قابل تقلید مثالیں

باقی برطانوی اخباروں کی طرح گارڈین میں بھی سانحہ کوٹ رادھا کشن کی ذہنی سکون کو تباہ و برباد کرنے والی خبر تھی۔ (یورپ کے سارے اخباروں نے اس خبر کو نمایاں طور پر شائع کیا تاکہ ہماری چار دانگ عالم میں رُسوائی میں کوئی کسر نہ رہ جائے)یہ پہلی بار تو نہیں ہوا کہ کچھ افراد کوجھوٹے الزام پر بدترین تشدد کے بعد قتل کر دیا گیا۔ حکومت لاکھ کمیشن بنائے جب تک اصلاح معاشرہ کی تحریک مساجد سے شروع نہیں ہوتی اور اُس میں لاکھوں کروڑوں افراد شریک نہیں ہوتے اُس وقت تک گاہے بگاہے ہمارے وطن عزیز میں اس طرح کے المناک سانحے رونما ہوتے رہیں گے۔ ہم مڑ کر اپنی 67 سالہ تاریخ کو دیکھتے ہیں تو طرح طرح کے واقعات میں ایک قدر مشترک نظر آتی ہے۔ سانپ گذر جاتا ہے اور ہم لکیرپیٹتے رہ جاتے ہیں۔ مذہبی تنگ نظری، فرقہ واریت، مذہبی کٹڑپن اور انتہا پسندی۔ یہ ہیں وہ زہریلے سانپ جو ہم نے ماضی میں اپنی آستینوں میں پال کر اتنے بڑے کیے ہیں کہ اب وہ اژدہے بن گئے ہیں اور ہمیں ڈستے ہیں ۔ اس حوالے سے کئی واقعات کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ کوئی ایسے واقعات کے سدباب کے لیے آگے نہ بڑھا۔ صرف ایک موثر علاج ہے اور وہ یہ ہے کہ مساجد میں امامت کرانے اور اُن کے پیچھے نماز پڑھنے والے خود متحرک اور منظم ہو کر ایک نئے معاہدۂ عمرانی کی پابندی کرنے کا حلف اُٹھائیں۔ وہ اپنا ذہن بدلیں۔ ایک نئی تحریک چلائیں۔ مبارک اور روشن دور کا آغاز کریں تاکہ پاکستان اُس طرح کا ملک بن جائے جس کی اُمید قائداعظم نے اپنی گیارہ اگست 1947 ء کی تقریر میں دلائی تھی۔ ایک ایسا مہذب ملک جس میں مکمل مذہبی آزادی ہوگی اور سب مذاہب کو ماننے والے قانون کی نظر میں برابر ہوں گے۔ پاکستان اس لئے بنایا گیا کہ بنانے والے کی نظر میں متحدہ ہندوستان میں مسلمان بطور اقلیت کے کبھی اتنے محفوظ نہیں ہو سکتے جتنے وہ اپنے ملک میں اور اُن کے ملک میں رہنے والی ہر اقلیت ہر لحاظ سے محفوظ ہوگی۔ پاکستان بنانے کا مقصد اسے اسلام کا نہیں بلکہ اقلیتوں کا قلعہ بنانا تھا۔
میری طرح کے بوڑھے لوگوں میں ایک یہ کمزوری بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ بات شروع کہاں سے کرتے ہیں اور تان کسی اور جگہ (اور وہ بھی بہت دُور) توڑتے ہیں۔ آیئے واپس چلیں۔ یہ کالم شروع ہوا تھا گارڈین میں سانحہ کوٹ رادھا کشن کے بارے میں خبر سے۔ اس کے بارے میں میرے قارئین اس کالم نگار سے زیادہ معلومات رکھتے ہوں گے۔ میرے بتانے کی بات یہ ہے کہ گارڈین نے ایک پادری Bernard Kinri کی تصویر شائع کی جس نے یہ نیک کام کیا کہ ڈیڑھ ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کروائے جانے سے بچا لیا۔ ملک کا نام ہے وسطی افریقی جمہوریہ۔ صحرا میں بکھرے ہوئے مسلمان قبیلوں کے سروں پر قتل کی تلواربے نیام ہو گئی تو اس 32 سالہ نوجوان اور فرشتہ صفت پادری نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اُنہیں رات کی تاریکی میں باری باری محفوظ جگہ پہنچایا اور پھر وہاں سے پڑوسی ملک کیمرون میں۔ نہ ستائش کی تمنا،نہ صلہ کی پروا۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم (Huhman Rights Watch) کو پادری برنارڈ کے قابل صد ستائش کارنامے کی خبر ملی تو اُس نے موصوف کو Alison Des Forges نامی ایوارڈ اور انعام دیا۔ برنارڈ کو جو رقم ملی وہ بھی اُس نے پناہ گزینوں کے انخلاء اوراُن کی دیکھ بھال کے لئے وقف کر دی ہے۔ اس وقت وسطی افریقی جمہوریہ کے رہنے والے چار لاکھ مسلمانوں نے پڑوسی ملک میں پناہ لے رکھی ہے اور دو لاکھ کے قریب ملک کے اندر اُس طرح زندہ ہیں جس طرح ہمارے ملک میں وزیرستان سے جان بچا کر بنوں آنے والے دس لاکھ افراد۔ قتل عام سے جان بچا کر بھاگنے والے بوڑھے افراد ،عورتیں اور بچوں کا کوئی بھی مذہب ہو وہ مہاجر کیمپوں میں پہنچ کر سکھ کا سانس لیتے ہوں گے ،مگر یہ بھی سوچتے ہوں گے کہ کاش زمین سخت اور آسمان دور نہ ہوتا۔ 
وسط افریقہ کے تپتے ہوئے صحرائوں میں دل کو ٹھنڈک پہنچانے والی خبریں سن کر ہم یورپ کا رُخ کرتے ہیں۔ جنوبی اِٹلی کے قریب مالٹا ایک چھوٹے سے ملک کا نام ہے جو ایک جزیرہ پر مشتمل ہے اور نقشہ پر بمشکل نظر آتا ہے۔ وہاں ایک امیر امریکی اپنی اطالوی بیوی کے ساتھ رہتا ہے۔ دونوں نہ صرف ہم عمر (36 برس) ہیں بلکہ اس حد تک ہم خیال ہیں کہ اُنہوں نے اپنی محنت سے کمائی ہوئی دولت میں سے سوا چھ لاکھ پائونڈ خرچ کر کے ایک ایسی کشتی خریدی جو افریقہ سے بھاگ کر یورپ جانے اور وہاں رزق روزی کمانے کی کوشش میں سمندر ی سفر کے دوران لوگوں کو ڈوبنے سے بچاتی ہے۔ پچھلے سال میاں بیوی چھٹیاں گزارنے تیونس جا رہے تھے کہ اُنہوں نے سمندر کی سطح پر ایک کوٹ کو تیرتے دیکھا ۔ اُنہیں یہ نتیجہ اخذ کرنے میں دشواری نہ ہوئی کہ یقینا یہ ایک ایسے بدنصیب شخص کا کوٹ ہوگا جو قسمت آزمائی کرتے ہوئے یورپ کے سمندری سفر کو زندہ مکمل نہ کر سکا۔ کوئی اور جوڑا ہوتا تو ماسوائے افسوس کرنے کے اور زیادہ سے زیادہ ڈوب جانے والے شخص کے پسماندگان کا رنج و غم محسوس کرنے کے اور کچھ نہ کرتا۔ کوٹ دیکھنے والے مسلمان ہوتے تو شاید فاتحہ خوانی کے لئے ہاتھ بھی اُٹھاتے اور مرجانے والے کی مغفرت کی دعا بھی کرتے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ پاکستانی جوڑا ہوتا تو ایک دوسرے کو یہ کہہ کر تسلی دیتا کہ مرجانے والے کی قسمت میں یہی لکھا ہوا تھا۔ جب زندگی موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے تو ڈوب جانے والے کا جو حشر ہوا وہ مشیت ایزدی کے عین مطابق تھا۔ تقدیر کے آگے انسان بے بس ہوتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ میرے قارئین مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ ہم ایسے موقعوں پر کون سے جملے ادا کر کے ایک دُوسرے کی ڈھارس بندھاتے ہیں۔ یہ جانتے بوجھتے بھی کہ یہ جملے بے معنی ہیں۔ تسلی کے یہ الفاظ کھوکھلے ہیں اور ان کی ادائیگی صرف زبان تک محدود ہوتی ہے۔ ہماری عقل و فہم کا ان سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ براہ مہربانی یہ بات ذہن میں رکھیں کہ آپ جس جوڑے کے بارے میں پڑھ رہے ہیں، اُس کا کل سرمایہ دس لاکھ پائونڈ تھا۔ جس میں سے 62.5 فی صد رقم اُس نے اجنبی لوگوں کی جان بچانے کے لئے کشتی خریدنے پر صرف کر دی۔ روزنامہ ٹائمز(اسے امریکی ہفت روزہ Times کے ساتھ خلط ملط نہ کریں) نے 12 نومبر کو صفحہ 39 پر اس جوڑے کی اپنی بیٹی کے 
ساتھ تصویر شائع کی اور ان کے کارنامے گنوائے ۔روشن کارنامہ یہ ہے کہ اس کشتی نے ایک سال میں تین ہزار لوگوں کو یقینی موت سے بچا یا۔ جونہی پناہ گزینوں کی کوئی کشتی ڈوبنے لگتی ہے۔ مددگار کشتی تیز رفتار سے وہاں پہنچ جاتی ہے۔ رات کے اندھیروں میں۔ خراب موسم میں۔ سمندری طوفان کے دوران بھی۔ یہ تو تھی ایک جوڑے کی انفرادی کوشش۔ اطالوی بحریہ نے ایک سال کے دوران جن لوگوں کی جان بچائی اُن کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے۔ یہ سطور پڑھ کر میرے قارئین کو پتہ چل گیا ہوگا کہ اطالوی بحریہ کا جو بھی سربراہ ہے وہ ہم نہیں جانتے مگر ایک بات پکی ہے کہ وہ ہمارے پیارے قائم علی شاہ ہر گز نہیں ہو سکتے۔ (جو تھر میں بھوک پیاس سے مرنے والوں کو بچانے سے بھی معذو ر ہیں۔) کالم ختم کرنے سے پہلے پھر افریقہ چلتے ہیں۔ وسط افریقی ملک زیمبیا کی صدارت کے لئے ایک اُمیدوار نے اپنی انتخابی مہم کی بنیاد اس دعویٰ پر چلائی ہے کہ اگر وہ جیت گیا تو چرس کی پیداوار اور فروخت اور برآمد پر پابندی اُٹھالے گا جس سے اُس کا ملک اربوں ڈالر کما سکے گا۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ساری دُنیا میں ڈیڑھ سو ارب ڈالر کی چرس پیدا کی جاتی ہے جس میں زیمبیا کا حصہ دس فیصد ہے ۔ یہ سطور لکھ چکا تھا کہ میرے ذہن میں یہ اندیشہ بجلی کی طرح کوندا کہ برطانوی اخباروں نے جس مذکورہ نشہ آور زرعی پیداوار کے لئے Marijuana کا لفظ استعمال کیا ہے، میں نے چرس کا لفظ استعمال کر کے اس کا درست ترجمہ کیا یا نہیں؟ اس کا فیصلہ آپ کریں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں