چودہ برس کا بن باس

اجازت دیجئے کہ آج کا کالم اپنے پڑوسی ملک بھارت کی اُن خبروں کے تذکرے اور تبصرے کے لیے وقف کر دیا جائے جو وسط اگست میں برطانوی اخبارات میں شائع ہوئیں۔
لباس کی کئی تہوں اور رنگا رنگ شالوں میں لپٹی 42 سالہ تبتی نقوش والی خاتون کی تصویر روزنامہ گارڈین کے صفحہ 14 پر20 اگست کو شائع ہوئی۔ نام ہے شرمیلا ، تصویر میں وہ سنجیدہ اور پُرعزم نظرآتی ہے، چہرے پر مسکراہٹ کا دُور دُور تک نام ونشان نہیں۔ تصویر کے ساتھ تین چوتھائی صفحے پر پھیلا مضمون پڑھیں تو اس کی وجہ معلوم ہوجاتی ہے۔ اِس بہادر خاتون نے چودہ برسوں سے بھوک ہڑتال کر رکھی ہے۔ اس طویل عرصے میں اُنہیں بھارت کے جیل حکام نے ناک کے ذریعے زبردستی خوراک دے کر زندہ رکھا ہوا ہے۔ وہ شمال مشرقی بھارت میں ہمالیہ کے دامن میںآباد ریاست منی پورکی رہنے والی ہیں۔
2 نومبر2000 ء کو اس ریاست کے لوگوں نے مرکزی حکومت کی ناقابل قبول بالادستی اور مقامی اختیارات کے فقدان کے خلاف اتنا زبردست مظاہرہ کیا کہ اسے کچلنے کے لیے نیم فوجی دستوں (آسام رائفلز)کو مظاہرین پرگولی چلانی پڑی جس میں دس افراد مارے گئے۔ مظاہرہ منی پورکے ریاستی دارالخلافہ امپھل(Imphal) میں ہوا۔ 5 نومبرکو اس قتل عام کے خلاف شرمیلا نے احتجاجی بھوک ہڑتال شروع کر دی جو گزشتہ ماہ تقریباً چودہ برس کے بعدختم ہوئی۔
شرمیلا کے خلاف بھوک ہڑتال کرکے خودکشی کرنے کی کوشش کرنے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا۔ پاکستان کی طرح بھارت میں بھی خودکشی کی ناکام کوشش کرنے کی سزا ایک سال قیدکی صورت میں دی جاتی ہے۔ شرمیلا کا احتجاج بنیادی طور پر نظم و نسق قائم کرنے والے سکیورٹی اداروں کے خلاف تھا۔ جب بھارت کے شمال مشرقی علاقوں میں بغاوت کی آگ بھڑک اُٹھی تو بھارتی حکومت نے پکڑ دھکڑاورملزموں کے عام حقوق کے خاتمے کا نادر شاہی فرمان جاری کردیا۔ انسانی حقوق کی اتنی بڑی پامالی شرمیلا کے لیے ناقابل قبول تھی۔ جلوس وہ نکال نہیں سکتی تھی کہ اس کے لیے بڑا ہجوم درکار ہوتا ہے، ہر روزموسلا دھار بارش کے باعث دھرنا دینا بھی ممکن نہ تھا،لہٰذا احتجاج کا صرف ایک راستہ باقی بچا کہ وہ مہاتما گاندھی کی طرح بھوک ہڑتال کردے۔ شرمیلا اس کٹھن راہ پر چل پڑی اور رام چندر جی کے بن باس جتنا چودہ سال طویل سفر طے کیا،جوکامیابی وکامرانی پر ختم ہوا۔ 
اوپر جس ظالمانہ قانون کا ذکر کیا گیا اُس کا نام ہے
Powers Act The Armed Forces Special ۔ یہ 1958ء میں نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ ہندوستان کے شمال مشرقی علاقوں میں آزادی کی تحریکیں کچلنے کے لیے نافذکیا گیا۔ اس قانون کے تحت کسی شخص کو وارنٹ کے بغیرگرفتارکیا جاسکتا ہے۔ جس شخص پر باغی ہونے کا شک ہو اُسے تفتیش کے بغیرگولی ماری جا سکتی ہے۔ ہرگھر اور ہر عمارت کی تلاشی کے لیے پولیس بلا روک ٹوک دھاوا بول سکتی ہے۔ گویا یہ قانون سکیورٹی فورسزکو شتربے مہار بنا دیتا ہے۔ ان چودہ برسوں میں پولیس ایک ناٹک باقاعدگی سے رچاتی رہی۔ ہر سال شرمیلا کو ایک گھنٹے کے لیے رہا کر کے خودکشی کی کوشش کرنے کے جرم میں دوبارہ گرفتار کر کے جیل بھیج دیا جاتا۔ اس طویل جدوجہد کے اعتراف میں شرمیلا کو کئی عالمی اعزازات دیے گئے ہیں جن میں 2010 ء میں ایشیائی انسانی حقوق کا انعام اور رابندر ناتھ امن انعام بھی شامل ہیں۔گارڈین میں شرمیلاکا مفصل تعارف پڑھ کر اس کالم نگار نے سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے جدوجہدکرنے والے مشہور برطانوی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو فون کیا اور اُسے بتایا کہ شرمیلا کو برسوں قبل ضمیرکا قیدی تسلیم کر لیاگیا تھا۔ اس بہادر خاتون کو چودہ سال کی قید تنہائی بھی دبا سکی نہ جھکا سکی۔ 2000 ء میں 24 سال کی جس سیدھی سادی نیم خواندہ دیہاتی لڑکی کو ریاستی جبر کا نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوا ،وہ آہنی قوت ارادی اورنامساعد حالات میں اچھی کتابیں پڑھنے کے بعد اب آسام کے لوگوں کی سب سے بڑی رہنما بن گئی ہے۔ 
آیئے، اب سیاست سے فنون لطیفہ کی طرف چلیں۔ آپ جانتے ہوںگے کہ کئی بھارتی فنکاروں نے ماضی قریب میں عالمی شہرت حاصل کی۔ شہنائی بجانے والے استاد بسم اللہ خان، مصور ایف ایم حسین، ستار نواز روی شنکر، طبلہ نواز اللہ رکھا، موسیقار رحمان کے بعد ان دنوں بھارتی رقاص اکرم خان پر مغرب میں داد و تحسین کے پھول برسائے جا رہے ہیں۔ وہ جشن ایڈنبرا میں شریک ہوئے تو میلہ لوٹ لیا۔ قدیم اور عالیشان عمارت تمائشایوں سے بھری ہوئی ، ٹمٹماتے چراغ ، ڈھول کی اُبھرتی ہوئی آواز اور پائوں میں گھنگھرو باندھے ہوئے رقاص! اعضا کی اتنی روانی سے حرکت جیسے پرندوں کی پرواز! کتھک ناچ کا بے مثال مظاہرہ ، یہ کلاسیکی رقص اکرم خان نے اس خوبصورتی اور مہارت سے پیش کیا کہ دیکھنے والوں کے سانس رُک گئے۔
امریکہ میں جان ہاپکنز یونیورسٹی کو وہی بلند مقام حاصل ہے جو ہارورڈ اور ییل کو۔ برطانیہ اور یورپ کی ہر اچھی یونیورسٹی کی طرح اس یونیورسٹی کا بھی اپنا اشاعتی ادارہ ہے جو بہترین کتابیں شائع کرتا ہے۔ پچھلے ماہ اس نے صفحات کے اعتبار سے ایک چھوٹی ، قیمت کے لحاظ سے مہنگی مگر دلچسپ کتاب شائع کی۔ نام ہے:
From Little London To Little Bengal
کتاب کا موضوع اٹھارویں صدی میں بنگال اور لندن ایک دُوسرے پر زندگی کے ہر شعبہ میں کتنے اثر انداز ہوئے ۔۔۔۔۔یعنی فن تعمیر،گھروں کی اندرونی زیبائش، باغات، لائبریریاں، ادب، فنون لطیفہ۔ 1843ء میں جب لندن کے مقتدر سیاسی حلقوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے مستقبل پر بحث ہو رہی تھی، صوبہ مدراس کے گورنر سر تھامس منرو نے برطانوی حکومت کو خط لکھاکہ اگر دو تہذیبوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلق اور رشتے کو تجارتی اصطلاح میں بیان کیا جائے تو مدراس اور بنگال کے پلڑے میں برآمد ہوگی اور برطانیہ کے پلڑے میں درآمد۔ برطانوی تہذیب کے زیر اثر1817ء میں ہندو کالج کے نام سے پہلا تعلیمی ادارہ معرضِ وجود میں آیا۔ 1818ء میں قانون بنایا گیا کہ بنگال اور مدراس کے اخباروںکو سنسر شپ سے آزاد کر دیا جائے۔کلکتہ میں نہ صرف انگریزی بلکہ فارسی، اُردو اور بنگالی زبانوں کے اشاعتی اداروں نے سرکاری سرپرستی میں جنم لیا۔ بنگالی ثقافت کی نشاۃ ثانیہ کے بانی رام موہن رائے 1830ء میں برطانیہ آئے اور تین سال بعد یہیں وفات پائی۔ برطانوی اشاعتی ادارہ Longmans کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ اس کی شائع کردہ کتابیں مدراس اور بنگال میں بڑی تعداد میں پڑھی جاتی تھیں۔
کوئی ساٹھ برس قبل میں نے ہندوستان کی آئینی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے سوامی آئن گر(Iyengar)کانام پڑھا جو 1929ء میں اُس وقت کے سب سے بڑے اخبارہندوکے مدیر تھے اور جواہر لال کے والد پنڈت موتی لال نہرو کے ذاتی دوست ہونے کے علاوہ کانگریس کے چوٹی کے رہنمائوں میں شامل تھے۔ بڑی دھیمی طبیعت کے مالک تھے۔ سبزی خور، معتدل مزاج اور عوامی جدوجہد کے مخالف تھے۔ انگریز حکمران سے صلح صفائی کے ساتھ مکمل آزادی کے بجائے مکمل خودمختاری حاصل کرنے کے حامی تھے۔ انگریزی زبان پر اتنا عبور رکھتے تھے کہ سروجنی نائڈواورقائداعظم اُن کے مداحوں میں شامل تھے۔ موصوف کی یاد اس لیے آئی کہ 20 اگست کو دنیا میں یوگا کے سب سے بڑے اور عالمی شہرت رکھنے والے اُستادکا 95 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ برطانیہ کے ہر اچھے اخبار میں اُن کی تصویر اور تعارفی مضمون شائع ہوا۔ اُن کا پورانام تھا بیلٹر کرشنام چار سندر راجہ آئن گر۔ وہ بھی اپنے نام کی طرح جنوبی بھارت کی ریاست کرناٹک کے رہنے والے تھے۔ تیرہ بہن بھائیوں میں سے صرف انہی کو دولت، عزت اور شہرت ملی۔ اُن کے شاگردوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ گنوائی نہیں جا سکتی۔ اُن کی مثالی اور بے حدخوشگوار شادی کو ایک المیے نے ختم کیا۔ اُن کی بیوی صرف 46 سال کی عمر میں وفات پاگئیں۔ اُنہوں نے دوبارہ شادی نہ کی اور ساری توجہ یوگا کے مراکز بنانے اور چلانے پر مرکوزکر دی۔ میرے خیال میں ہمارے سیاسی رہنمائوں کو بھی یوگا کا وہ آسن ضرور سیکھ لینا چاہئے جس میں آپ کو سر کے بل دیر تک کھڑے رہنے کی تربیت دی جاتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں