امریکہ میں شائع ہونے والی تین معیاری کتابیں

آئیے آج ہم امریکہ چلیں۔۔۔۔ جسمانی طور پر نہیں، ذہنی طور پر۔ امریکہ میں اسلام پر تین کتابیں چھپ کر برطانیہ آئیں تو تبصرہ نگاروں کی خصوصی توجہ کا مرکز بن گئیں۔ اس سے پہلے کہ ہم اِن تین معیاری اور علم و فضل کی خوبیوں سے مالا مال کتابوں کا جائزہ لیں، اس منظر نامے کو بھی ذہن میں رکھیں جس کے سیاق و سباق میں یہ کتابیں لکھی گئیں۔
زوال کا جو عمل تیمور کے گھر سے حمیت جانے سے شروع ہوا، وہ اب علم و فضل سے بیگانگی، لاعلمی، مشرق سے اُبھرتے ہوئے سُورج کو دیکھنے سے انکار، فروعی مسائل پر تکرا ر اُس قوم کا منہ چڑا رہی ہے جو صدیوں تک بجا طوردعویٰ کرتی تھی کہ عقل ودانش اُس کی میراث اور شناخت ہے۔ اقبال ؔ نے اپنے آبائو اجداد کی کتابیں یورپ کی دانش گاہوں میں دیکھیں تو ان کا دل صدچاک ہو گیا ۔ اقبال کا خطاب مسلمان نوجوانوں سے تھا؛ وہ اُن سے تدبر، سوچنے، تجزیہ کرنے اور عقل استعمال کرنے کی فریاد کرتے رہے مگر افسوس کہ وہ صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ 
بات امریکہ سے شروع ہوئی تھی اس لیے دوبارہ وہیںچلتے ہیں۔ امریکہ میں اسلام ایک مسلمہ مذہب ہے۔ 1784ء میں امریکہ کے بابائے قوم جارج واشنگٹن سے پوچھا گیا کہ دارالحکومت کی تعمیر کے لیے وہ کون سے معماروں کی خدمات لینا پسند کریں گے تو اُنہوں نے جواب دیا: ''جو اچھے معمار ہوں، چاہے کسی بھی رنگ و نسل سے ہوں کیونکہ مذہب کا فن تعمیر سے کوئی تعلق نہیںہوتا‘‘۔ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ باری جو ساری کائنات کی خالق ہے، ازل سے ابد تک ایک رہے گی، رّتی برابر تبدیلی نہ آئے گی مگر مذاہب کے پیروکاروں کے فہم اور سوچ اور عقائد نہ صرف مختلف ہوں گے بلکہ زمان و مکان کی تبدیلی کے ساتھ اُن کے مذہبی نظریات اور اعمال بدلتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر اسلامی ملک میں رہنے والوں کا فہم دِین اور مذہبی طور طریقے منفرد ہوتے ہیں اورکوئی بھی اسلامی ملک دُوسرے کی فوٹوکاپی نہیں ہوتا۔
امریکہ میں پہلے پہل اسلام افریقہ سے لائے جانے والے غلاموں کے ذریعے آیا۔ یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اُندلس کے مسلمان بحری سیاحوں نے کولمبس سے پہلے امریکہ دریافت کر لیا تھا۔ 1519ء سے 1867ء کے درمیانی عرصہ میں تقریباً سواکروڑ سیاہ فاموں کو افریقہ سے بطور غلام امریکہ لایا گیا تھا۔ ماہرین کے مطابق ان میں دس سے تیس فیصد مسلمان تھے جنہیں سفید فام مالکوں نے دُرّے مار مارکرعیسائی بننے پر مجبورکیا۔ یہ امر توجہ طلب ہے کہ 1940ء سے 1960ء کے درمیان افریقی نسل کے لوگوں کی جن نئی تنظیموں نے پہلی بار جنم لیا ،ان کا راسخ عقیدہ تھا کہ اسلام ہی افریقی لوگوں کا اصل مذہب ہے۔ اُن کے نزدیک عیسائیت غلاموں کی تجارت کرنے والوں اور اُن پر تشدد کرنے والوں کا مذہب تھا۔ تقریباً ایک صدی پہلے امریکہ میں سیاہ فاموں کے سیاسی و سماجی شعورکی پہلی اینٹ اس مذہبی تفریق پر رکھی گئی۔ 1921ء میں شگاگو میں سابق افریقی غلام نوبل ڈریو علی نے اور 1930ء میں نیشن آف اسلام کی بنیاد غلاموں کی نئی نسل کے نمائندے والسن فارڈ نے رکھی۔ 
ڈریوعلی نے ایک نئی الہامی کتاب کو متعارف کراتے وقت اپنے پیروکاروں کو یقین دلایا کہ اُسے یہ مقدس کتاب مصرکے سب سے بڑے ساحر کی طرف سے بطور تحفہ عنایت کی گئی ہے۔ اس کتاب کا نام پڑھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے: Holy Quran of Moorish Science Temple of America ۔ اس کتاب کازیادہ حصہ قرآن حکیم کی آیات پر مشتمل تھا مگر اس میں ادھر اُدھر کا مواد بھی شامل کر لیا گیا۔ نیشن آف اسلام کے دُوسرے رہنما علی جاہ محمد نے نہ صرف یہ دعویٰ کیا کہ اس فرقہ کا بانی فارڈ محمد، نوراللہ اور ظل سبحانی کا درجہ رکھتا تھا بلکہ وہ افریقہ کے سیاہ فام لوگوں کے لیے خداوندتعالیٰ کی پسندیدہ اور خصوصی درجہ رکھنے والی مخلوق تھے ۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ نے گناہ گار لوگوں کی جلدکو اُن کے گناہوں کی سزا دینے کے لیے سفید رنگت دی ہے۔
2011 ء میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد 25 لاکھ ہے جو امریکی آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں بنتی۔ دُوسرا تحقیقی ادارہ دعویٰ کرتا ہے کہ امریکی مسلمانوں کی آبادی ستر لاکھ ہے جو امریکی آبادی (318 ملین) کا 2.2 فیصد بنتی ہے۔ 2000ء میں امریکہ میں مساجد کی تعداد بارہ سو تھی جو گیارہ سال میں بڑھ کر 2106 ہوگئی۔ امریکی پریس جتنا متعصب اور گمراہ کن ہے، یہ جھوٹ کا انبار لگانے کا بھی اتنا ماہر ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکی پریس بالکل غیرمتعصب اور سرکاری اثر و رسوخ سے مکمل آزاد ہونے کا جو بلند بانگ دعویٰ کرتا ہے وہ بھی بے مثال ہے۔ ہیلری کلنٹن کے سٹاف میں ایک کا نام ہما عابدین تھا۔ اس مسلمان خاتون کے والدین کاتعلق پاکستان اور ہندوستان سے ہے۔ 2012 ء میں امریکی پریس کو بھنک پڑی تو ہما کی شامت آگئی۔ اس پر وطن دُشمنی کے ایسے سنگین الزامات لگائے گئے کہ خدا کی پناہ۔ 
اب ہم اُن تین کتابوں کی طرف آتے ہیں جہاں سے بات شروع ہوئی تھی۔ پہلی کتاب کیمبرج یونیورسٹی پریس نے چھاپی۔ یہ جو لین حمیراور عمر سلومی کی تالیف ہے۔ کتاب کانام ہے The Cambridge Companion to American Islam 386صفحات پرمشتمل یہ کتاب ایسے مضامین کا مجموعہ ہے جو سماجی علوم کے ماہرین نے امریکہ میں مسلمانوں کے بارے میں لکھے۔ اس کتاب کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکی رائے عامہ دُنیا کے 1.2 بلین مسلمانوں اس قدر خلاف ہو گئی ہے کہ وہ ہر مسلمان کو دہشت گرداور امریکہ کا جانی دُشمن سمجھتی ہے۔ افغانستان اور عراق سے لے کر ویت نام تک امریکی فوج کی جارحیت نے جتنے بڑے پیمانے پر حد درجہ بے رحمی اور بے شرمی سے لاکھوں بے گناہوں کو ہلاک کیا ،اسے امریکی پریس اپنے سادہ لوح، کم سمجھ اور پروپیگنڈا سے جلد متاثر ہونے والے عوام کی نظروں سے اوجھل رکھتا ہے۔
دوسری کتاب زرینہ گری وال نے لکھی، اسے نیویارک یونیورسٹی پریس نے چھاپا۔ نام ہے in Islam A Foreign Country ۔ زرینہ لکھتی ہیں کہ امریکہ میں رہنے والا مسلمان ایشیائی ہو، عرب یا افریقی ، سفید فام لوگ اُس کے خلاف نفرت اور خوف کے یکساں جذبات رکھتے ہیں۔ صرف یہی نہیں، عیسائی عربوں اور غیر مسلم ایشیائی (خصوصاً سکھ) کو بھی تعصب کی یہ اُبھرتی ہوئی لہر اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ زرینہ نے مسلمان نوجوانوں کی ذہنی کیفیت اور اُن کے ردّ عمل کو خصوصی توجہ دی اور یہ پیشن گوئی کی کہ اگر سفید فام عیسائیوں نے احمقانہ رویے کا مظاہرہ کیا جو قرونِ وسطیٰ میں ہونے والی صلیبی جنگوں کے پہلے اور بعد یورپ کے متعصب عیسائیوں نے کیا تھا تو مسلمانوں کا نوجوان طبقہ ذہنی طو رپر امریکی تہذیب اور معاشرہ سے اور دور چلا جائے گا اور اُن کا ایک حصہ احتجاجاً دہشت گردی کی طرف مائل ہو سکتا ہے۔ 
زرینہ نے یہ دلچسپ انکشاف بھی کیا کہ امریکہ میں پیدا ہونے والے اور وہاں ہوش سنبھالنے والے مسلمان نوجوانوں کی یہ بڑی خواہش تھی کہ وہ اپنی اُس اسلامی ملک کی زیارت ضرور کریں جہاں سے کافی سال پہلے اُن کے والدین نے ہجرت کی تھی۔ یہ نوجوان وہاں جا کر بے حد دل برداشتہ ہوئے ۔ اُن کے خواب چکنا چور ہوئے اور وہ مایوس اور دلِ گرفتگی کے عالم میں واپس امریکہ آئے چونکہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے اپنے آبائی وطن میں اپنے مقدس اور دل و جاں سے عزیز مذہب کی مٹی پلید ہوتے ہوئے دیکھی۔ اُنہوں نے دیکھا کہ سب اسلامی ممالک کا نظام زندگی اسلام کے نام پر بدنما دھبہ اور شرمناک تہمت ہے۔ 
تیسری کتاب کا نام Burqas, Baseball and Apple Pie ہے ۔یہ رانیا طباری نے لکھی اور میکملن نے شائع کی۔ اس کتاب میں مسلمان خواتین کی طرف زیادہ توجہ کی دی گئی ہے۔ جگہ کی کمی کے پیش نظر میں یہی لکھ کر تبصرہ ختم کروں گا کہ امریکہ میںمسلمان امریکی معاشرے میں جذب ہونا سیکھ گئے ہیں مگر وہ اپنا چال چلن نہیں بھولے۔ نسل در نسل اُنہیں تنی ہوئی رسی پر چلنے کی مہارت حاصل کرنا ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں