پاکستانی خواتین کی تصاویر اور عائشہ ہارٹ

برطا نیہ کا روزنامہ گارڈین اتوارکو شائع نہیں ہوتا۔ اس کا اشاعتی ادارہ اتوارکو آبزرور کے نام سے ایک بڑا اخبار شائع کرتا ہے۔ سنڈے ٹائمز بھی اتوار کو منظر عام پر آتا ہے۔ اتوار کے اخباروں کے ساتھ کافی ضخیم باتصویر ضمیمے شائع ہوتے ہیں۔ روزناموں کی قیمت نصف پائونڈسے ڈیڑھ دو پائونڈ کے درمیان ہوتی ہے جبکہ اتوارکے اخباروں کی قیمت تقریباً ڈھائی پائونڈ کے قریب ہوتی ہے۔ ہر ہفتہ کے دن روزنامہ ٹائمز اورگارڈین کی قیمت ہفتے کے باقی ایام سے 50 فیصد زائد ہوتی ہے چونکہ اخبارکے ساتھ اعلیٰ معیار کا باتصویر ضمیمہ ہوتا ہے اورکاغذ بھی بڑھیا استعمال کیا جاتا ہے اور ضخامت سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہوتی ہے۔ ٹیلی ویژن اور ریڈیوکے سیکڑوں چینلزکی موجودگی اور لندن میں صبح کے '' میٹرو ‘‘اور شام کے ''ایوننگ سٹینڈرڈ ‘‘ کی مفت تقسیم کے باوجود فروخت ہونے والے روزناموں کی مجموعی تعداد بیس لاکھ یومیہ سے زیادہ ہوتی ہے۔ 
15 نومبر (بروز ہفتہ)کو شائع ہونے والے روزنامہ گارڈین کے تصویری ضمیمے میں سات صفحات پر پاکستانی خواتین کی مناسب ، دلچسپ اور فنی اعتبار سے عمدہ تصاویر شائع کی گئیں اور اُن پر تبصرہ بھی۔ الیگزینڈر فزینا نے پاکستان میں پانچ سال گزارے اورکبھی کبھار بھیس بدل کر پاکستانی خواتین کی تصاویر بھی اُتاریں۔ ان بے مثال اور قابل صد تعریف تصاویر پر ضحیٰ ملیلی نے تبصرہ کیا اوراس کا حق ادا کردیا۔ ان تصاویرکا موضوع لاہور اور کراچی کی ڈیفنس نامی بستیوں میں رہنے والی بیگمات نہیں بلکہ محنت کش طبقے کی مظلوم خواتین ہیں۔۔۔۔۔کوڑا کرکٹ اکٹھا کر کے اس کی فروخت سے روزی کمانے والی معصوم بچیاں (تین سو روپے فی ہفتہ ۔)۔۔۔۔۔ بہادر اورغیرت مند پٹھانوں کی برقعہ پوش بیویاں اوربیٹیاں ، خیموں میں رہنے والی باپردہ افغان مہاجر خواتین اور اُن کے بیمار بچے جن کا کوئی پُرسان حال نہیں۔ پاکستان میں آبادی کی اکثریت بے بس ، لاچار، بے سہارا، بے زبان اور ستم زدہ ہے مگر اس پسے ہوئے طبقے کی خواتین ہر لحاظ سے مردوں سے زیادہ مظلوم ہیں۔۔۔۔۔ دُوسرے الفاظ میں مظلوم در مظلوم ۔ غربت بذات خودسب سے بڑا ظلم ہے ، بدقسمتی سے کوئی غریب ہو اور عورت بھی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بے چاری مظلومیت کے آخری درجہ تک پہنچ گئی ۔ میں کوشش کروں گا کہ پاکستان میں کوئی ادارہ ان تصاویر کی نمائش کا اہتمام کرنے پر تیار ہو جائے۔ یہ کوشش کامیاب نہیں ہوتی تو فزینا نے کروڑوں حال مست لوگوں کی زندگی کاوہ پہلو جو مال مست نہیں دیکھنا چاہتے، اسے ایک غیر معمولی دستاویز کی شکل میں ساری دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے ۔ آپ The Guardian.com/Video پر دیکھ لیں۔ 
افغان مہاجر خواتین کے ذکر سے مجھے یاد آیا کہ نومبر میں امریکہ کے سب سے بڑے اخبار نیو یارک ٹائمز نے صفحہ اول پر ایک شاندار پگڑی باندھے ہوئے اور پتھریلے نقوش والے پٹھان کی تصویر شائع کی اور نیچے خبر میں لکھا کہ یہ گڈریا (چرواہا ) اُن ڈھائی لاکھ پاکستانی مردوں، عورتوں اور بچوں میں شامل ہے ، یہ پاکستانی ہے اور وزیرستان میں جاری لڑائی میں مارے جانے کے خوف سے بھاگ کر افغانستان میں پناہ گزین ہے جہاں وہ بڑے نامساعد حالات میں اپنے آپ کو اور اپنے بال بچوں کو زندہ رکھنے کے لیے ذلیل و خوار ہو رہا ہے۔ اخبار نے لکھاکہ ایک وقت وہ تھا جب افغانستان کے لاکھوں افراد پاکستان میں پناہ گزین ہوئے۔ اب حالات اتنے بدل چکے ہیں کہ تاریخ کا پہیہ اُلٹی جانب چل رہا ہے اور پاکستان کے لاکھوں قبائلی گھرانے افغانستان میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ اس اخباری رپورٹ میں وزیرستان میں ہونے والے تصادم کے بارے میں بھی تفصیل سے لکھا گیا ہے جو آپ انٹرنیٹ پر پڑھ سکتے ہیں۔ 
اس کالم کو مزید بوجھل بنانے سے بچانے کے لئے آپ کا تعارف ایک 26 سالہ خوبصورت خاتون سے کرانا چاہتا ہوں۔ نام ہے عائشہ ہارٹ۔۔۔۔۔ آدھی عرب اورآدھی انگریز۔14نومبرکو لندن میں لاکھوں کی تعداد میں چھپنے اور مفت تقسیم ہونے والے ایوننگ سٹینڈرڈ کے پورے دو صفحات پر ایک دلکش تصویر اور ایک لمبا چوڑا مضمون شائع ہوا۔۔۔۔۔تعارفی اور تعریفی مضمون جو اسی خاتون کے بارے میں تھا۔ اُنہوں نے بی بی سی کے ڈراموں میں اچھی اداکاری سے شہرت پائی۔ بچپن کے پہلے تین سال سعودی عرب میں اپنے باپ کے ساتھ گزارے، لہٰذا ٹوٹی پھوٹی عربی بول سکتی ہے اور ہر سال اپنے آبائی وطن جاتی رہتی ہے۔ عائشہ نے سعودی عرب کی تعریفوں کے پل باندھ دیے خصوصاً عربوں کی روایتی مہمان نوازی کے بارے میں ۔ عائشہ نے اخباری نمائندے کو بتایا کہ اگلے برس سعودی عرب میں خواتین کو انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق مل جائے گا۔ وہاں تعلیم نسواں کی تحریک بھی روز بروز زور پکڑ رہی ہے۔ عائشہ نے مغربی لندن کی ایک کائونٹی برک شائر میں ہوش سنبھالا (اس لحاظ سے وہ میری گرائیں ہیں)۔ عائشہ نے یونیورسٹی کے ایک بہترین کالج کنگز میں انگریزی ادب پڑھا ، لندن کے ایک ڈرامہ سکول میں اداکاری کا فن سیکھا اور ایک ڈرائونی فلم سے اپنی فنی زندگی شروع کی۔ پانچ برسوں میں وہ شہرت کی بہت سی سیڑھیاں چڑھ چکی ہیں۔ وہ اُردو کے علاوہ یونانی ، عربی ، ہسپانوی اور ہندی روانی سے بول سکتی ہیں۔ انگریزی اُن کی مادری اور عربی پدری زبان ہے۔ عائشہ نے یہ حیرت انگیز بات بھی بتائی کہ عرب دُنیا میں آنے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں وہاں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ان میں بہت سی فلمساز ہیں یا فلم بنانے کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ 
قصہ مختصر، عائشہ نے وہ باتیں کہیں جسے پڑھ کر کثیر الاشاعت اخبارکے قارئین پر عربوں کا مزید رُعب پڑا۔ عائشہ اُس نئے دور کی ایک چھوٹی سی علامت ہے جو عرب دُنیا میں نہ صرف سیاسی میدان بلکہ سماجی اور ثقافتی میدان میں ایک نئے چاند کی مانند طلوع ہو رہا ہے۔ آپ یورپ کی تاریخ دیکھ لیں ، یہاں تبدیلی تین مراحل میںآئی جن کی ترتیب بے حد معنی خیز ہے۔ پہلے تحریک اصلاح کلیسا، دُوسرے نمبر پر نشاۃ ثانیہ (جدید علوم کا فروغ) تیسرے مرحلہ پر سلطانی جمہور۔ یہ کالم نگار اپنے قارئین کو یقین دلاتا ہے کہ ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہوگا۔کیمیا اور طبیعیات کی طرح سماجیات بھی ایک سائنسی علم ہے جس کی اپنی منطق اور جدلیات ہے۔ دائیں بازو کی سوچ رکھنے والوں میں صرف ایک خامی ہے کہ وہ سماجی عمل کی سائنسی بنیاد سے ناواقف ہوتے ہیں اور بصارت رکھنے کے باوجود بصیرت سے محروم رہتے ہیں۔ یورپ کے سیاست دانوں، سرکاری افسروں اور مالیات سے متعلق اعلیٰ حکام میں مالی بدعنوانی، رشوت ستانی اور ہر قسم کی کرپشن کی شرح ویسے ہی اتنی کم ہے جتنی ہمارے ہاں دیانت داری کی۔ یہی وجہ ہے کہ چاہے کسی شخص کا کتنا بڑا عہدہ ہو اُسے چھوٹی سے چھوٹی مالی بدعنوانی کے الزام کا جواب دینا پڑتا ہے۔ یہی اُس نظام کی برکت ہوتی ہے جس کی بنیاد احتساب اور شفافیت پر ہو۔ جعلی اخراجات دکھا کر سرکاری خزانے سے رقم بٹورنے کے جرم میں برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان کو قید کی سزا دی جا چکی ہے۔ سپین کے شاہی خاندان کے ایک اہم فرد (بادشاہ کی سگی بہن) ان دنوں عدالت کے کٹہرے میں بطور ملزم پیش ہونے والی ہے۔ الزام یہ ہے کہ اُس نے اپنے شاہی مرتبے کا غلط اور ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنے کاروباری شوہرکوکوئی بڑا سرکاری ٹھیکہ دلوایا۔ اُدھر فرانس میں ایک اور خاتون پر، جو آئی ایم ایف کی سربراہ ہے،الزام ہے کہ انہوں نے اپنے منظور نظر افراد پر عنایات کی بارش کی۔ یورپ کے افراد اپنی ذاتی زندگی چاہے کتنی گناہ آلود گزاریں، اپنی اجتماعی زندگی میں دیانت، صداقت اور عدالت کے اعلیٰ ترین معیار قائم رکھتے ہیں۔ یہی یورپ کی بے حد وحساب ترقی، عوامی خوشی اور خوشحالی کا راز ہے۔ 
آخر میں ایک غیر سنجیدہ خبر ۔ امریکہ میں ایک مسیحی فرقے کا نام Mormon ہے۔ امریکہ کی ایک ریاست Utah میں یہ بہت بڑی تعداد میں ہیں۔ اس فرقے کی بنیاد 1850ء کے لگ بھگ Joslin Smith نے رکھی۔ اس فرقہ کے مذہبی عقائد کو تفصیل سے بیان کرنے کا نہ موقع ہے نہ دستور؛البتہ اس فرقے سے تعلق رکھنے والوں نے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی روایت کو اس بنیاد پر اپنایا کہ 150 سال سے یہ باور کیا جارہا ہے کہ اس فرقے کے بانی کی بیویوں کی تعداد 40 تھی۔ ان دنوں امریکہ میں بڑے جوش و خروش سے بحث جاری ہے کہ آیا اس خود ساختہ مسیحا کی بیویوں کی تعداد واقعی 40 تھی؟ تحقیق سے پتہ چلا کہ اس فرقے کے مخالفین نے بدنام کرنے کے لئے یہ جھوٹا الزام لگایا جو چپک کر رہ گیا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں