افتادگانِ خاک

ہماری نئی نسل جن بڑے عذابوں سے گزر رہی ہے وہ اُنہیں مڑکر اپنے ماضی کے قابل فخر مشاہیرکی طرف دیکھنے کی اجازت نہیں دیتے ۔ بقول غالب ؎
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تونے وہ کنج ہائے گراں مایہ کیا کئے
ہمارے دُھندلے، گرد آلود بلکہ خون آلود قومی اُفق پر جو روشن ستارے طلو ع ہوئے اُن میں سے ایک تو ابھی چندہفتے پہلے غروب ہوا۔ نام تھا سردار خیر بخش مری،ہمارے سابق سفیراشرف جہانگیر قاضی کے برادرِ نسبتی۔کاش ! (ایں حرف کاش کہ بصدجانوشتہ ایم)کہ وہ پاکستان کے صدر بنائے جاتے تو اُس کرسی کا وقار اتنے بڑے شخص کے بیٹھنے سے بڑھ جاتا، مگر ہم ہیں کہ انہیں ایک ماہ یا ایک سال نہیں بلکہ سالہا سال جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں بند رکھا۔ ہم اُن پر اور اُن جیسے دُوسرے محب وطن رہنمائوں پر غداری کے جھوٹے مقدمات چلاتے ہیں اور جب دُنیا کی پانچویں بڑی مملکت کے ایوان صدارت کے لئے کسی نئے شخص کی ضرورت ہوتی ہے تو ڈھونڈ ڈھانڈ کر کسی نہ کسی چودھری فضل الٰہی یا ان جیسے کسی مٹی کے مادھوکوگرفتارکر لاتے ہیں۔ پھر کسی شوخ طبع نوجوان کو اُن کے گھرکی چار دیواری کے باہر لکھنا پڑتا ہے: ''چودھری فضل الٰہی کو رہا کرو‘‘۔
سردار خیر بخش مری تو وہاں چلے گئے جہاں ایک دن ہم سب کو جانا ہے مگر اُن کی وفات سے وہ خلا بڑھ گیا جو ماضی میں نواب اکبر بگٹی کے قتل سے پیدا ہواتھا۔ میدان سیاست سے باہر نکل کر ہم موسیقی، ثقافت، تعلیم وتدریس اور خدمت خلق کی طرف نظر دوڑائیں تو ہمیں وہاں بھی اتنے ہی درخشندہ ستارے نظرآئیں گے۔ موسیقی میں روشن آرا بیگم، امانت علی خان، نصرت فتح علی خان، صابری برادران اور مہدی حسن۔ کھیلوں میں عبدالحفیظ کاردار، عمران خان، ہاشم خان اور ہاکی کے وہ عظیم کھلاڑی جنہوں نے اولمپک مقابلوں میں سونے کا تمغہ دوبارہ جیتا (ان میں میرے رشتہ دار منظور باجوہ مرحوم بھی شامل تھے۔) ادب وشاعری میں فیض احمد فیض، حبیب جالب، مجید امجد، احمد فراز، احمد ندیم قاسمی اور شوکت صدیقی۔ سائنس دانوں میں ڈاکٹر عبدالسلام، ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ثمر مبارک مند۔ بینکنگ میں آغا حسن عابدی۔ عوام دوست سرکاری افسروں میں مسعود کھدرّ پوش۔ خدمت خلق میں اخوت کے ڈاکٹر امجد ثاقب اور عبدالستار ایدھی کے پیش رو جناب اختر حمید خان جو علامہ مشرقی کے داماد تھے اور برطانوی راج میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھنے والی آئی سی ایس کی ملازمت سے احتجاجاً مستعفی ہوئے۔ جناب اختر حمید خان نے کراچی کی کورنگی کالونی مین جو فقید المثال شاندارکارنامہ انجام دیا کہ وہ نہ صرف اُنہیں نوبل امن انعام دلوانے کے لئے کافی تھا بلکہ ہمارے تمام بدنصیب شہروں کے لئے بہترین عملی ماڈل بن کر خدا کی ہر بستی میں طرح طرح کے عذاب جھیلنے والے لاکھوں افراد کے دُکھوں کا مداوا بن سکتا تھا، مگر ہماری قومی بے حسی، مجرمانہ غفلت اور مجرموں کی سرکاری سطح پر اعانت کی وجہ سے ہر بڑے شہر میں ہر قسم کے مجرموں کے ٹولوں نے اپنے منحوس اور خونیں پنجے گاڑ دیئے ہیں۔ 
اس کالم کے قارئین کوغالباً یہ حقائق درست تسلیم کرنے میں مشکل پیش آئے گی کہ کراچی میںکچی آبادیوںکی تعداد چار ہزار سات سو ہے،ان میں رہنے والے انسانوں ، جو غیر انسانی سطح پر زندہ رہنے کا عذاب بھگت رہے ہیں کی کل تعداد دس ملین یعنی ایک کروڑ بنتی ہے۔ یہ حقائق بیان کرنے کا جواز یہ ہے کہ 13جون کے برطانوی روزنامہ گارڈین نے ممبئی کے ایک ایسے شخص کے بارے میں مفصل مضمون شائع کیا ہے جس کا موضوع ممبئی کی کچی بستیوں میں سرگرم عمل ایک عوامی خدمت گزار ہے۔ نام ہے جیکن آرپوتھام ، بولنے میں مشکل مگر جو کام یہ شخص نصف صدی سے کر رہا ہے وہ اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ اس شخص کی نوبل انعام کے لئے نامزدگی، اس کے ایک برطانوی اخبار میں تذکرے اور تعریف کا باعث بنی (شایدیہ خبر عبدالستار ایدھی اور ڈاکٹر امجد ثاقب کے مداحوں کے لئے مہمیزثابت ہو)۔آرپوتھام نے اپنی ساری زندگی ممبئی کی کچی بستیوں میں رہنے والوں کی فلاح و بہبوداور اُن کے حقوق کے تحفظ کے لئے وقف کر دی۔ اس طویل جدوجہدکے دوران وہ کم از کم 64 بارگرفتار ہوئے۔ اُنہوں نے اپنی زندگی کا زیادہ حصہ خود بھی اُن افتادگان خاک کے ساتھ گزارا ،جو ان کی جدوجہدکا مرکزاورمحور تھے۔ ایسی کچی بستیاں گندگی، شور شرابہ، بدبو، ماردھاڑ، تشدد اور ناقابل برداشت غلیظ ماحول کے مترادف ہوتی ہیں۔ اس عوامی خدمت گزارکے الفاظ میں:امرا اور خوشحال علاقوں میں رہنے والے لوگ کچی بستیوں کے باسیوں کو سست الوجود اور جرائم پیشہ سمجھتے ہیں، ان کی سرگرمیاں شہرکے وسائل کی لوٹ مارکے گردگھومتی ہیں۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ غریب لوگوں کو نہ بجلی ملتی ہے اور نہ صاف پانی ۔ نہ کسی قسم کا تحفظ اور نہ نقل و حمل کی کوئی سہولت۔ یہ لوگ اپنی محنت بہت کم قیمت پر فروخت کر کے جسم و جاںکا رشتہ بمشکل قائم رکھتے ہیں۔ اُن کی محنت اور مشقت ہی شہروں کی رونق اور چمک دمک کو جنم دیتی ہے۔آبادی کے اعتبار سے مفلوک الحال آبادی شہرکے کل رقبہ کے ساٹھ فی صد حصہ کی حق دار بنتی ہے مگر سماجی ناانصافی اُسے چھ فی صد سے بھی کم رقبہ پرگزارا کرنے پر مجبورکردیتی ہے۔ نئے قانون کے تحت اب کچی بستیوں کے رہنے والوں کو زبردستی بے دخل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ 17 مئی 1976ء کو پولیس کے بارہ ہزار سپاہیوں نے ایک کچی بستی پر دھاوا بول دیا اور 70 ہزار لوگوں کو وہاں سے بے دخل کر کے ایک دلدل نما جگہ میں دھکیل دیا۔آرپوتھام عدالتوں سے حکم امتناعی لے کر بے دخلی کو رُکوانے کا ماہر بن گیا ہے۔ اس نے ساری عمر عدم تشددکی روش اپنائی۔اس نے طرح طرح کے جو حربے آزمائے اُن میں سے چند آپ بھی پڑھ لیں۔ پولیس اسٹیشن میںگندے کپڑوں میں ملبوس بچوں کی فوج کی یلغار،ممبئی شہرکے مصروف ترین مراکز میں ہزاروں میلی کچیلی خواتین کا ہجوم جو ٹریفک روکنے میں ہمیشہ کامیاب رہا۔ مظاہرین کے رہنمائوں کا ان خواتین کے مجمع میں اس طرح چھپ جانا کہ پولیس ڈھونڈنے میں ناکام رہتی۔ 1975ء میں موصوف نے دہلی میں اُس وقت کی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کے گھر کے باہر بھوک ہڑتال کی۔ ان کا دھرنااٹھارہ دن جاری رہا تو مسزگاندھی کو مظاہرین کے مطالبات ماننے پڑے اور انہیں چائے بھی پلانی پڑی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں