سکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم کے بعد

زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد... زمیں ہل سکتی ہے مگر گل محمد نہیں۔ غالباً یہ محاورہ ہمارے بارے میں ہے۔ زمین اپنی جگہ سے ہلے نہ ہلے، ہم گل محمد سے بھی کئی قدم آگے ہیں۔ روایت پرستی، قدامت پسندی اور لکیر کے فقیر ہونے پر یہ محاورہ ہمیں ہر سال، ہر ماہ، ہر روز اور ہر لحظہ شرمندہ کرتا رہتا ہے۔ اُنیسویں صدی میں برطانوی راج نے جو نوآبادیاتی نظام قائم کیا، ہم نہ صرف اُس کے بنائے ہوئے قوانین کے الفاظ بلکہ ان الفاظ کی رُوح (جو آقا اور غلام کے رشتے کی بنیاد ہوتی ہے) کو بھی پتھر پر کندہ لکیروںکا درجہ دیتے ہیں۔ ہم ایک گلے سڑے نظام کی اندھا دھند پوجا کرتے ہیں۔ وہ نظام جو خود مُردہ ہے، اٹھارہ کروڑ زندہ لوگوںکے مسائل کس طرح حل کر سکتا ہے؟ ہماری ساری توجہ ڈرائیور کے چنائو پر رہتی ہے۔ ہم یہ دیکھتے ہیںکہ ڈرائیورگاڑی چلانے کے فن کی کتنی مہارت رکھتا ہے؟ ہمیں 1947ء سے آج تک یہ نظر نہیں آیا کہ اس گاڑی کا انجن زنگ آلود ہو کر ناقابل استعمال ہو چکا ہے، ٹائروں میں ہوا نہیں، گاڑی کے انجر پنجرکا وہی بُرا حال ہے‘ جو پطرس کی سائیکل کا تھا۔ اگر ہم دُنیا کا بہترین ڈرائیور بھی کہیں سے پکڑ لائیں (جیسے تین بار ایسا کر بھی چکے ہیں) لیکن گاڑی ہی نہیں چل سکتی تو یہ بہترین بدیسی ڈرائیور کیا کمال دکھائے گا؟
اس تمہیدکا مقصد اپنے ذہین قارئین کو یہ سمجھانا ہے کہ یورپ کی ترقی کا راز محض اچھا ڈرائیور نہیں (اگرچہ ان کے رہنمائوں کی اہلیت، دیانت اور لگن سے انکار ممکن نہیں) مگر یہ ایک بہترین، فعال، عوام دوست، جدید ترین، جواب دہ اور شفاف نظام کی گاڑی ہے جسے دُوسرے اور کبھی کبھار تیسرے درجے کا ڈرائیور بھی اتنی اچھی طرح چلا لیتا ہے کہ وہ منزل پر پہنچ جاتی ہے۔ یورپ کے نظام کی بنیاد انسان کی آزادی، انفرادی خوشی، عوامی خوشحالی، انصاف اور مساوات پر رکھی گئی ہے‘ جبکہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے انسان دُشمنی، انفرادی آزادی کے خاتمے، عدم مساوات، ہر سطح پر ناانصافی، جبر و تشدد اور نئے زمانے کے تقاضوں کو سمجھنے کی اہلیت سے محرومی‘ جڑ پکڑ چکی ہے۔ میں 1967ء سے برطانیہ میں رہتا ہوں۔ ان 47 برسوں میں برطانیہ میں پاکستان کے مقابلے میں ہزاروںگنا زیادہ، بہت گہری اور موثر تبدیلیاںآئی ہیں۔ ان سب کو بیان کرنے کے لیے ایک ضخیم کتاب لکھنی پڑے گی اور اتنا بڑا کام یہ مرد تن آسان نہیں کر سکتا مگر اچھے خواب دیکھنے میں تو کوئی ہرج نہیں۔ 
وفاق کی بہترین مثال (مضبوط اور بااختیار اکائیوں کے ساتھ) امریکہ ہے۔ فرانس کو وفاقیت کے معیار پر پرکھا جائے تو بمشکل 33 فیصد نمبر لے کر پاس ہوتا ہے۔ برطانیہ کو دیکھیں تو وہ بری طرح فیل ہوتا ہے۔ سارے اختیارات مرکزی حکومت کے پاس ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سکاٹ لینڈ اور ویلز میں قوم پرستی کی طاقتور تحریکیں اُبھریں۔ سکاٹ لینڈ کے لوگوں نے حال ہی میں ہونے والے استصواب رائے میں صرف دس فی صد ووٹوں کی اکثریت سے برطانیہ کا حصہ بنے رہنے کا فیصلہ کیا، 45 فیصد نے آزادی کے حق میں ووٹ دیے۔ برطانوی حکومت نے اس سے وہ سبق سیکھا جو کانگرس 1946ء میں پڑھ لیتی تو ہندوستان تقسیم نہ ہوتا۔ اگر پاکستان کے فوجی جرنیل، بڑے سرکاری افسر اور سیاست دان (خصوصاً ذوالفقار علی بھٹو مرحوم) بھی یہ سبق پڑھ لیتے تو پاکستان کا بٹوارہ نہ ہوتا۔ اورآج بھی پڑھ لیا جائے تو عقل و خرد، بصیرت اور دانائی کا یہ عمل لاکھوں عذابوں سے نجات دلوا دے گا۔ دو ماہ ہوئے برطانیہ ٹوٹنے سے بمشکل بچا۔ انگریز سیانی قوم ہے۔ اُس نے حساب لگایا کہ ہمارے نظام حکومت میں ضرور کوئی بڑی خرابی ہے‘ جس کی وجہ سے سکاٹ لینڈ کی آبادی کا تقریباً نصف حصہ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ حکومت نے جو کمیشن بنایا اُس نے دن رات کام کر کے چند ہفتوں کے اندر اندر اپنی رپورٹ مرتب کر لی۔ اب برطانوی حکومت نے کمر ہمت کس لی ہے کہ کسی پس و پیش کے بغیر اس کمیشن کی سفارشات پر عمل کیا جائے گا۔ تفصیلات میں جانے کی نہ جگہ ہے اور نہ ضرورت، اہم نکتہ صرف ایک ہے اور وُہی آپ کے لیے توجہ طلب ہے۔ اس نکتے کا نام ہے Devolution، یعنی لندن میں مرکوز مرکزی حکومت سے اختیارات لے کر سکاٹ لینڈ کو تفویض کرنا۔ اختیارات بھی وہ جن کا تعلق مالیات سے ہے۔ مالیاتی خود مختاری کا مطلب کیا ہے؟ ٹیکس اور سرکاری محصولات اکٹھے کرنا اور پھر انہیں اپنی مرضی سے استعمال کرنا۔
ابھی ان سفارشات کے اعلان کی سیاہی بھی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ انگلستان (جو برطانیہ کا ایک حصہ ہے)کی 112 کونسلوں (شہروں اورکائونٹیوں) نے 30 نومبر کو بیک زبان ایسا مطالبہ کیا‘ جن سے سیاسی ایوانوں میں زلزلہ آگیا۔ مطالبہ یہ ہے کہ جو خود مختاری سکاٹ لینڈ کو دی جا رہی ہے وہ انگلستان کے شہروں اور اضلاع (Counties) کی مقامی کونسلوں کو بھی دی جائے۔ 
اب میں کالم کے دُوسرے حصہ میں قارئین کو چند ہلکی پھلکی خبریں سنانا چاہتا ہوں۔ لندن میں ایک اخبار Metro زیر زمین چلنے والی ٹرینوں کے لاکھوں مسافروں میں مفت تقسیم کیا جاتا ہے (یہ ڈیلی میل کا بغل بچہ ہے اورکثیرالاشاعت ہونے کی وجہ سے اشتہاروں سے بھرا ہوتا ہے)۔ 24 نومبرکو اس کے صفحہ اول پر ایک مسکراتے ہوئے جوڑے کی تصویر شائع ہوئی‘ جس میں ایک ایشیائی خاتون تھی۔ خاتون نے سر پر دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا۔ میں نے لپک کر اخبار اُٹھا لیا۔ خاتون کا نام تھا کرتاری دیوی اور شوہر کا نام کرم چند۔ ان کی شکل دیکھ کر ان کے پنجابی ہونے کا جو اندازہ ہوا تھا وہ نام پڑھ کر یقین میں بدل گیا۔ تصویرکا عنوان تھا: 89 برسوں سے خوشگوار شادی شدہ زندگی گزارنے والا خوش نصیب جوڑا۔ دونوں خوش لباس، خوش مزاج اور خوش شکل بھی تھے۔ کم از کم تصویر میں ان دونوں کی صحت بھی قابل رشک حد تک اچھی نظر آرہی تھی۔ میری شادی شدہ زندگی کو ابھی صرف 52 سال ہوئے ہیں۔ 89 سالہ پرانی شادی کا ذکر پڑھ کر سارا غرور خاک میں مل گیا۔ محسوس ہوتا ہے کہ میری شادی کو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں۔ 
حال ہی میں ایک کالم میں، مَیں نے بیلوں اور ہاتھیوں کا محبت سے ذکر کیا تھا۔ کالم چھپ چکا تو میرے کانوں میں دُور اُفق سے بھیڑوں کے ممیانے کی آواز آئی، وہ احتجاج کر رہی تھیںکہ آپ ہمیں کیوں بھول گئے؟ میں اُن کے تذکرے کا بہانہ ڈھونڈ رہا تھا کہ میری نظر فرانس کے ایک بڑے اخبار Le Monde پر پڑی۔ زبان نہ جاننے کے باوجود میں نے اخبار خرید لیا۔ سرورق پر بھیڑوں کے ایک غول کی تصویر تھی۔ چونکہ میں وسطی پیرس کے نقشے سے تھوڑا سا واقف ہوں‘ اس لیے میں نے پہچان لیا کہ یہ خوش خصلت بھیڑیں پیرس کی سب سے مشہور اور خوبصورت سڑک شانزے لیزے پر سیر کر رہی ہیں۔ آپ یہ نہ سمجھیے کہ یہ بھیڑیں ایک دُوسرے کی چال کی نقل کرتے ہوئے دیہات سے پیرس جا پہنچیں (بھیڑیں ناحق بدنام ہیں، بھیڑ چال ہماری طرح ہر غلامانہ ذہن رکھنے والی قوم کا طرۂ امتیاز ہے) فرانسیسی حکومت نے بھیڑوں کے ازلی اور بدترین دُشمن بھیڑیوں کی نسل کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے تو گڈریوں نے کئی ہزار بھیڑیں وسط پیرس میں کھلی چھوڑ دیں‘ جس سے شہر کی ٹریفک درہم برہم ہو گئی۔ احتجاج موثر رہا، بھیڑیں محفوظ تر ہو گئیں مگر بھیڑیے غیر محفوظ۔ مگر اُن کے اوصاف رکھنے والے افراد تیسری دُنیا کے حکمران بن کر بے بس و لاچار افراد کی تکہ بوٹی کر رہے ہیں۔ جب تک تخت ہلائے نہیں جاتے، تاج اُچھالے نہیں جاتے، دھرتی دھڑ دھڑ نہیں کانپتی، یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
آئیے ہم کالم کو سپین سے آنے والی خوش خبری پر ختم کریں۔ وہاں دیکھتے ہی دیکھتے بائیں بازو کی ایک ترقی پسند اور عوام دوست سیاسی جماعت اُبھری ہے۔ نام ہے Podemos، ان کے انقلابی منشور کی اشاعت سے سپین کے سیاسی منظرنامہ میں زلزلہ آ گیا ہے۔ اس جماعت کے نام کا انگریزی ترجمہ ہے We Can (ہم کر سکتے ہیں۔) سپین میں آبادی کا چوتھائی حصہ بے روزگار ہے۔ 18 اور 24 سال کی درمیانی عمر کے نوجوانوں کی آدھی تعداد کے پاس کوئی ملازمت نہیں۔ رائے عامہ کے ایک جائزے کے مطابق سپین کی 28.6 فیصد آبادی اس جماعت کی حامی ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سپین کی سب سے مقبول سیاسی جماعت ہے۔ صرف ایک سال پہلے معرض وجود میںآنے والی جماعت نے مئی میں یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات میں پانچ نشستیں جیت لیں۔ دور حاضر کے سپین کی تاریخ بدلنے والے لوگ میری آواز سنیں یا نہ سنیں مگر میرے دل سے اُن کے لیے زندہ باد کی آواز بلند ہوتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں