ایک وحشت ناک واقعہ

وطن عزیز سے چھ ہزار میل کے فاصلہ پر یہ سطور (جو سیاہی کی بجائے خون اور آنسوئوں کے ساتھ لکھی جانی چاہیے تھیں) بے حد رنجیدہ دل و دماغ سے کاغذ پر 27 مئی کو منتقل کی گئیں۔مگر یہ شائع ہوں گی وسطِ جون میں، تین ہفتوں کے بعد جب مقتولہ کی قبر کی مٹی بھی خشک ہو چکی ہوگی۔ یورپ کے تقریباً ہر اخبار میں وسطی پنجاب کے ضلع جڑانوالہ کے ایک دور اُفتادہ گمنام گائوں (یاراں دی تاری) کی رہنے والی فرزانہ کے قتل کی نہ صرف خبر شائع ہوئی بلکہ اُس کی سڑک پر پڑی ہوئی خون آلودہ لاش کی تصویر بھی۔ دِل ہلا دینے والی یہ تصویر سب سے نمایاں طور پر لندن کے شام کے اخبار'ایوننگ سٹینڈرڈ‘ میں شائع ہوئی۔ شام کو شائع ہونے والے اس اخبار کی تعداد اشاعت لاکھوں میں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اخبار مفت تقسیم ہوتا ہے۔ دفتری اوقات کے بعد گھر جانے والے لاکھوں مسافروں کے پاس دو چیزوں کا ہونا لازمی ہوتا ہے۔ ریلوے ٹکٹ اور شام کا مذکورہ بالا اخبار۔روزانہ سفر کرنے والے مسافر صبح کا اخبار قیمت ادا کر کے خریدتے ہیں مگر لیتے ضرور ہیں۔ ایک تو سفر کٹ جاتا ہے اور دُوسرا منہ ڈھانپنے کے کام آتا ہے تاکہ آپ سامنے یا قریب بیٹھے مسافروں کو گھور گھور کر دیکھنے کی غیر شریفانہ حرکت کے ارتکاب سے بچ جائیں ۔ جس شام فرزانہ کی بے گورو کفن لاش کی تصویر شائع ہوئی، میں نے مسافروں سے اٹا اٹ بھری ہوئی ٹرین میں دیکھا کہ جس کی نظر اُس تصویر پر پڑی، اُس کی نظریں اس پر اس طرح جم کر رہ گئیں کہ وہ نہ اگلی خبر پڑھتا تھا ، نہ دُوسری تصویر دیکھتا تھا اور نہ صفحہ اُلٹتا تھا۔ ہر ایک کی وحشت زدہ نظریں اسی تصویر پر جمی ہوئی تھیں۔ میں ڈرتا تھا کہ اگر ان لوگوں کو پتہ چل گیا کہ میرا تعلق بھی اسی ملک سے ہے، جہاں یہ خوفناک واقعہ رونما ہوا تو شاید غم و غصہ کے عالم میں وہ مجھ پر پل پڑیں یا مجھے ٹرین سے اُتار دیں۔ 
میرا فرض ہے کہ میں کالم پڑھنے والوں کو دعوت فکر دوں اور اُن کی توجہ اس طرف مبذول کرائوں کہ آج سے سو سال پہلے جب آج کے مقابلہ میں تعلیم (اور وہ بھی لڑکیوں کی) نہ ہونے کے برابر تھی، جدید تہذیب کی روشنی ابھی ہمارے شہروں تک بمشکل پہنچی تھی، سارا پنجاب قرون وِسطیٰ کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، سارے پنجاب میں (بشمول مشرقی پنجاب جو آج چار صوبوں میں بٹ چکا ہے) صرف ایک یونیورسٹی تھی جن میں پڑھنے والوں کی تعداد پڑھانے والوں سے بمشکل بیس گنا زیادہ تھی، گنتی کے چند اخبار ہوتے تھے اور اُن کی تعداد اشاعت بھی پانچ دس ہزار تک محدود ہوتی تھی، ٹیلی ویژن ابھی ایجاد نہ ہوا تھا، ترکی میں سلطنت عثمانیہ کے آخری خلیفہ کی حکومت تھی۔ سو سال پہلے کا پنجاب ابھی ڈگمگاتے ہوئے قدموں سے بیسویں صدی میں داخل ہو رہا تھا۔ پھر فرزانہ کے سر عام قتل جیسا واقعہ اُن دنوں کیوں رُونما نہ ہوا؟ سو سال پہلے کی بات تو یقینا پرانی بات ہے، آپ صرف پچاس سال پہلے کے پاکستانی پنجاب پر نظر ڈالیں جب انگریز کے راج کو ختم ہوئے صرف 17 سال ہوئے تھے، (سورج غروب ہو چکا تھا مگر اُفق پر شفق باقی تھی) کیا اُس وقت بھی اس قسم کا کوئی ایک واقعہ رونما ہوا؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ تب کیوں نہیں اور اب کیوں؟ جواب دینے کے لئے افلاطون یا ارسطو ہونا ضروری نہیں۔ جو اب بالکل سیدھا سادا ہے۔ اگر ڈکٹیٹر ملک کے آئین کو بار بار پامال کریں گے۔ ایک بار نہیں بلکہ تین بار۔ پولیس خود لاقانونیت کی علامت بن جائے گی۔ سماج دُشمن عناصر کو عدالت سے سزا دلوانے کی بجائے پولیس کے جعلی مقابلوں میں مارا جائے گا ۔ مقتدر طبقہ ٹیکس نہ دے گا اور چوری کے اربوں روپوں کو بیرون ملک چھپانے میں کامیاب رہے گا۔جیلیں صرف غریب لوگوں سے آباد ہوں گی ۔ قانون کی حکمرانی ایک موہوم تصور یا تکلیف دہ مذاق بن کر رہ جائے گی ۔ طاقتور اور بااثر لوگوں کے اوباش بیٹوں کے ہاتھ غریبوں کی بیٹیوں کی عزت غیر محفوظ ہو جائے گی ۔ کراچی ایک ڈرائونا خواب بن جائے گا ۔ مجرموں کو گرفتار کرنے کی کارروائی (نام نہاد آپریشن) کے باوجود وہاں روزانہ بے گناہ افراد کے قتل ہو جانے کا سلسلہ جاری رہے گا، تو اس سیاق و سباق میں بے چاری فرزانہ کا لاہور ہائی کورٹ کے عین سامنے اور پولیس کے مسلح سپاہیوں کی موجودگی میں قتل کر دیا جانا، جتنا بھی افسوسناک ہو، باعث حیرت یا ناقابل فہم ہر گز نہیں۔
چند سال پہلے سیالکوٹ میں پولیس کی آنکھوں کے سامنے دو بھائیوں کو تشدد کر کے کھلے عام مار ڈالا گیا۔ ڈیرہ بگٹی میں بلوچ عوام کی خدمت کرنے والی ڈاکٹر شازیہ کی عصمت دری کی گئی۔جس آمر نے ایک وزیراعظم کو استغاثہ کی بے حد کمزور اور مشکوک شہادتوں کی بنیاد پر اپنی کٹھ پتلی عدالت سے موت کی سزا دلوائی وہ جب خود بہاولپور گیا تو واپس نہ آیا۔ آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ سابق وزیراعظم کا قاتل چند سال بعد خود کس طرح مقتول بن گیا؟ آگے چلیں۔ اِسی وزیراعظم کے بیٹے کو اپنے ہی گھر کے سامنے پولیس نے گولیوں سے چھلنی کر دیا (سب ملزم بری ہو چکے ہیں)۔ اس قتل کے وقت مرتضیٰ کی جو بہن وزیراعظم تھی، ایک عرصہ بعد اُسے جلسہ عام کے اختتام پر سرعام قتل کر دیا گیا۔ نہ ملزم پکڑے گئے اور نہ قتل کا مقدمہ چلا۔ایک فوجی کمانڈر انچیف اور صدر مملکت سے لے کر جہاں ذوالفقار علی بھٹو، ان کی بیٹے اور بیٹی کے قتل کا سراغ نہیں ملا اور نہ مل سکتا ہے، وہاں بے چاری فرزانہ کی کیا حیثیت ہے؟ چند دنوں کی بات ہے کہ ایک اور اسی قسم کا (یا شاید اس سے بھی زیادہ ) المناک واقعہ رونما ہو جائے گا اور ہم سب کا دھیان فرزانہ کے قتل سے ہٹ کر نئے واقعہ کی طرف ہو جائے گا۔ لگتا ہے کہ آسمان سے جو بھی نئی بلا اُترتی ہے، وہ پہلے وقتوں میں عرفی ؔ جیسے بڑے شاعر کے گھر کا پتہ پوچھتی تھی، اب وہ تیر کی طرح (پتہ پوچھے بغیر) سیدھی مملکت خداداد پاکستان کا رُخ کرتی ہے۔ 
جہالت کسی کی میراث نہیں اور نہ ہی اس پر کسی کی اجارہ داری ہے۔ جہالت کا حدود اربعہ جغرافیائی حدود کو بھی خاطرمیں نہیں لاتا۔ آپ سب نے جعلی پیروں،ڈبہ پیروں ، عاملوں، بدرُوحوں کا قلع قمع کرنے والوں ، جنات کو اپنا نوکر چاکر بنا کر رکھنے کے دعویٰ داروں، ذہنی مریضوں (خصوصاً خواتین) کے جسم سے بد رُوح نکالنے کے ماہرین اور استخارہ کر کے (بشرطیکہ معقول معاوضہ دے دیا جائے) ہر طرح کی مشکلات کا حل تجویز (بذریعہ تعویذ) کرنے والوں کے بارے میں پڑھا اور سنا ہوگا۔ 31 مئی کو برطانیہ میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ایک افریقی خاتون کو اس جرم میں دس سال قید کی سزا سنائی گئی، کہ اُس نے اپنی غیبی اور رُوحانی طاقت کے بل بوتے پر سادہ لُوح افراد سے اُن کی بیماریوں کا علاج کرنے اور دُکھوں کو دور کرنے کا وعدہ کیا تھا اور اس وعدہ کو پورا کرنے کے لئے اپنے بہت سے معتقدین سے بیس لاکھ پائونڈ (سولہ کروڑ سے زائد روپے) وُصول کر لئے تھے۔ 50 سالہ افریقی جادوگرنی کی مافوق الفطرت قوتوں پر یقین کرنے والے اس حد تک خوفزدہ تھے کہ وہ اُسے مزید رقم دینے سے انکار کی جرأت ہی نہیں کر سکتے تھے۔جب احترام، عقیدہ، خوف اور توہم پرستی مل جائیں تو دُکھی انسانوںکے مصائب گھٹ جانے کی بجائے اور بڑھ جاتے ہیں۔ اس پر لے درجہ کی بے ایمان، جھوٹی اور پیشہ ور دھوکے باز خاتون کے پیرو کاروں کے دُکھ تو ہر گز کم نہ ہوئے بلکہ عمر بھر کی جمع پونجی سے محروم ہوجانے کی وجہ سے اور بڑھ گئے مگر وہ خود بڑی عیش و عشرت کی زندگی گزارتی تھی۔ پولیس نے اُس کے گھر کی تلاشی لی تو وہاں بیش قیمت زنانہ ہینڈ بیگ اور بے حد مہنگا فرنیچر نظر آیا۔چوری کے مال سے خوب سیر سپاٹے کئے گئے اور اسے بے دریغ اُڑایا گیا۔ دُنیا بھر میں کئی قسم کے جعلی پیر پائے جاتے ہیں مگر اُن سب میں ایک قدر مشترک ضرور ہوتی ہے کہ اُن کا سب اپنا معیار زندگی اپنے مریدوں سے کہیں بلند ہوتا ہے اور اقبالؔ نے اسی حقیقت کو اس طرح بیان کیا تھا ؎
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے رُوشن

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں