دلچسپ اشتہار اور کتاب

جس وقت یہ کالم میرے قارئین پڑھیں گے ، اُس سے دو ہفتے پہلے برطانیہ نہیں، یورپ نہیں بلکہ دُنیا بھر کے سیاسی منظر نامہ پر ایک انوکھا ،دلچسپ اور فکر انگیز واقعہ رونما ہو چکا ہوگا۔ ان دنوں برطانیہ کا معتبر اور موقر روزنامہ گارڈین اُٹھائیں تو پورے صفحہ پر ایک اشتہار ہر پڑھنے والے کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ یہ اشتہار کیا ہے؟ ایک بڑے مشہور فنکار(جو طربیہ پروگرام کر کے ناظرین اور سامعین کو اپنی ظرافت سے ہنسانے کا ماہر ہے) Russell Bramd کی تصویر (جو چوتھائی صفحہ لے جاتی ہے) کے نیچے لکھا ہوتا ہے ''ہمارابوسیدہ اور فرسودہ نظام ناکام ہو چکا ہے۔حکومت کی نااہلی سیاست دانوں کی عوام دشمنی اور کاروبار حکومت پر بڑے بڑے سرمایہ داروں کے غلبہ پالینے کے بعد انقلاب نہ صرف ہمارے مسائل کا واحد حل ہے بلکہ ناگزیر ہو چکا ہے۔ ‘‘( 25 اکتوبر کو فنکار انقلاب کے موضوع پر لکھی گئی یہ کتاب ان دنوں برطانیہ میں سب کتابوں سے زیادہ فروخت ہو رہی ہے) یہ فنکار لندن میں ایک بہت بڑے اجتماع سے خطاب کر کے اپنا موقف بیان کرے گا اور اس کی تقریر برطانیہ کے طول و عرض میں دو سو سینما گھروں میں ایک لاکھ لوگ سن سکیں گے۔ یہ ہوتا ہے نشان اِمتیاز زندہ قوموں کا۔ غور فرمایئے کہ بوسیدہ اور فرسودہ نظام ہمارا ہے اور ہم ہیں کہ مجرمانہ غفلت کا شکار ہو کر اس سے آنکھیں بند کئے وقت گزار رہے ہیں اور اہل برطانیہ کو ایک فنکار یہ بتا رہا ہے کہ اُن کا نظام حکومت بوسیدہ ہو چکا ہے۔ اور انقلاب برطانوی سیاست کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ 
میں اتنی سطور لکھ چکا تھا کہ مجھے ایک برُی خبر ملی کہ لندن سے دو سو میل دور بلیک برن نامی شہر میں ایک پرانے دوست (جنہوں نے47 سال پہلے میری اُس وقت میزبانی کی تھی جب میں اپنے بال بچوں کے ساتھ برطانیہ آباد ہونے آیا تھا) طویل اور تکلیف دہ بیماری کے بعد وفات پا گئے۔ میں سارے کام کاج چھوڑ کر بلیک برن کے مقامی قبرستان گیا تاکہ فاتحہ پڑھ سکوں۔ پھولوں اور خوبصورت درختوں میں گھرے ہوئے قبرستان کا منظر اتنا دلفریب اور دلکش تھا کہ پاکستان کا کوئی پارک اس مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ برطانیہ میں مسلمان زندہ تو انگریزوں کے ساتھ رہتے ہیں، گلی محلے بھی ایک اور کام کرنے کی جگہ بھی ایک مگرمرنے کے بعد اُنہیں انگریزوں کی قربت اچھی نہیں لگتی۔ جب مسلمانوں نے اصرار کیا کہ ہم نہیں چاہتے کہ بعد از وفات انگریزوں کی ہمسائیگی میں رہیں تو مقامی آبادی نے ہمارے احساسات کا خیال کرتے ہوئے اور ہمیں دل آزاری سے بچانے کے لئے ہر قبرستان میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ قطعہ زمین مخصوص کر دیا۔ برطانیہ بھر میں اس کام کی ابتداء بلیک برن سے ہوئی۔ اُنیسویں اور بیسویں صدی کے نصف تک لنکا شائر کپڑے کی صنعت کے لئے دُنیا بھر میں مشہور تھا۔ برطانیہ کی آب و ہوا میں روئی کا ایک پھول بھی نہیں اُگتا۔ ساری روئی ہندوستان اور جزائر الغرب الہند سے منگوائی جاتی تھی۔ بلیک برن اور اُس کے گردو نواح کے شہروں میں دن رات چلنے والی فیکٹریاں اس روئی کو کپڑے میں تبدیل کرتی تھیں اور پھر یہ کپڑا اُنہی ممالک کو برآمد کر دیا جاتا تھا جہاں سے روئی درآمد کی جاتی تھی۔ مہاتما گاندھی نے برطانوی راج کے خلاف اپنی طویل اور پرُامن تحریک (جسے سیتہ گرہ کہتے تھے) شروع کی تو سب سے پہلے برطانیہ میں بنے ہوئے کپڑے کے بائیکاٹ کی ملک گیر مہم چلائی اور ہندوستانیوں کو کھدر کا مقامی کپڑا استعمال کرنے پر مائل کرنے کے لئے خود بھی چرخہ کاتا۔ وہ مہاتما بن جانے کے بعد جب بھی برطانیہ آئے، اپنی بکری (جس کا دُودھ اُن کے ناشتہ کے کام آتا تھا) اور چرخہ ساتھ لائے۔ لنکا شائر گئے تو بکری ہم رکاب تھی۔ بلیک برن پہنچے تو انگریزمزدوروں نے ان کا اتنا پرُ جوش استقبال کیا کہ شہر کی ٹریفک رُک گئی۔ گاندھی مخالف اخباروں (جس کا مطلب ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان ڈیلی ورکر کے علاوہ باقی سب اخباروں) نے اپنے قارئین کو سمجھانے کی کوشش کی کہ گاندھی نامی شخص انگریز مزدوروں کا سب سے بڑا دُشمن ہے ،وہ اُن کے بنائے کپڑے کی خریداری کے بائیکاٹ کی مہم چلا کر اُن کی فیکٹریاں بند کرانا چاہتا ہے اور اُنہیں بیروزگار بنانے پر تُلا ہوا ہے۔ مگر یہ پروپیگنڈا گاندھی جی کے زبردست استقبال کے رنگ میں کوئی بھنگ نہ ڈال سکا۔ بلیک برن کے مقامی عجائب گھر میں جو سب سے بڑی تصویر آویزاں ہے وہ ایک دھوتی پہنے ہوئے (گھٹنوں سے اوپر باندھی ہوئی )، لاٹھی ٹیک کر چلتے ہوئے، نحیف نزار، مسکراتے اور ہاتھ ہلاتے شخص کی ہے جو استقبالی نعرے لگانے والے ہجوم سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے کہ میں آپ کے لئے ہندوستان کے محنت کشوں کی طرف سے محبت، دوستی اور خیر سگالی کا پیغام لایا ہوں۔ زمانہ بدل گیا۔ نہ گاندھی رہے اورنہ اُن کاعدم تشدد کا نظریہ۔ ہندوستان میں مسلمان اقلیت پر تشدد کرنے والی سیاسی جماعت اقتدار پر قابض ہو چکی ہے۔ تاریخ کے جبر نے جواہر لال نہرو کی کرسی پر نریندر مودی کو بٹھا دیا ہے۔ پھر صرف بلیک برن نہیں بلکہ سارے لنکا شائر میں کپڑے کی ہر ایک فیکٹری بند ہو چکی ہے۔ ان میں کام کرنے کے لئے جوہزاروں پاکستانی اور ہندوستانی کارکن آئے تھے وہ وفات پاکر اُن قبرستانوں میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ جن میں سے ایک میںلندن سے جانے والا ایک بوڑھا شخص اپنے عزیز دوست کی قبر کی پائنتی کھڑا دُعائے مغفرت مانگ رہاتھا۔ 
مانچسٹر میں ایک عزیز میزبان کی کتابوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے میں نے ایک ایسی کتاب دیکھی جس کا ذکر تو پہلے سنا تھا مگر پڑھنے کا موقع نہ ملا تھا۔ کتاب کا نام تھا ۔Secrets of Empire ۔مصنف کا نام یاد نہیں۔ موضوع برطانیہ کے جاسوسی اداروں کے کارنامے اور کارگزاری ہے۔ ملک کے اندر انٹیلی جنس کے ادارہ کا نام MI5 اور غیر ممالک میں جاسوسی کرنے والے محکمہ کا نام MI6 ہے۔ میں نے کتاب کے آخر میں اشاریہ دیکھ کر ہر وہ صفحہ پڑھ لیا جس کا تعلق پاکستان سے تھا۔ کتاب کے دُوسرے صفحہ پر ہی چونکا دینے والا انکشاف درج تھا کہ جب اگست 1947 ء میں ہندوستان کا بٹوارہ ہوا تو برطانیہ کے جاسوسی ادارہ کے دفاتر دہلی سے منتقل نہ ہوئے۔ پاکستان کے پہلے (اور یقینا مغرب نواز) وزیراعظم لیاقت علی خان کو اس بات کا پتہ چلا تو وہ اُس وقت تک چین سے نہ بیٹھے جب تک اُنہوں نے کراچی (جو اس وقت پاکستان کا دارالحکومت تھا) میں برطانیہ کے جاسوسی ادارہ ( MI6 ) کا مقامی دفتر نہ کھلوالیا۔ اُنہوں نے برطانوی وزیراعظم کو خط لکھ کر یہ درخواست کی کہ اُن کے نوازئیدہ ملک کو برطانوی حکومت کے جاسوسی ادارہ کے قیام کی نعمتوں سے محروم نہ رکھا جائے۔ مذکورہ بالا کتاب کے مصنف نے ہمارے پہلے وزیراعظم کے اس خط کی نقل پڑھ لی جو برطانوی حکومت کے سرکاری ریکارڈ میں محفوظ ہے۔ میرے قارئین لیاقت علی خان کی دُور اندیشی اور معاملہ فہمی کی جتنی بھی تعریف کریں وہ کم ہوگی چونکہ برطانیہ کے اس جاسوسی ادارہ نے ہی اُنہیں ان کے خلاف ہونے والی فوجی افسروں کی مبینہ Alleged(راولپنڈی) سازش کی خبر دی تھی، لیاقت علی خان فوجی افسروں کی سازش سے تو بچ گئے مگر پولیس کے بڑے افسروں (نجف خان اور قربان علی خان) اورمقتدر سیاست دانوں ( ملک غلام محمد اور مشتاق گورمانی)کی سازش سے محفوظ نہ رہ سکے اور راولپنڈی جلسہ عام میں تقریر شروع کرتے ہی قتل کر دیئے گئے ۔ اس باغ کا نام لیاقت باغ رکھ دیا گیا اور ہمارا نہ ختم ہونے والا سیاسی بحران شروع ہو گیا۔ 1951 ء میں بڑے سرکاری افسروں نے سیاست دانوں کو اپنی راہ سے ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کر لیااور صرف سات سال بعد فوجی افسروں نے سرکاری افسروں کی چھٹی کرا دی۔وہ دن اور آج کا دن، ایک مغربی میوزیکل چیئرزاس طرح شروع ہو گیا کہ بند ہونے کا نام نہیں لیتا۔ کرسیاں کم اور ان پر بیٹھنے والے زیادہ۔ لگتا ہے کہ اب یہ منحوس کھیل ختم ہونے کو ہے۔ ہماری نگاہیں پردہ اُٹھنے کی منتظر ہیں۔ مشرق سے وہ سورج طلوع ہونے کو ہے جس کی بشارت اقبال نے دی تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں