بُلبُل اور شیرنی

ہم ہندوستان کی دو صدیوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں سروجنی نائیڈو (قائداعظم کی سب سے بڑی مداح) کی شخصیت کے روپ میں ایک بلبل کی دلکش آواز سنائی دیتی ہے۔ اس سے پہلے جھانسی کی رانی (جس نے پہلی جنگ آزادی میں قائدانہ کردار ادا کیا) کی صورت میں شیرنی دکھائی دیتی ہے۔ ہمارا ہمسایہ ملک ایران اس لحاظ سے خوش نصیب ہے کہ اُسے ثمین بہبہانی جیسی عظیم خاتون ملی جو بیک وقت بلبل اور شیرنی تھی۔ وہ 87 برس کی عمر پا کراگست کے وسط میں وفات پاگئیں۔ یورپ کے ہراچھے اخبار میں اُن پر تعزیتی مضامین شائع ہوئے۔ 
وہ ایران کی جانی پہچانی شاعرہ تھیں۔ اُنہوں نے حافظ، سعدی ، رومی اور دُوسرے کلاسیکی شاعروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے غزل کی اُن روایات کو زندہ کیا جوجدید شاعری کے طوفانِ بلاخیزکے تھپیڑوں سے حالت نزع میں تھیں۔ یہ تھا بلبل کہلانے کا جواز۔ وہ محض روایتی شاعرہ نہ تھیں کہ میر تقی میرکی طرح دُوسرے لوگوں کو جگانے اور عوامی شعورکی سطح بلند کرنے پر اکتفا کرتے ہوئے کہتیں :
مژگاں تو کھول‘ شہر کو سیلاب لے گیا
ثمین نے جب اپنی نیم بازآنکھ پوری طرح کھولی اورچاروں طرف نظر دوڑائی تو اُنہیں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر پامالی نظر آئی۔انہوں نے آنسو بہائے نہ ٹھنڈی سانسیں بھریں اور نہ اپنا دل جلایا بلکہ اپنی آستین چڑھائی اورمیدان عمل میںکود پڑیں۔ ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے کا جو مشکل ترین جہاد شروع کیا، وہ ساری عمر جاری رکھا۔ اس بہادرانہ مزاحمت نے اُنہیں شیرنی کا خطاب دلوایا۔ شاہ ایران کی حکومت ہو یا امام خمینی مرحوم کے جانشینوں کی ، ثمین نے کبھی جان کی امان نہ مانگی۔ سر پر باندھے ہوئے ریشمی رومال کو حق گوئی کا پرچم بنا لیا جو بیک وقت کفن بھی تھا۔ ایک ایسا کفن جو آپ ایک دفعہ ہمت کر کے سر پر باندھ لیں توآپ کوکوئی خرید سکتا ہے نہ دبا سکتا ہے نہ جھکا سکتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دُنیا سے چلے جانے تک اُنہوں نے ایران سے مفرور ہوکرکسی محفوظ جگہ پناہ لینے کے بارے میں سوچا تک نہیں۔ وہ مشاعروں میں حصہ لینے کے لئے ایران سے باہر جاتی تھیں تو ہر روز، ہر لمحہ اپنی خوبصورت انگلیوں پر بیتابی اور بے صبری سے دنوں اور گھنٹوں کو گنتی رہتیں کہ کب وطن عزیز واپس جائیں گی۔ فیض صاحب کی طرح اُن کا ایمان تھا کہ ''ہم دیکھیں گے‘‘۔ اُن کا پختہ عقیدہ تھا کہ جس طرح اہل یورپ نے صدیوں تک مطلق العنان بادشاہت کے منحوس سائے میں زندہ رہنے کا مشکل فن سیکھ لیا تھا لیکن پھر 1789ء میں انقلاب فرانس کے بعد یورپ میں بھی مساوات، انصاف اور انسانی حقوق کی مبارک صبح طلوع ہوئی تھی۔ 
ایران ( اور اُس کے ہمسایہ ممالک میں بھی) نقش کہن مٹائے جائیںگے،کاخِ اُمراء ہلائے جائیں گے، مرمرکی سلوں سے بیزار لوگ مٹی کا نیا حرم بنائیںگے۔ کنجشک فرومایہ کو شاہین سے لڑایا جائے گا، پیران کلیسا کوکلیسا سے اُٹھایا جائے گا، دہقان کو روزی نہ دینے والے کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلایا جائے گا، تاج اُچھالے جائیں گے، تخت ہلائے جائیں گے اور وہ سب کچھ ہوگا جس کی ہمیں فیض صاحب، حبیب جالب اور احمد فرازنے بشارت دی تھی۔ صدر اوباما نے 2011ء میں اہل ایران کو سال نو پر مخاطب کیاتو اُنہوں نے ثمین کی نظم کا ایک حصہ انگریزی میں سنایا۔ صدر اوباما نے کہا تھا کہ ثمین کو ایران سے باہر سفرکرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ( یہ بیان درست نہ تھا ) مگر اُن کی شاعری کی خوشبو دُنیا بھر میں پھیل گئی ہے۔
انسانی تہذیب فرزانہ سپلانی کی شکرگزار ہے جس نے ثمین کی فارسی شاعری کا انگریزی میں اُتنا ہی اچھا ترجمہ کیا جس طرح Fitzgerald نے عمر خیام کا، V.G.Kiernan نے فیض صاحب کا اور پروفیسرآربری نے اقبال کے شاہکار ''اسرار خودی‘‘ کا کیا تھا۔ فرزانہ کے الفاظ میں ثمین ایران کے ضمیرکی آواز تھیں۔ وہ تنگ نظری سے بالاتر تھیں اور نیلے آسمان پر اُڑنے والے پرندوں کی طرح آزاد خیال۔ 
ثمین کی والدہ فخر عظمیٰ آرغون خواتین کے حقوق کی معروف علمبردار تھیں اور والد عباسی خلیلی ایک اخبارکے مدیر تھے۔ ثمین نے بارہ سال کی عمر سے شعر کہنے شروع کر دیے تھے۔ چودہویں برس میں قدم رکھا تو اُن کی والدہ نے محمد تقی بہار (ایران کے ملک الشعراء) کو اُن کی ایک نظم بھیج دی جو ایران کے سب سے بڑے ادبی جریدے میں شائع ہوئی۔ اس شاندار نظم کا مطلع یہ تھا: ''اے میرے ملک کے فاقہ کشی اور ہمہ وقت ماتم کرنے والے لوگو! تم کب جاگوگے؟ اے اُفتاد گانِ خاک! اے راندۂ درگاہ! اے مظلوم اور مقہور لوگو! تم اپنی زنجیریں کب توڑو گے؟‘‘ لگتا ہے کہ نو عمر ثمین کے کانوں میں کسی غیبی طاقت نے حبیب جالب کی انقلابی نظم: ''دس کروڑ انسانو، زندگی سے بیگانو‘‘ کے الفاظ پھونک دیے تھے۔ ثمین کی نظم پڑھیں تو لگتا ہے موتی پروئے ہیں، پڑھنے والے کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔
ثمین بڑی ہوئی تو ایران کی کمیونسٹ (تودہ) پارٹی کی رُکن بن گئیں، کئی سال بطور نرس کام کیا۔ پہلی شادی طلاق پر ختم ہوئی تو قانون کی ڈگری حاصل کی مگر وکیل بن جانے کی بجائے ہائی سکول میں پڑھانا شروع کر دیا اورشعر کہنے لگیں۔ ان کے کلام کے کئی مجموعے شائع ہوئے۔۔۔۔۔ستار شکستہ، جائے پا، فانوس، مرمر اور رستا خیزجو سبھی مقبول ہوئے۔
اُن کی عالمی شہرت نے اُنہیں گرفتاری اور جیلوں میں لمبی قید سے بچائے رکھا، لیکن آپ کے لئے یہ اندازہ کرنا ہرگز مشکل نہ ہوگا کہ ثمین کی باغیانہ، انقلابی، عوام دوست اور ایران کی حکومت پر ناقدانہ شاعری حکمرانوں کی پیشانیوں پرکتنے بل ڈالتی ہوگی؟ ثمین کی شاعری کے دُوسرے مجموعوں کے نام خطِ رفتار و آتش، دشت ارزمان، کاغذی پیرہن اور دریچہ آزادی۔ اُن کے افسانوں کے دو مجموعے اور خود نوشت کی تین جلدیں بھی شائع ہوئیں۔
2009 ء میں احمدی نژاد کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے خلاف جو بڑے عوامی مظاہرے ہوئے، ثمین نے اُن میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بدکاری کے جرم میں ایک خاتون کو سنگ باری سے ہلاک کر دیے جانے کی سزا سنائی گئی تو ثمین نے دھرنا دے کر زبردست احتجاج کیا۔ اُن کی نظمیں ایران کے جس بھی اخبار یا رسالے میں شائع کی جاتیں اُس پر مذہبی رہنمائوں کا عتاب نازل ہوتا۔ شکر ہے کہ شاعرہ کو اُن کی عالمی شہرت نے ہمیشہ محفوظ رکھا۔ ثمین کو دو بار نوبل ادب انعام کے لئے نامزد کیا گیا مگر افسوس کہ وہ یہ حاصل نہ کر سکیں۔ بدقسمتی سے ثمین کے دُوسرے شوہر (منو چہر کوثر )کو 20 برس پہلے موت نے اُن سے جدا کر دیا۔ اُن کے پس ماندگان میں تین بچے، چھ پوتے پوتیاں اور تین پڑپوتوں کے علاوہ ایران میں اُن کے لاکھوں مداح شامل ہیں۔
آپ یقیناجانتے ہیں کہ ایران کے تمام بے مثال غزل گو کلاسیکی شعراء مرد ہوتے تھے۔ اُن کی غزلوں کی مخاطب خوبصورت خواتین ہوتیں یا نو عمر لڑکوں سے جذبہ محبت بلکہ عشق کا اظہار ہوتا تھا۔ غالب کی طرح ثمین نے اس روایت کوآگے بڑھایا مگر فیض اور فرازکی طرح استعاروں کی مدد لے کر اُنہوں نے انقلابی خیالات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور ایران میں شاعری کی کایاپلٹ دی۔ یہ اُن کا سب سے روشن کارنامہ تھا جو رہتی دنیا تک ایران کا سب سے قیمتی تہذیبی سرمایہ بنا رہے گا۔
آخر میں ایک واقعہ سنیے اور مجھے اجازت دیجیے۔ ثمین ایران کے سخت گیر مذہبی رہنمائوں کے جاری کردہ نادر شاہی احکامات کے خلاف مظاہرہ میں شریک تھیں۔ حجاب برائے نام، سر کے بالوں کا صرف ایک چھوٹا حصہ ڈھکا ہوا، ہونٹوں پہ سرخی، آنکھوں میں کاجل۔ ایران کے نیم جنونی سپاہیوں (عوام کی سالمیت اور نیک کرداری کے ٹھیکیداروں) نے مغربی لباس میں ملبوس اس خاتون کو اس حلیے میں دیکھا تواُن کی آنکھوں میں خون اُترآیا۔ وہ شدید غصے کے عالم میں اُن کی طرف بڑھے تاکہ اُنہیں گرفتارکر لیں۔ کئی لوگ آگے بڑھے اور پولیس کو بتانے لگے کہ آپ نہیں جانتے کہ یہ کون ہیں؟ یہ ثمین ہیں۔ پولیس پر اُن کے نام کا کوئی رُعب نہ پڑا تو ایک شخص پکارا: اگر آپ انہیں ہاتھ لگائیں گے تو میں موقع پر اپنے آپ کو آگ لگا کر مرجائوں گا۔ یہ دھمکی کا رگر ثابت ہوئی مگر یہ ثمین کوپولیس کے چند ڈنڈے کھانے سے نہ بچا سکی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں