بہار آئے گی

31 اکتوبر کو لندن سے شائع ہونے والے معیاری اور معتبر اخبار گارڈین نے شاہد نذیر (عرف گلو بٹ) کی تصویر کے ساتھ اُس کا مفصل سوانحی خاکہ اور بہت سی کاروں کے شیشے توڑنے کے جرم میں گیارہ سال قیدکی سزا پانے کی خبر نمایاں طور پر شائع کی۔ ہماری اسلامی فلاحی مملکت ،زوال کے مختلف مدارج طے کرتے ہوئے جس منزل پر آپہنچی ہے،گلو بٹ اُس کی ایک علامت ہے۔ ہر دور میں کوئی نہ کوئی شخص ملک کی علامت بن جاتا ہے۔ ایک دور سرسید ،حالی اور اُن کے ساتھیوں کا تھا، یہ اُنیسویں صدی تھی۔ بیسویں صدی میں قائداعظم ، علامہ اقبال، بہادر یار جنگ، حسرت موہانی مسلمانوں کی سیاست کی علامت بنے۔ ہندوستان کی عوام دوست، قوم پرست اورفرقہ پرستی کی منحوس دلدل سے بالاتر سیاست نے علی برادران، سروجنی نائیڈو اور سبھاش چندر بوس کی شکل میں جنم لیا۔ کانگریسی سیاست مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو اور ابوالکلام آزاد سے شروع ہوئی مگر ہندوستان آزاد ہونے کے وقت تک باگ ڈور ولبھ بھائی پٹیل کے تنگ نظرانہ مہاسبھائی ہاتھوں میں آگئی۔ آج نریندر مودی اسی شرمناک روایت کی تازہ ترین علامت ہے۔شخصیات کی انفرادیت اور اہمیت سے انکار ممکن نہیں مگر وہ تاریخ پر اتنے اثر انداز نہیں ہوتے جتنی تاریخ اُن کو متاثر کرتی ہے۔ 
سوچنے کی بات یہ ہے کہ دس بیس سال پہلے گلو بٹ ہمارے اجتماعی منظر نامے پرکیوں نہیں اُبھرا ؟ یہ موسم خزاں ہے، پت جھڑ کا موسم۔۔۔۔۔ کلیاں اور شگوفے بہار میںکھلیںگے، چند ماہ انتظار کرنا ہوگا مگر موسم بہار آئے گا ضرور۔ فیض صاحب نے بار بار اس کی پیش گوئی کی تھی۔ جب وہ کہتے ہیں '' لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے ‘‘ تو اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہوتی۔وہ وقت جس کے خواب دیکھتے ہی ایک نسل نہیں بلکہ کئی نسلیں دُنیا سے چلی گئیں۔ اُس بھلے وقت کے آنے میں ابھی کچھ دیر ہے۔ فی الحال ہم گلو بٹ کو دیکھیں گے اور اُس کی سلطان راہی ٹائپ مونچھوں کو۔ کاروں کے ٹوٹتے ہوئے شیشوں کی کرچیوں کو بکھرتے دیکھ کر اور یہ سوچ سوچ کر کڑھتے ہوئے کہ شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں۔ ہے تو ضرور مگر مسیحا اُس وقت خود اس قدر نحیف و نزار ہے کہ شیشوں کی حفاظت نہیں کر سکتا۔ لشکریاں شکستہ صف ہیں۔ خیموں کی طناب ٹوٹی ہوئی ہے۔ متاع غرور کا سودا ہو چکا ہے اور اس کے سوداگر ہمارے حکمران ہیں۔ 18کروڑ لوگ 159کھرب (سو کروڑ کا ایک ارب اور سو ارب کا ایک کھرب) روپے کے مقروض ہیں۔ موقر برطانوی ادارہ Oxfam کی حالیہ رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کے اراکین کی اوسط سالانہ آمدنی نوکروڑ روپے ہے اور اُن کی اکثریت کوئی ٹیکس نہیں دیتی۔ چند ہفتے پہلے عید قربان کے موقع پر (قومی خزانہ میں سے قربانی دیتے ہوئے) ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم کے ملازموں کو31 کروڑ روپے کی عیدی دی گئی۔آیئے اب ہم دُنیابھر میں ایک طائرانہ نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ ان دنوں کہاں کہاں جمہور نے سلطانی جمہور کا حق استعمال کیا اوراُس کا کیا نتیجہ نکلا؟
لاطینی امریکہ کے براعظم کا دو تہائی حصہ برازیل پر مشتمل ہے جو ایک اُبھرتی ہوئی عظیم معاشی قوت ہے۔ یورپ کے دائیں بازو کے اخباروں کے لئے ماہ اکتوبر کا آخری ہفتہ بہت برا گزرا چونکہ انہیں پے در پے کئی صدمے اُٹھانے پڑے۔ ابھی وہ ایک برُی خبر کے صدمہ سے نڈھال تھے کہ اُنہیں ایک اور بری خبر ملی۔ابھی وہ اس سے سنبھلنے نہ پائے تھے کہ تیسری برُی خبر ملی۔ ان دائیں بازو کے عوام دُشمن اور Status Quoکے حامیوں اور مغربی سامراجیت کے علمبرداروں کے لئے جو خبر برُی تھی وہ یقینا اُس ملک کے عوام کے لئے بے حد اچھی تھی۔ مذکورہ بالا خبریں تین ممالک سے موصول ہوئیں۔ برازیل، تیونس اور زیمبیا (Zambia )سے۔ میں ان کا باری باری تذکرہ کروں گا۔
برازیل میںDilma Rousseffاور ان کی بائیں بازو کی ورکرز پارٹی بمشکل جیتی۔ Dilma نے دُوسری بار صدارتی انتخاب جیتا۔کامیابی کیوں ملی؟ گزشتہ چار برسوں میں بے روزگاروں کی تعداد میں جتنی کمی ہوئی وہ برازیل کی تاریخ کا نیا ریکارڈ تھا۔ مزدوروں اور کارکنوں کی اُجرتوں میں افراطِ زر کے حساب سے مناسب اضافہ کیا گیا۔امیروں اور غریبوں کے درمیان عدم مساوات کی خلیج کا طول و عرض نمایاں طور پر کم ہوا۔ خاتون صدر نے اپنی پہلی تقریرمیں کہا کہ اُن کے انتخاب کا مطلب ہے تبدیلی، اصلاحات، حزب اختلاف سے مکالمہ اور قومی اتفاق رائے۔ Dilma کی کامیابی کی خبر نشر ہوتے ہی بڑی کمپنیوں میںکھاتے داروں کے Shares کی قدر کم ہو گئی۔سٹاک مارکیٹ میں صف ماتم بچھ گئی۔ برازیل کے سرمایہ داروں کے یورپی سرپرستوں اور حصہ داروں کی مایوسی اور دل گرفتگی یہاں کے اخباروں کے صفحہ اول کی زینت بنی۔ جن کے ارمانوں پر اوس پڑی اُن کی آنکھیں پرُنم ہو گئیں مگر برازیل کے افتادگانِ خاک نے جشن منائے، گیت گائے ،رقص کئے اور اپنی اُمنگوں کی ترجمان خاتون صدر کو یہ بتایا ع ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
برازیل میں اتنے زیادہ لوگ اتنے عرصہ سے اتنی غربت کا شکار رہے ہیں کہ اُنہیں غربت کے شکنجہ سے نکالنا اور برازیل کو فلاحی مملکت بنانا بے حد مشکل کام ہے۔ منزل دور ہے اور سفر لمبا اور کٹھن ہے، مگر ایک چینی محاورہ (غالباً مائوزے تنگ کا قول ہے) کے مطابق سفر چاہے کتنا لمبا ہو شروع تو پہلے قدم سے ہوتا ہے۔ لاطینی امریکہ سے شمالی افریقہ چلتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ عرب بہار یعنی عرب دُنیا میں انقلابی تبدیلیوں کا سلسلہ 2011 ء میں تیونس سے شروع ہوا۔ تیونس میں اخوان المسلمین کی نظریاتی طور پر سگی بہن کا نام النہضہ پارٹی ہے۔ وہ 69 نشستیں حاصل کرکے الیکشن ہار گئی۔ اُس کے مقابلہ میں سیکولر ذہن کی سیاسی جماعتوں کا اتحاد(نام ہےs Nidaa Toune یعنی تیونس کی آواز) 217 میں سے 85 نشستوں پر کامیاب رہی۔ ہارنے والی جماعت نے خوش دلی سے الیکشن میں عوام کے کئے جانے والے فیصلہ کو تسلیم کر لیا۔ جیتنے والوں نے یہ اُمید ظاہر کی کہ وہ حزب اختلاف کے ساتھ مل کر قومی حکومت بنانے کے حق میں ہیں اور اس پر اپنے سابقہ حریفوں سے مذاکرات کریں گے۔ 
شمالی افریقہ سے وسطی افریقہ اتنا دُور نہیں کہ ہم وہاں کا سفر نہ کر سکیں۔ ملک کا نام ہے Zambia ۔یہ مو گابے کے زیر تسلط بدنصیب ملک Zimbabwe کا پڑوسی ہے۔ دُنیا بھر میں سب سے زیادہ تانبا اس ملک کی کانوں سے نکلتا ہے۔ کئی عشرے گزرے کہ اس ملک پر ایک ایسے آمر مطلق اور اُس کی بنائی ہوئی مافیا کا قبضہ تھا کہ یہ آمر دُنیا بھر میں King Cobra (جو سانپوں کا سردار ماناجاتا ہے) کے نام سے مشہور تھا۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس ملعون کو کیا بیماری تھی مگر اچھی خبر یہ ہے کہ یہی بیماری اُس کی ہلاکت کا موجب بنی۔ اکبر الٰہ آبادی نے مغرب زدہ نسل کا مذاق اُڑاتے ہوئے لکھا تھا ع کٹی عمر ہوٹلوں میں ، مرے ہسپتال جا کر
ایشیا اور افریقہ کے آمرانِ مطلق جب تک صحت مند ہوں، اپنے اپنے ملک کے عوام کا خون چوستے ہیںمگر اتنا خون چوسنا بھی اُنہیں موت سے نہیں بچا سکتا اور جب آخری وقت آجائے تو لندن کے ہسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں، جہاں سے اُن کا جنازہ اُٹھتا ہے۔ مذکورہ بالا اژدہا صفت آمر دنیا سے رُخصت ہوا تو کرسی صدارت خالی ہو گئی۔ اس پر نائب صدر کو بٹھایا گیا۔ یہ تو کوئی خاص بات نہیں، نائب صدر ہوتا ہی اس کام کے لئے ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ نائب صدر سفید فام ہے، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، کیمبرج یونیورسٹی سے علم معاشیات کا ڈگری یافتہ۔ افریقہ کی تاریخ میں پہلی بار ایک سفید فام جمہوری طریقہ سے سیاہ فاموں کے ملک کا صدر بنایا گیا ۔تاریخ کی ستم ظریفی ملاحظہ فرمایئے۔ صرف پچاس ساٹھ سال پرانی بات ہے جب سیاہ فاموں نے اپنے سفید فام آقائوں کے خیموں کی طناب کاٹ دی تھی اور اس کارروائی کو انقلاب کا نام دیا تھا۔ آج اہل مغرب غرور اور تکبر کے گھوڑے پر سوار ہیں۔ وُہ سیاہ فاموں کو غیر مہذب اور غیر ترقی یافتہ کہتے ہیں۔ مگر زیمبیا کے سیاہ فام عوام نے ایک سفید فام کو اپنا صدر مملکت بنا کر سیاسی شعور کے پختہ ہونے کا وہ ثبوت دیا ہے جس کی مثال یورپ میں نہیں ملتی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں