کارڈف کی سیر

یہ کالم 16 جولائی کی شام کو کارڈف سے لندن جانے والی ٹرین میں لکھا جا رہا ہے۔ کارڈف ویلزکا صدر مقام ہے۔ ویلز (Wales ) برطانیہ کا چوتھا صوبہ ہے ۔انگلستان کے جنوب مغرب میں کارڈف لندن سے ڈیڑھ سو میل دور ہے۔ تیز رفتار ٹرین نے یہ فاصلہ دوگھنٹے میں طے کیا۔برطانیہ میں 47 سالہ طویل قیام میں پہلی بار کارڈف آیا۔ (ایک مقدمہ کی وکالت کے لئے) اور غالباً آخری بار۔ کارڈف میں قابل دید مقامات صرف تین ہیں۔ایک قدیم قلعہ۔ خوبصورت درختوں اور پھولوں سے بھرا ڈیڑھ سو ایکڑوں پر محیط پارک اور بندرگاہ جہاں سے اطلانتک نامی سمندرشروع ہو کر امریکہ کے ساحل پر ختم ہوتا ہے۔ بندرگاہ پر سینکڑوںبادبانی کشتیاں لنگر انداز تھیں۔ گہرے بادل جو سیالکوٹ کے ایک دیہاتی سیاح پر برسنے کے لئے بے تاب تھے۔ اور ان بادلوںکے نیچے اڑتے ہوئے ان گنت آبی پرندے جو ہمارے ہاں کی مرغابیوں کے قریبی رشتہ دار لگتے تھے۔ انگریزی میں انہیں Seagulls کہتے ہیں۔ مشہور رُوسی ادیب چیخوف نے اس نام کا ڈرامہ لکھ کر انہیں عالمی ادب میں شہرتِ دوام بخشی۔ پرندے ہمیں نظر آئیں یا نہ آئیں آپ بندرگاہ کے قرب و جوار میں جہاں بھی جائیں ،اُن کی اُس آواز (جو مجھے بڑی بھلی لگتی ہے) کو سنے بغیر نہیں رہ سکتے جو دنیا بھر کے جہاز رانوں اور ملاحوں کے لئے سب سے زیادہ مانوس اور جانی پہچانی آواز ہے۔ 
تاریخی اور قدیم قلعہ کارڈف شہر کے دل میں ہے۔ یہ قلعہ ویلز کی تاریخ کا امین ہے اور ویلز کے لوگوں کی قومیت کا سب سے بڑا نشان بھی۔ آپ سمجھ لیں کہ یہ قلعہ ہی ویلز کا پرچم ہے۔ میری طرح جس شخص نے مغلوں کے بنائے ہوئے قلعے دیکھے ہوں اُسے دیار مغرب کے قلعے ہر گز مرعوب نہیں کر سکتے۔ خاص بات یہ تھی کہ قلعہ کی مشرقی دیوار کے اُوپر دنیا کے تمام ممالک کے پرچم لہراتے نظر آئے۔ پندرہویں نمبر پر (امریکی اور آسٹریلوی پرچم کے درمیان) پاکستان کا پرچم لہراتا دیکھا تو دل اس قدر خوشی اور فخر سے بھر گیا کہ بیان نہیں کر سکتا۔ میرے قدم وہیں رُک گئے اور کافی دیر رُکے رہے۔ آنکھیں اپنے پرچم پر جم گئیں۔ کانوں میں ناہید اختر کے گائے ہوئے بڑے دلکش ترانے کے الفاظ گونجنے لگے۔ ''ہمارا پرچم، یہ پیارا پرچم‘‘۔ جو ترانہ ناہید اختر نے کئی سال پہلے پاکستان میں گایا وہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو کر کارڈف میں کھڑے ایک پاکستانی کے دل و دماغ کے تار ہلا رہا تھا۔ لگتا تھا کہ یہ ترانہ کئی سالوں سے فضا میں منجمد تھا۔ جونہی کارڈف کے قلعہ کی دیوار کے اُوپر ایک پاکستانی نے اپنا قومی پرچم دیکھا تو ناہید کے گائے ہوئے الفاظ پگھل کر چاندی کی بہتی ہوئی ندی بن کر اس کے ترسے ہوئے کانوں میں بہنے لگے۔ غالبـؔ کو ویلز کی فضائوں میں ہماری ناہید کی آواز کے شعلہ کی لپک دکھائی نہ دی تھی۔ غالبؔ کارڈف آتے اور پاکستانی پرچم دیکھتے تو اُنہیں بھی میری طرح ایک کمال جمالیاتی تجربہ ہوتا۔
ویلز کی اپنی قومی زبان ہے (جو Welsh کہلاتی ہے)۔یہاں کے مقامی باشندوں کو اس پر بڑا فخر ہے۔ ویلز کے ہر سکول میں انگریزی کے ساتھ ساتھ یہ زبان لازمی طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ سڑکوں کے نام انگریزی کے ساتھ ساتھ ویلش میں بھی لکھے جاتے ہیں۔ (کتنا اچھا ہو کہ پاکستان کے ہر صوبہ میں اُردو کے ساتھ ساتھ وہاں کی مقامی زبان بھی پڑھائی جائے۔ صرف پنجابی نہیں بلکہ پوٹھوہاری اور سرائیکی بھی)۔آزاد قومیں اپنی مادری زبان بولنے ، پڑھنے اور پڑھانے فخر کرتی ہیں اور غلام قومیں اپنے آقائوں کی زبان بولنے پر۔ میرے بہت کم قارئین جانتے ہوں گے کہ انقلاب سے پہلے روس کے حکمران طبقے فرانسیسی زبان بولتے تھے( بطور فیشن اور عوام پر رُعب ڈالنے کے لئے)۔ صدیوں سے اُفتادگان خاک کی بولی جانے والی رُوسی زبان کو اُس کا مقام انقلاب روس نے دلوایا۔ تمام یورپی ممالک کی قومیت کی بنیاد ہی اُن کی قومی زبان ہے۔ اور اسے سب سے بڑا سیاسی مسئلہ تسلیم اور تصور کیا جاتا ہے۔ویلز کو وہاں کی قومی زبان میں Cymru کہتے اور لکھتے ہیں۔ (صحیح تلفظ میں بھی
نہیں جانتا)۔ دُنیا میں انسانی آبادی اندازاًدو لاکھ تیس ہزار سال پہلے شروع ہوئی۔ ویلز میں انسانی آبادی کے جو آثار ہیں وہ نو ہزار سال قبل مسیح ہیں۔ 43 عیسوی میں برطا نیہ پر جو رومن قبضہ شروع ہوا وہ پانچویں صدی میں ختم ہوا۔ یعنی برطانیہ پر رومن تسلط چار صدیوں تک جاری رہا۔ 1292 ء میں انگلستان کا ایک بادشاہ (ٹیوڈر بادشاہ ہنری ہشتم) خود بھی ویلز ہی کے رہنے والے تھے۔ آج بھی برطانوی تحت کے جانشین (ولی عہد) کو پرنس آف ویلز کہا جاتا ہے۔ پندرہویں اور سولہویں صدی میں برطانوی تسلط کے خلاف ویلز کے لوگوں نے کئی بڑی بغاوتیں کیں مگر سب ناکام رہیں۔ 1707 ء میں ویلز کو برطانیہ کا آئینی طور پر حصہ بنایا گیا۔ اور 1801ء میں یو کے United Kingdom کا۔ اپنے قومی تشخص کو اُجاگر کرنے کے لئے 1580ء میں ولیم مورگن نے انجیل مقدس کا ویلش زبان میں ترجمہ کر کے اسے شائع کرایا۔ اٹھارویں صدی میں دو بڑی تبدیلیاں آئیں۔ ویلز کے لوگوں نے رومن کیتھولک عقیدہ چھوڑ دیا اور وہ صنعتی انقلاب کی لپیٹ میں آگئے، جس کی وجہ سے کوئلہ اور لوہے کی کان کنی کی صنعت نے زور پکڑا۔ بیسویں صدی کے وسط میں دو بڑی سیاسی تبدیلیاں آئیں۔ سیاسی بساط پر لبرل پارٹی کی جگہ لیبر پارٹی نے لے لی اور ویلز کی قوم پرست جماعت Plaid Cymru سیاسی اُفق پر اُبھری ۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ کی مرکزی حکومت 1999ء میں مجبور ہو گئی کہ ویلز کی علاقائی اسمبلی (جس کا پہلے کوئی وجود نہ تھا) معرض وجود میں لائی جائے اور اُسے بہت سے اختیارات تفویض کئے جائیں۔ 
ویلز نے کئی مشہور ادیبوں (مثلاًDylan Thomas اور گلوکاروں اور اداکاروں (مثلاً رچرڈ برٹن) کو جنم دیا۔ ان سب نے اپنی جنم بھومی پر ہمیشہ بڑے فخر کا اظہار کیا۔ انگریزوں کے برعکس ویلز کے لوگ بڑے مہمان نواز اور گرم جوش ہوتے ہیں۔میں کارڈف میں جس ایک شخص سے عدالت کا راستہ پوچھتا تھا تو ہر سننے والا رُک کر میری رہنمائی کرنے کے لئے تیار ہو جاتا تھا۔ انگلستان کے مقابلہ میں یہاں بہت کم تارکین وطن رہتے ہیں۔ چونکہ یہاں ملازمتوں کے حصول کے مقابلتاً کم امکانات ہیں۔ 
کارڈف کی سیر کرتے کرتے میں شہر کے ایک ایسے حصہ میں پہنچا جہاں پھول دار جھاڑیوں کے عقب سے موسیقی کی آواز آرہی تھی۔ میرے قدم بے اختیار اُس طرف اُٹھے۔ ایک خانہ بدوش لڑکی زمین پر بیٹھی باجہ بجا رہی تھی اور اُس کے سامنے پڑے ڈبے کا مطلب یہ تھا کہ وہ خیرات مانگ رہی ہے۔ میری پاس جو ریزگاری تھی اُس کا اس سے بہتر اور کیا مصرف ہو سکتا تھا کہ میں ڈبہ میں ڈال دوں۔ میں نے پوچھا کہ کہاں سے آئی ہو؟جواب ملا اتنی پرانی بات ہے کہ اس سوال کا جواب نہیں دے سکتی۔ ایک پرانی خانہ بدوش ایک نئے خانہ بدوش،دونوں ایک دوسرے کو خاموشی اور ہمدردی سے دیر تک تکتے رہے اور گفتگو آگے نہ بڑھ سکی۔ میں نے آگے قدم بڑھائے تو دیکھا کہ سینکڑوں طلباء اور طالبات گائون پہنے (کانووکیشن کی رسم کے بعد )امتحانات میں کامیابی کا جشن منا رہے ہیں۔ ہجوم سے ہٹ کر ایک بچی ساڑھی پہنے اُداس کھڑی تھی۔ میں اُس کے پاس گیا اور پوچھا کیا ماجرا ہے؟ خوشی کے دن مغموم کیوں ہو؟ جواب ملا کہ ہندوستان سے والدین آنا چاہتے تھے مگر ویز انہیں ملا۔ میں نے کہا اسی وجہ سے اُنہوں نے مجھے لندن سے بھیجا ہے تاکہ میں تمہارے سر پر ہاتھ رکھ سکوں۔ تم آج مجھے ہی اپنا پتا جی سمجھو۔ اُس نے میرے پائوں چھوئے اور خوشی سے روتے ہوئے یہ جملہ بار بار دہرایا کہ آپ کو بھگوان نے میرے لئے بھیجا ہے۔ باپ بیٹی نے بہت سی تصویریں بنوائیں۔ میں اُسے چائے پلانے لے گیا تو کارڈف کے کبوتروں نے میرا گھیرائو کر لیا۔ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ چائے آپ دونوں پئیں مگر بسکٹ ہمیں کھلائیں۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ شام ہوئی تو میں خوش و خرم کبوتروں اور اپنی نئی منہ بولی بیٹی سے اجازت لے کر واپس لندن کی ٹرین کی طرف لپکا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں