن کر لیں ،مسلمانوں (اور وہ بھی پاکستانی ) کا ہر گز مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اِن دنوں یوٹیوب پر نظر آنے والی ایک ویڈیو فلم میں برطانیہ میں پیدا اور جوان ہونے والے نوجوان کا انٹرویو نظر آتا ہے۔اصل نام تو نہ جانے کیا ہوگا مگر اس نے اپنا تعارف ابو المقبس الباکستانی کے نام سے کرایا۔ وہ برطانیہ کی آرام دہ زندگی اور ایک اچھی آمدنی دینے والی ملازمت چھوڑ کر شام کی جنگ میں بطور رضا کار حصہ لے رہا ہے۔ اُس نے یہ انکشاف بھی کیا کہ وہ اکیلا نہیں بلکہ برطانیہ سے شام جا کر لڑنے والے ''مجاہدین‘‘ کی تعداد چار سو کے قریب ہے۔ برطانیہ کے سکیورٹی حکام بے حد پریشان ہیں کہ کیا یہ سینکڑوں تربیت یافتہ نوجوان برطانیہ کا وہ حال تو نہیں کریں گے جو کشمیر اور افغانستان میں کئے جانے والے جہاد سے لوٹنے والے نوجوانوں نے پاکستان کا کیا اور کر رہے ہیں۔
اب دو چھوٹی مگر دلچسپ خبریں۔ ایک شخص جو لندن میں اتنے اعلیٰ عہدہ پر فائز ہے کہ برطانوی وزیراعظم سے دُگنی تنخواہ لیتا ہے، ٹرین کا ٹکٹ خریدے بغیر آدھ گھنٹے کا سفر پورے پانچ سال کرتا رہا مگر آخر پکڑا گیا۔ محکمہ ریلوے نے اُس پر 45 ہزار پائونڈ کی مالیت کے ٹکٹ نہ خریدنے کے تحت قانونی کارروائی مکمل کر لی۔ (یہ جرم چوری کے زمرہ میں آتا ہے اور اگر چالان ہوتا تو Theft Act کے تحت)۔موصوف نے خاموشی سے جھٹ پٹ ریلوے والوں کو 45 ہزار پائونڈ دے کر معافی مانگ لی اور یہ کام اتنی راز داری سے کیا کہ برطانوی اخباری نمائندے پوری کوشش کے باوجود اس کا نام دریافت نہیں کر سکے۔ دُوسری خبر کا تعلق ہمارے ایک پنجابی بھائی گوردیال سنگھ رائے سے ہے۔ رائے صاحب نے اپنے مکان میں توسیع کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر چمگادڑوں (جن کو برطانوی قانون کے تخت مکمل تحفظ حاصل ہے) کی ایک بستی کو اس طرح تباہ و برباد کر دیا کہ اُنہیں جان بچا کر کسی اور جگہ پناہ لینی پڑی۔ شمالی انگلستان میں Chesterfied نامی قصبہ میں مجسٹریٹ عدالت (جو فوجداری مقدمات کی سیڑھی کا پہلا زینہ ہوتی ہے اور مجسٹریٹ کا عہدہ اعزازی ہوتا ہے) نے سردار گوردیال کو سخت سزا دینے کے لئے استغاثہ کی تجویز قبول کرتے ہوئے ایک انوکھا حربہ اختیار کیا اور وہ یہ تھا کہ ملزم پر جنگلی حیات کو نقصان پہنچانے کے جرم کی بجائے Proceeds of Crime Act (جرم کے ارتکاب سے دولت کمانا) کے تحت مقدمہ چلایا تاکہ اُس کی ساری رہائش (جس کا ایک حصہ چمگادڑوں کا مسکن تھا) کو بحق سرکار ضبط کیا جاسکے۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہوگا کہ بھارتی شہروں کے فٹ پاتھوں اور پاکستان میں کچی بستیوں میں رہنے والے لاکھوں انسانوں کے مقابلہ میں تو برطانوی چمگادڑوں کو زیادہ تحفظ حاصل ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں