چلتے ہو تو صحرا کو چلیے

یہ سطور ابن انشاء جیسے بے مثال نثر نگار لکھتے (سوچئے کہ دُنیا کے قارئین کس قدر خوش نصیب ہوتے) تو وہ آپ کو اپنے ساتھ چین چلنے کی دعوت دیتے۔ ایک میں ہوں (اب یہی کالم نگار آپ کے پلے پڑ گیا ہے) جو آپ کو صحرا کا سفر کرنے کا مشورہ دے رہا ہے اور صحرا بھی افریقہ کا ،جسے صحرائے اعظم کہتے ہیں۔ تھل، تھر اور چولستان کے صحرائوں کا بزرگ۔ ان سے وسیع تر۔ دُنیا بھر کے صحرائوں کا سردار۔ یہ دعوت نامہ پڑھ کر آپ کے دل میں میرے بارے میں خاصے غیر دوستانہ جذبات پیدا ہوئے ہوں گے۔ آپ سوچیں گے کہ ہم پہلے ہی گرمی سے بے حال اور نڈھال ہیں اور مرے جاتے ہیں اور یہ مرد شریف ہمیں اب صحرائے اعظم کا راستہ دکھا رہا ہے، جو ان دنوں آگ کی بھٹی کی طرح دہک رہا ہے۔ ایسے دوستوں سے تو دُشمن اچھے۔ اس سے پہلے کہ آپ مزید ناراض ہوں میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میری دعوت نیک نیتی پر مبنی ہے۔ میں آپ کو وہاں ایک ایسا عجوبۂ روز گار دکھانا چاہتا ہوں جس کا نظارہ آپ کو خوش کر دے گا، آپ کی آنکھیں روشن ہو جائیں گی اور دل شاد۔
میرے قارئین میں سے جن لوگوں نے سکول میں جغرافیہ توجہ سے پڑھا ہوگا ،وہ یقینا ایک ایسے شہر کا نام جانتے ہوں گے جو قدرتی اعتبار سے اتنا منفرد ہے کہ بھلائے نہیں بھولتا اور وہ نام ہے ٹمبکٹو ( Timbuktu) ۔آپ اس کا محل وقوع پڑھ لیں۔ یہ شہر مغربی افریقہ میں صحرائے اعظم کی مغربی سرحد پر 'مالی‘ نامی ملک میں ہے۔ اگر ہم اپنا سفر مشرق سے شروع کریں (جو کہ کافی برُا فیصلہ ہوگا) تو ہمیں اس شہر میں پہنچنے کے لئے سارے صحرا ئے اعظم کا سفر کرنا پڑے گا۔ آپ جانتے ہیں کہ صحرائوں میں تو سڑکیں نہیں ہوتیں (اگر شریف برادران کی سلطنت کی سرحدیں مالی تک جا پہنچیں تو شاید اتنے بڑے صحرا میں بھی سڑکیں بن جائیں) اس لئے وہاں سفر صرف اونٹوں پر ہی کیا جا سکتا ہے۔ 
2012ء میں مالی پرمذہبی انتہا پسندوں/ شدت پسندوں/ شر پسندوں/ دہشت گردوں (نام کا انتخاب میں آپ پر چھوڑتا ہوں) کا ناگہانی حملہ ایک بہت بڑی آفت کی صورت میں ہوا۔ جتنی دیر میں حملہ آور جتھے ٹمبکٹو پر آسمانی بجلی بن کر گرے، عبدالقادر حیدر دن رات ناقابلِ یقین محنت مشقت کر کے ہزاروں آہنی ڈبے شہر سے باہر صحرا میں ریت کے نیچے دفن کر چکا تھا۔ آہنی ڈبے ہر سائز کے تھے۔ چھوٹے، درمیانی اور بڑے۔ جب مقامی بازار میں ڈبے/ صندوق ختم ہو گئے تو مزید صندوق کشتی کے ذریعہ جس قریب ترین شہر سے منگوائے گئے ،وہ بھی تین دن کی مسافت پر تھا۔ عبدالقادر جانتا تھا کہ اُس کی دوڑ اور تگ و دو میں وقت اس کا سب سے بڑا حریف ہے اور گھڑی سب سے بڑی دشمن۔ مالی کے دارالحکومت کا نام بجا کو(Bajako )ہے۔ جب اُس شہر پر باغی فوج نے قبضہ کر لیا تو ذہین وفطین عبدالقادر نے دو اور دو جمع کر کے حساب لگایا کہ چند دنوں کی بات ہے جب باغی ٹمبکٹو کا رُخ کریں گے اور اُس کے تاریخی شہر کو تاخت و تارج کر دیں گے۔ باغی افواج کے ساتھ ملک کے شمالی صحرا میں آباد Tuareg قبیلہ کے خانہ بدوش اور جنگجو افراد مل گئے تو معاملہ دو آتشہ ہو گیا۔
47 برس کا عبدالقادر حیدر اتنی صدیوں سے جمع کئے گئے قدیم اور نادر مسودوں کی حفاظت کا ذمہ دار تھا۔ اس لئے یہ اُس کا فرض اولین تھا کہ ان انمول مسودوں کو حملہ آوروں سے ہر قیمت پر بچائے۔ مسودے اتنے پرانے ہیں کہ کوئی شخص وثوق سے ان کی تاریخ کا تعین نہیں کر سکتا۔ جونہی صحرا میں چلنے والی گرم ہوائوں نے عبدالقادر کے کان میں آنے والے خطرے کی پہلی گھنٹی بجائی وہ پورا ایک ماہ، غروب آفتاب سے لے کر طلوع آفتاب تک، ہزاروں مسودوں کو آہنی صندوقوں میں بند کر کے شہر سے باہر (ریت کے ٹیلوں میں تھکے بغیر) چھپاتا رہا۔ یہ مسودے بڑے نفیس اور نازک کاغذ پر لکھی ہوئی تحریروں پر مشتمل ہیں۔ ماہرین کے خیال میں سب مسودے گیارہویں صدی (یعنی دس صدیاں قبل) میں لکھے گئے۔ ان مسودوں کی جلد بندی بہترین چمڑے سے کی گئی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان مسودوں کی تعداد تین لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
فرانسیسی فوجوں کی آمد پر باغی لشکر شہر سے مفرور ہونے لگا تو جاتے جاتے شہر کی سب سے بڑی لائبریری کو نذر آتش کر گیا۔ انتہا پسندوں کی تنگ نظری ،کٹڑ پن اور بدترین قسم کی جہالت کا اس سے زیادہ شرمناک اظہار اور کیا ہو سکتا تھا کہ اُن کی نظر میں تمام پرانی کتابیں اور مسودے اس لئے جلا دینے چاہئیں کہ اُن کی بنیاد ناقص انسانی علم اور فہم پر ہے۔
آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جب اس لائبریری کے جل کر خاکستر ہو جانے کی خبر پھیلی تو ساری دُنیا کے علمی حلقوں میں کتنے بڑے پیمانہ پر صف ماتم بچھ گئی ہوگی۔ سب لوگ بے حد متفکر اور پریشان تھے، ماسوائے عبدالقادر حیدر کے ،چونکہ صرف وہ یہ راز جانتا تھا کہ لاکھوں مسودے صحرا کی ریت کے نیچے بالکل محفوظ ہیں۔ ٹمبکٹو کے مسودوں کی حفاظت کرنے کے لیے امیر عرب ممالک کوئی دلچسپی نہیں لیتے۔ جنوبی افریقہ کا اللہ بھلا کرے کہ اُس کی حکومت نے کیپ ٹائون میں خصوصی مرکز قائم کیا ہے، جس پر 70 لاکھ ڈالر خرچ آیا ہے۔ جس طرح ایک زمانہ میں ہمارے ہاں کا ٹیکسلا گندھارا تہذیب کا دل تھا اور وہاں ایک بین الاقوامی شہرت رکھنے والی یونیورسٹی بھی تھی، اسی طرح بارہویں اور پندرہویں صدی کے درمیان ٹمبکٹو (آج کل گم نام یا باعث تفنن) علم و دانش کا اور اسلامی سکالر شپ کا بہت بڑا مرکز تھا۔ مسودوں کا تعلق انسانی علم کے ہر شعبہ سے ہے۔ قانون، طب، فلسفہ، تاریخ، علم نجوم، فقہ، حدیث، ایران اور مشرق وسطیٰ سے لائے گئے اور ہاتھ کے لکھے ہوئے لاکھوں مسودے۔ عبدالقادر نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ میں نے جس کٹھن کام کی ذمہ داری سنبھالی تھی وہ تو میںنے بفضلہ تعالیٰ مکمل کر لیا مگر ذہنی دبائو اور فشار خون کی وجہ سے میری مونچھیں سفید ہو گئی ہیں۔ شہر کی دو بڑی مساجد کے ساتھ بزرگان دین کے مزار بھی ہیں (جو بڑے قدیم ہیں اور عدم توجہ سے خستہ حالی کا شکار ہیں)۔ سیدی یحییٰ مسجد کو اتنا مقدس سمجھا جاتا ہے کہ اُس کا ایک دروازہ مستقل طور پر بند رکھا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کا راسخ عقیدہ یہ ہے کہ وہ صرف روز قیامت کھلے گا۔
ٹمبکٹو کا شہر ایک ایسی جغرافیائی گذرگاہ پر آباد ہوا جہاں سے مغربی افریقہ کے کئی ممالک کو جانے والے راستے بھی گذرتے ہیں۔ شمال میں صحرائے اعظم ہے اور جنوب میں نائیجر(Niger) نامی دریا بہتا ہے۔ چھ سو سال پہلے یہ شہر اہم ترین تجارتی مرکز تھا۔ سونے، چاندی ،نمک ،غلاموں اور شتر مرغ کے پروں کے تاجر طویل سفر (جو اُونٹوں پر کیا جاتا تھا) کے دوران اس شہر میں رُک کر آرام کرتے تھے۔ عالم اسلام سے جو بھی کتاب اس شہرمیں لائی جاتی تھی، مقامی خوش نویس اُسے نقل کر لیتے تھے۔ کتنی خوشی کی بات ہے کہ ان دنوں ہزاروں میل دُور جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹائون کی یونیورسٹی کے تحت ایک تحقیقی ادارہ کام کررہا ہے جہاں ان مسودوں کو پڑھنے کا کام کیا جا رہا ہے اور ہر روز محققین کو حیرت ہوتی ہے کہ دس صدیاں قبل اسلامی دُنیا میں کتنے بلند معیار کی کتابیں لکھی جاتی تھیں۔
1591 ء میں مالی پر مراکو کے حملہ کے بعدٹمبکٹو کا زوال شروع ہوا۔ 1969 ء میں اقوام متحدہ کے علمی ادارہ یونیسکو کے تحت ہونے والی کانفرنس میں پہلی بار ان لاکھوں مسودوں کی علمی اہمیت تسلیم کی گئی۔ 37 سال اور گزر گئے تب جا کر ان مسودوں کی حفاظت کا وہ کام شروع ہوا جو کوہ ہمالیہ کی بلند و بالا چوٹیوں کی ننگے پائوں کوہ پیمائی کے مترادف ہے۔ مسودے اتنے خستہ ہو چکے ہیں کہ اگر ہاتھ لگائیں تو ان کے صفحات ٹوٹ جاتے ہیں۔ خوش قسمتی سے جاپان نے ایک ایسا کاغذ بنایا ہے جو مسودوں کے کاغذات کی ساتھ چسپاں کر دیا جائے تو وہ شکست و ریخت سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ کاش اہل پاکستان کو بھی اپنے تاریخی ورثہ کی حفاظت کی توفیق ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں