اسلامی اور یورپی سلطنتیں

اس کالم نگار کی طرح جو لوگ عالمی تاریخ پرگہری نظر نہیں رکھتے، اپنی سادہ لوحی میں یہی سمجھتے ہیںکہ 1980ء کی دہائی میں جس طرح امریکی سامراج نے افغانستان کے میدان جنگ میں اپنے سب سے بڑے حریف رُوسی سامراج کو شکست دینے کے لئے مسلح مزاحمت کو جہاد کہا اور اس میں حصہ لینے والے سپاہیوں کو مجاہدین کا نام دیا تھا، اس کار خیر میں صدر جنرل ضیاء الحق نے اُن کے دست راست کے طور پر بھرپورکردار ادا کیا تھا۔ یہ تاریخ میں پہلی بار ہوانہ آخری بار۔ پچھلے دنوں پہلی جنگ عظیم کی سو سالہ تقریب یورپ بھر میں دھوم دھام سے منائی گئی۔کیمبرج یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں نامی گرامی پروفیسر ڈیوڈ موٹاڈرکا خصوصی لیکچرتھا۔کیمبرج شہر لندن کے شمال میں صرف ایک گھنٹہ کی ڈرائیونگ کے فاصلے پر ہے۔ لیکچر جمعہ کی شام کو تھا، ہفتے کو سرکاری چھٹی ہوتی ہے اس لیے مجھ پر وکالت کی ذمہ داری کابوجھ نہیں ہوتا؛چنانچہ جمعے کی شام برق رفتار ٹرین پر سفر کرتا ہوا علم کے چشمے کی طرف بھاگا۔ فاضل پروفیسر کی ایک کتاب اس سال کے شروع میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کی ہے، نام ہے Islamic and The European Empires ، یورپ کے علمی حلقوں میں ابھی اس کتاب کے اعلیٰ تحقیقی معیار کی تعریف میں بلند بانگ آوازوں کی بازگشت سنائی دے رہی تھی کہ اس سال کے آخر تک ان کی دُوسری کتاب شائع ہو جائے گی۔ اس کتاب کا نام Islam and Nazi Germany ہے جسے ہارورڈ یونیورسٹی پریس شائع کرے گا۔ آپ اس سے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یورپ میں دانشوروں کی تعداد کتنی زیادہ ہے؟ یہ دانشور ہر سال کتنا تخلیقی اور تحقیقی کام کرتے ہیں؟ اور ان کے کام کا معیار اتنا بلند ہوتا ہے کہ دُنیا کی چوٹی کی یونیورسٹیاں انہیں شائع کرنا اپنے لئے باعث اعزاز و افتخار سمجھتی ہیں۔
آیئے اب ہم پروفیسر صاحب کے لیکچر کی طرف چلیں ۔ ایک بڑے ہال میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، کافی لوگوں نے لیکچرکھڑے ہوکر سنا۔ میرا بڑھاپا میرے کام آیا، نوجوان طالب علموں نے میرے لیے نشستیں خالی کر دیں، اس طرح مجھے دُوسری قطار میں اچھی جگہ مل گئی۔ لطیفہ یہ ہے کہ پہلی قطار میں سب نشستیں خالی تھیں اورآخر تک خالی رہیں۔ آداب کا تقاضا یہ ہے کہ جب لوگ ہال میں آتے ہیں تو پہلی قطارکی نشستوں پر قابض نہیں ہوتے،اُنہیں دیر سے آنے والے اساتذہ اور معزز مہمانوں کے لئے خالی رکھا جاتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ آداب لکھے نہیں جاتے، صرف ملحوظ رکھے جاتے ہیں۔
گیارہ نومبر 1914ء کو بدھ کا دن تھا جب سلطنت عثمانیہ کی فوجیں جرمنی اور اس کے اتحادیوں کی صف میں شامل ہو کر میدان جنگ میں اُتریں۔ استنبول میں خلافت کے سب سے بڑے دینی رہنما کا نام شیخ الاسلام ürgüplü hayri (اورغوبلوخیری)تھا۔ اُنہوں نے پانچ فتوے جاری کئے جن کے مطابق ہر مسلمان کا فرض تھا کہ وہ برطانیہ اور اُس کے اتحادیوں کے خلاف جہاد کرے، جو مجاہدین جہاد میں لڑتے ہوئے مارے جائیں وہ شہید کا درجہ پائیں گے۔ دو دن بعد یہ فتوے استنبول کی تمام بڑی مساجد کے باہر نمازیوں کو پڑھ کر سنائے گئے۔ شیخ الاسلام خیری کے جاری کردہ فتووں کو خلیفہ محمد پنجم کی تائید حاصل تھی۔ ان فتوئوں کا عربی، فارسی، اُردو اور تاتاری زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ جب لندن، پیرس اور اُس وقت روس کے دارالحکومت سینٹ پیٹرز برگ میں جہاد کے اُن فتوئوں کے جاری کرنے کی خبر پہنچی تو وہاں پریشانی اور اضطراب کی کتنی بڑی لہر اُٹھی ہوگی۔ ان فتوئوں کا انوکھا پہلو یہ تھا کہ وہ روس، برطانیہ، فرانس، دو بلقانی ریاستوں (مانٹی نیگرو اورسربیا)کے باشندوں کے خلاف اعلان جہاد تھے مگر سلطنت عثمانیہ کے دو عیسائی اتحادیوں (جرمنی، آسٹریا اور ہنگری سلطنت) کے بارے میں خاموش تھے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اعلان جہاد نے ایمان رکھنے والوں اورکافروں کے درمیان لکیرکھینچنے کی بجائے سلطنت عثمانیہ کے دوستوں اور دُشمنوں کے درمیان امتیاز برتا۔گزشتہ ایک صدی میں ہونے والی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ دراصل جرمنی کی حکومت نے سلطنت عثمانیہ کوترغیب دی کہ وہ جہاد کے اعلان کا حربہ 
استعمال کرکے کروڑوں مسلمانوں کو جرمنی اور سلطنت عثمانیہ سے لڑنے والوں کے خلاف مسلح کارروائی اور جدوجہد پر تیارکرے۔ اُس وقت جرمنی کے بادشاہ کو قیصرکہا جاتا تھا۔ جہاد کے نظریہ کو سیاسی مصلحت سے جوڑنے کا خیال سب سے پہلے قیصرکوآیا۔ جرمنی کی فوجوں کے جنرل سٹاف کے سربراہ Helmuth Von Moltke نے اس بات کو آگے بڑھایا اور اُس کے حکم پر 136صفحات پر مشتمل ایک دستاویزلکھی گئی اور پھر اُسے شائع کر کے لاکھوں کی تعداد میں تقسیم کیا گیا۔ اس کا نام تھا Memorandum on the Revolutionising of the Islamic Territories of our Enemies (ہمارے دُشمنوں کے مقبوضہ علاقوں کی مسلمان آبادی میں انقلابی رُوح کی بیداری) پہلی جنگ عظیم کے شروع ہونے سے دو ماہ پہلے یہ دستاویز لکھی اور ایک ماہ قبل چھپ کر دنیا بھر میں تقسیم بھی ہو چکی تھی۔ سرزمین حجاز میں رہنے والے بدو قبائل سے لے کر سوڈان کے جنگلوں، لبیا کے صحرائوں (خصوصاً امام السنوسی کے پیروکاروں) اور مصرکے میدانوں تک۔ یہ اعلان جہاد لبیا میں موثر ثابت ہوا۔ جہاں سنوسی قبائل نے مصر میں برطانوی فوج پر بھرپور حملہ کر دیا اور اُس حملہ کو بمشکل ناکام بنایا گیا۔ 1915ء کے شروع میں جرمنی کا ایک سرکاری وفد اس فتوے کو لے کر عراق گیا اور وہاں نجف اور کربلاکے مقدس شہروں میں شیعہ دینی رہنمائوں (مجتہدین)کو ملا مگر اس کی چنداں ضرورت نہ تھی چونکہ وہ پہلے ہی (سنوسی عقیدہ کے علمبردار ہونے کو نظر انداز کر تے ہوئے) سلطنت عثمانیہ کی حمایت کا فیصلہ کر چکے تھے۔ دو غیر معمولی لمبے ناموں والے جرمن جاسوس Ritter Von Niedermayer اور Oskar Werner Otto Von Hentig افغانستان جا پہنچے مگر وہاں ان کی دال نہ گل سکی اور نہ وہ ہندوستان کے شمال مغربی سرحدی صوبہ (پختونخوا) تک رسائی حامل کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ جہاد کے مذکورہ فتووں کو یقینا بڑی محنت اور توجہ اور مذہبی جوش و خروش سے تیار کیا گیا مگر وہ مطلوبہ نتائج برآمد کرنے میں برُی طرح ناکام رہے۔ سلطنت عثمانیہ کا چراغ ٹمٹما رہا تھا اور دُنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں خلیفہ کے لئے عقیدت کا جذبہ اتنا مدہم پڑھ چکا تھا کہ اس کا جہاد کا فتویٰ اُنہیں اپنے حکمرانوں کے خلاف مسلح اور پرتشدد جدوجہد شروع کرنے پر مائل نہ کر سکا۔ رُوسی حکومت نے جوابی کارروائی یہ کی کہ جرمنی اور اُس کے اتحادیوں کے خلاف اپنے سب سے بڑے اسلامی رہنما Mufti of Orenburg سے فتوے جاری کرالیے۔ انگریزوں نے فتوے بازی کے مقابلوں میں حصہ لینے کی بجائے عملی کارروائی کی جس نے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ عالمی سیاست کا نقشہ بدل دیا۔ Lawrence of Arabia نے حجازکے سب سے اہم حکمران (شریف مکہ جس کا نام حسین ابن علی تھا) کوگانٹھ لیا اور اس کے ذریعہ مشرق وسطیٰ میں سلطنت عثمانیہ کا بوریا بستر لپیٹنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ لارنس نے عرب قومیت کو اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرکے خلافت کے بے حد کمزور پلیٹ فارم پر اسلامی وحدت کی جو برائے نام عمارت کھڑی کی تھی، اُسے مسمارکر دیا اور وہ بھی اسے بے دردی اور بربریت اور سفاکی سے کہ اقبالـؔ نے مسلمانوں کے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے اور اُن کے بجھے ہوئے دلوں میں اُمید کا چراغ روشن کرنے کے لئے لکھا کہ اگر عثمانیوں پرکوہ غم ٹوٹا تودُنیا بھرکے مسلمان زیادہ پریشان اور دل گرفتہ نہ ہوںکہ ع
خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
دجلہ و فرات میں بہت سا پانی لہوکر بہہ چکا۔ سو سال گزر چکے ہیں۔ اقبالؔ کی پیش گوئی درست ثابت ہو رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں پھر سحر طلوع ہو رہی ہے۔ وہاں خلافت کا چاند پھر اُفق پر اُبھر رہا ہے۔ برطانیہ اور امریکہ کی حکومتیں آج پھر مسلمانوں سے اتنی ہی خوفزدہ ہیں جتنی سو سال قبل تھیں۔ تاریخ اپنے آپ کو پھر دہرا رہی ہے۔ اس نئی تاریخی رزم آرائی میں مغربی سامراج کو پھر شکست ہو گی جو 40 سال پہلے ویت نام اورگزشتہ دس برسوں میں افغانستان میں ہونے والی شکست سے بھی بڑی ہوگی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں