بیل اور ہاتھی

1927ء کا ذکر ہے، برطانوی راج اپنے عروج پر تھا۔ برصغیرکوآزادی مل جانے کا دُور دُور تک امکان نہ تھا ۔ انگریز حکمران گرمیاں پہاڑی مقامات ( شملہ، مری، دارجیلنگ) پرگزارتے جہاں اُن کی شامیں رقص کرتیں ، اپنا من پسند مشروب پیتے اور چین کی بنسری بجاتے ۔ مسلم لیگ اور نیشنل کانگرس کے درمیان اتنی گاڑھی چھنتی کہ دونوں باہمی مشورہ کرکے ایک ہی وقت ایک ہی شہر میں اجلاس منعقد کیا کرتیں تاکہ سیاسی کارکنوں اور قائدین دونوں کو اجلاس میں شرکت کی سہولت مل جائے۔ یہ تو ہم جانتے ہیں اور وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ مسلم لیگی تو یقیناً کانگرس کے سالانہ اجلاس میں شریک ہوتے تھے مگر میرا گمان یہ ہے کہ یہ ٹریفک یک طرفہ تھی چونکہ کانگرسی قائدین مسلم لیگ کے اجلاس کے قریب بھی نہ پھٹکتے ہوںگے۔ ہندوستان کی سیاسی تاریخ سے سرسری واقفیت کی وجہ سے ڈرتا ہوں کہ مذکورہ بالا بیان حقائق کے برعکس نہ ہو۔میں اپنی رہنمائی کے لئے مورخین کی رہنمائی کا طلب گار ہوں۔ 
میں دیانتداری سے سمجھتا ہوںکہ میرے اس کالم کو خود کلامی کے بجائے کالم نگار اور قارئین کے درمیان مکالمہ ہونا چاہئے۔ اسی لیے میں آپ کے ای میل ملنے پر خوش ہوتا ہوں۔ بشری کمزوری ہے کہ تعریف (چاہے وہ کتنی رسمی ہو ) انسان کا دل خوشی سے بھر دیتی ہے۔ افسوس کہ مجھ میں یہ کمزوری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ میں مصنوعی انکساری دکھانے کو کوئی خوبی نہیں سمجھتا مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ رب العزت کا شکر ادا نہ کریں جس کے فضل و کرم سے میری طرح کا ایک مسکین شخص اپنی وکالت یا تحریر یا تقریر کی وجہ سے کسی مبارک گھڑی داد و تحسین کے چند پھول سمیٹنے کے خوشگوار تجربہ سے دوچار ہوتا ہے۔
یہ کالم 1922ء سے شروع ہو اتھا، واپس وہیں چلتے ہیں۔ اُتر پردیش کے دارالحکومت لکھنو میں (جواُنیسویں صدی میں اودھ کی سلطنت کا بھی صدر مقام تھا) برطانوی فوج کی چھائونی آباد تھی۔ تیسری گورکھا رائفل کے ایک انگریز افسر کا نام کرنل John Thornton تھا۔ اس کے گھر بیٹا پیدا ہوا تو اُس کا نام رکھنے میں زیادہ مشکل پیش نہ آئی، باپ کے پہلے اورآخری نام کے درمیان مائیکل کے لفظ کا اضافہ کر دیا گیا۔ اس بچے کوبرطانیہ کے ایک اچھے پرائیویٹ سکول میں تعلیم دلوائی گئی۔ بچہ اکلوتا تھا اس لئے ناز ونعم میں پلا۔ بڑا ہوا تو باپ کی رجمنٹ میں کمیشن لے کر 1946ء میں (کرنل محمد خان کے الفاظ میں) نیم لفٹین بن کر سرگودھا چھائونی میں بطور افسر ملازمت شروع کردی۔ ایک سال گزرا تھا کہ اُس پر ایک بڑا بوجھ آن پڑا اور وہ تھا پناہ گزینوں کے قافلوں کی حفاظت کرنا اور اُنہیں حملہ آوروں کی قاتلانہ سرگرمیوں سے محفوظ رکھنا۔
مائیکل ترقی کرتے کرتے بریگیڈیئر کے عہدہ تک پہنچا۔ ملکہ برطانیہ سے بہادری کا تمغہ ۔۔۔۔ملٹری کراس حاصل کیا۔ پانچ نومبر 2014 ء کو 87 سال کی عمر میں دو بیٹوں، دو بیٹیوں اور بیوہ کو سوگوار چھوڑ کر جہان فانی سے رُخصت ہوا۔ ایک ایک لاکھ پناہ گزینوں کے قافلے پندرہ سے بیس میل لمبے ہوتے تھے اور ان کے محافظوں کی تعداد کتنی ہوتی تھی؟ زیادہ سے زیادہ اسّی۔ مائیکل کا کمال یہ تھا کہ اس نے ان مٹھی بھر محافظوں سے اس طرح کام لیا کہ وہ راستے میں ہونے والے حملوں کو ناکام بنا کر مہاجروں کو ہندوستان یا پاکستان کی سرحد عبورکرادیتے تھے۔ مائیکل کو خراج عقیدت پیش کرنے کا اعزاز برطانیہ کے سب سے معزز اخبار ٹائمزکو حاصل ہوا۔ تعریفی مضمون کے ساتھ جو بڑی تصویر شائع کی گئی وہ بیل گاڑیوں کے ایک قافلہ کی ہے۔ خوبصورت، محنتی، جفا کش بیل جو ادھر اُدھرتانک جھانک کرنے کے بجائے اپنی منزل پر نظریں جمائے مستقل مزاجی سے آگے بڑھتے نظر آتے ہیں۔ اس کٹھن سفر سے پہلے وہ اپنے مالکوں کی زمین پر ہل چلاتے ہوں گے، کھیتوں کو ہمو ار کرنے کے لئے سہاگہ کھینچتے ہوں گے، بار برداری کی ذمہ داریاں خاموشی سے ادا کرتے ہوں گے، کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لائے۔ پنجاب کے زود رنج کسانوں نے اُن کی سست روی سے ناراض ہوکر ان کی پیٹھ پر چھڑیاں بھی اکثر برسائی ہوں گی۔ جو برُا بھلا چارہ دیا جاتا ہوگا اس کو صبر و شکر سے کھالیتے ہوں گے۔ اس بندہ پروری میں دن گزار رہے تھے کہ تقسیم کے اعلان نے ان کے مالکوں اور اُن کے اہل خانہ کی جان خطرہ میں ڈال دی۔ چھکڑوں کو سواریوں اور ان کے سامان سے لادا گیا۔ یہی وفاشعار اور خدمت گزار بیل اُٹھ کھڑے ہوئے تاکہ سامان اور سواریوں کے بھرے ہوئے چھکڑوں کو کھینچ سکیں ۔
آپ کا یہ کالم نگار ان سیکڑوں ہزاروں بیلوں پر بہادری کے تمغات کی بارش کرتا ہے۔ یہ انعامات اُس نمی کی شکل میں ہیں جو ان بیلوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کی دل و دماغ پر نقش ہوجانے والی تصویر دیکھ کر میری آنکھوں میں اُبھر آئی ۔ نمی اتنی بڑھی کہ بیلوں کی جوڑیوں کی تصویر دھندلی نظر آنے لگی۔
مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب کا سیکڑوں میل کا سفر طے کر کے اپنے مالکوںکو حفاظت سے منزل تک پہنچانے والے بیلوں کے رُلا دینے والے تذکرے کے بعد اب ہم دہلی چلتے ہیں جس کی سڑکوں پر صدیوں سے ہاتھی خراماں خراماں چلتے اور جھومتے ہوئے گزرتے ہیں۔ ایک زمانے تک ہاتھی بادشاہوں کی سواری کے لئے استعمال ہوتے رہے۔ کئی بادشاہ تو اپنے ذاتی ہاتھیوں سے اور ہاتھی اپنے مالک سے اس قدر مانوس ہو جاتے تھے کہ یک جان دو قالب کا محاورہ ان پر صادق آتا تھا۔ ایک دُوسرے کی غیر حاضری میں کھانا نہیں کھاتے تھے۔ غالباً شاہجہان کے ہاتھی کے بارے میں مشہور ہے کہ بادشاہ کی تخت سے معزولی اور منظر عام سے ہٹ جانے کے بعد اس نے کھانا کھانے سے انکار کر دیا اور فاقوں سے مرگیا۔ہاتھی دہلی کے منظر نامہ کا ایک مستقل ، دلفریب اور شاندار حصہ ہیں۔ 27 اکتوبرکے گارڈین نے بین الاقوامی خبروں کے صفحے پر ہیرا (Heera)نامی ہاتھی کی ایک بڑی اور دلکش تصویر شائع کی۔ یہ ہاتھی دہلی میں وہی مقام رکھتا ہے جو ممبئی میں فلمی ستارے۔۔۔۔۔ ہر بڑی تقریب کا مرکزی کردار، سب کی نگاہوں کا مرکز۔ شادی بیاہ ہو، مندروں میں مذہبی تہوار یا بھارت کی قومی تقاریب ، ہیرا ہمیشہ ہیرو 
کے روپ میں سج دھج کر بڑے سکون اور وقارسے میلہ لوٹ لیتا ہے۔ مالک کا نام ہے رفیق احمد۔ گارڈین نے ہاتھی کی تصویر کے ساتھ اُس کے مالک کا انٹرویو بھی شائع کیا۔ رفیق کا تعلق اُس گھرانے سے ہے جو پانچ نسلوں سے ہاتھی پال کر اُنہیں دہلی کی سڑکوں کی زینت بنا رہا ہے۔ آپ یہ سمجھیں کہ ہاتھی صرف نمائش کے کام آتے ہیں اور سیاحوں کی دل بستگی کا باعث بنتے ہیں۔ وہ زیادہ وقت بار برداری کا کام کرنے میں گزارتے ہیں۔ ہاتھیوں اور ہمارے زیادہ تر سیاست دانوں میں یہ قدر مشترک ہے کہ اُن کے کھانے کے دانت اوراور دکھانے کے اور ہوتے ہیں ۔ ہاتھی اس لحاظ سے بدنصیب ہیں کہ ہر سال ہزاروں ہاتھیوں کو محض اس لیے ہلاک کر دیا جاتا ہے کہ اُن کے دکھانے کے دانت بہت سی آرائشی اور زیبائشی چیزیں بنانے میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان دنوں دہلی میں وہ ہاتھی جو لائسنس یافتہ ہیں (بار برداری کے لیے) اُن کی تعداد صرف آٹھ ہے۔ دہلی کے افسروں نے ہاتھیوں کے دریائے جمنا کے کنارے رہنے پر پابندی لگا دی ہے جہاں ہاتھیوں کو کھانے کے لئے سبزہ مل جاتا تھا۔ پیپل کے درخت کو ہندو مقدس سمجھتے ہیں اور غالباً اس کی مذہبی تہواروں پر پوجا بھی کی جاتی ہے۔ پیپل کے پتے ہاتھیوں کی مرغوب غذا ہیں اور ظاہرہے کہ ان کی یہ مرغوب غذا ہندوئوں کو سخت ناپسند ہے۔ دہلی کی سڑکوں پر پیدل چلنے اور سفر کرنے کے لئے جان ہتھیلی پر رکھنا پڑتی ہے۔ ان دنوں دہلی میں ایک جنگ لڑی جا رہی ہے۔۔۔۔۔ ہاتھیوں کے مالک اور مہاوت ایک طرف، دہلی کے حکام دُوسری طرف اور معصوم ہاتھی ان دونوں فریقوںکی جنگ میں گُھن کی طرح پس رہے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی آنکھیں جھپکتے، بڑے بڑے کان پھڑپھڑاتے اور باعث عذاب مکھیوں کو اُڑانے کے لئے دُم ہلاتے ہوئے، بول تو نہیں سکتے مگر یہ خیال اُن کے دل میں ضرور آتا ہوگا کہ اُن کا مستقبل کتنا تاریک ہے؟ اتنا تاریک کہ زندہ ہوں تو قیمت ایک لاکھ پڑے گی اور مر جائیں تو سوا لاکھ !کتنا اچھا ہو کہ یہ سُطور میرے قارئین کے دلوں میں صرف بیلوں کے لئے نہیں بلکہ ہاتھیوں کے لئے بھی نرم گوشہ پید اکردیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں