سالِ رواں کا آخری کالم

سال ر واں میں میرا یہ کالم اس سال کا آخری کالم ہوگا۔ سال نو کی آمد میں صرف ایک دن رہ گیا۔ میں چاہتا ہوں کہ میں اس اخبار کو شائع کرنے والوں اور پڑھنے والوں کو سال نو کی مبارک باددُوں۔ میں دُعاگو ہوں کہ آپ سب کے لئے نیا سال خوشی اور خوشحالی کا سال ثابت ہو۔
برطانیہ میں سیاہ فاموں کی ذہنی بیداری اور شعور کی بلندی کی نہ ختم ہونے والی فِکری تحریک کے راہنما Stuart Hall اس سال ہم سے جدا ہو گئے تو ان کے اعزاز میں جو تعزیتی اجلاس منعقد ہوا اُس میں دُنیا بھر کے انقلابیوں، عوام دوستوں اور ترقی پسندوں نے شرکت کی۔ امریکہ سے آنے والے مہمانوں میں سب سے نمایاں شخصیت ایک 70 سالہ خوبصورت افریقی نژاد خاتونAngela Davis کی تھی۔ وہ اپنے مداحوں کے اتنے بڑے جمگھٹے کے درمیان گھری ہوئی تھیں کہ اُن تک رسائی ہر گز آسان کام نہ تھا۔ وہ 44 سال پہلے بھی عالمی شہرت کی مالک تھیں۔ اُن کی خود نوشت اُن دنوں زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں سرِ فہرست تھی۔ ٹیلی ویژن پر اُن کے بت شکن انٹرویو سُن کر یہ بات میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھی کہ ایک دن وُہ میرے سامنے کھڑی ہوں گی اور اگر خوشی قسمتی نے میرا ساتھ دیا تو میں شاید اُن سے ایک دو باتیں بھی کر سکوں گا۔ انفرادی گفتگو ہو یا نہ ہو،یہ اہم نہیں۔ میں اُن کی تقریر اور دُو سرے لوگوں کے کئے ہوئے سوالوںکے ،اپنے نیم مردہ دل کو گرمانے اور اپنی مضمحل رُوح کو تڑپانے والے جوابات خود اپنے کانوں سے سنوں گا۔ 44 سال پہلے امریکی صدر چرڈنکسن نے امریکہ کی ایک چوٹی کی یونیورسٹی میں سماجی علوم پڑھانے والی پروفیسر خاتون کو دہشت گرد کہا تو عصر حاضر کی سیاسی لُغت میں ایک نئے لفظ کا اضافہ ہوا۔ اس دانشور خاتون کا نام انجیلا ڈیوس تھا۔ امریکہ کی وفاقی حکومت کی پولیس (FBI) نے جن دس افراد کو سب سے زیادہ مطلوبہ (Most Wanted) قرار دیا اُن میں انجیلا کا نام بھی شامل تھا۔ اُن پر اغواء اور قتل کی سازش کرنے کے سنگین الزامات عائد کئے گئے تھے۔ وہ کافی عرصہ مفرور رہیں۔ بالآخر گرفتار ہوئیں تو ہر امریکی اخبار کی شہ سرخی اُن کی گرفتاری کے بارے میں تھی۔ مقدمہ کی کارروائی شروع ہوئی تو استغاثہ نے اُنہیں موت کی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ 1972 ء میں اُن پر چلائے جانے والے مقدمہ کی کارروائی مغربی دُنیا کے ہر اخبار میں لفظ بہ لفظ شائع کی جاتی تھی۔سیاہ فاموں کی انقلابی تحریک Black Panthers کی راہنمائی اُن کی شناخت تھی مگر اُنہیں سیاسی منظر نامہ سے ہٹانے کے لئے امریکی حکومت نے انہیں اور اُن کے رُفقاء پر بڑے سنگین (مگر سو فیصدی جھوٹے) الزامات لگانے کا وہ حربہ استعمال کیا جس میں حکومت پاکستان کو مات نہیں دی جا سکتی (مثلاً افسانوی شہرت کے درویش صفت پنجابی شاعر اُستاد دامن کی تنگ و تاریک کوٹھڑی سے ایک بڑی توپ کی برآمدگی)۔ انجیلا تو بری ہو گئیں مگر اُن کے ساتھیوں کو عمر قید کی سزائیں دی گئیں۔ مثال کے طور پر اُن کا ایک قریبی ساتھی Rucheu Magee،51 سالوں سے جیل میں قید و بند کی اذیت بھگت رہا ہے۔ اُن کے ایک اور ساتھی جارج جیکسن (جسے وہ اپنا خاوند اور رفیق حیات بیان کرتی تھیں، حالانکہ اِن دونوں نے کبھی رسمی طور پر شادی نہ کی تھی) کو پولیس نے 1971 ء میں جعلی پولیس مقابلہ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ صرف 72 گھنٹوں کے بعد جارج جیکسن کو عدالت میں قتل کے الزام میں چلائے جانے والے مقدمہ میں اپنی صفائی پیش کرنا تھی، مگر پولیس مقابلہ میں ہلاکت نے اُنہیں اُس کا موقع نہ دیا۔ ایک نتیجہ یہ نکلا کہ انجیلا نے بیو ہ ہو جانے کے بعد زندگی بھر دوبارہ شادی کے بندھن کے بارے میں سوچا تک نہیں۔ انجیلا ''ناقابل اصلاح‘‘ اشتراکی ہیں۔ وہ امریکہ کی کمیونسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر 1980 ء کی دہائی میں دوبارہ امریکہ میں نائب صدر کے عہدہ کے لئے ہونے والے قومی انتخابات میں حصہ لے چکی ہیں۔ لندن میں منعقد ہونے والی مذکورہ بالا تقریب میں کی جانے والی ولولہ انگیز تقریریں انہوں نے کہا کہ وہ بے حد پرُ اُمید ہیں کہ آنے والے وقت میں امریکہ میں بڑی سماجی اور سیاسی تبدیلی آنے والی ہے۔اس خوش اُمیدی کی وجہ یہ ہے کہ گزرے ہوئے 50 سال کے مقابلہ میں (جب وہ اس کالم نگار کی طرح جوان تھیں) اب امریکہ میں نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد سطحی اصلاحات کی بجائے ہمہ گیر انقلاب کی نہ صرف حامی ہے بلکہ عملی طور پر متحرک اور فعال بھی ہے۔ اُنہوں نے خاص طور پر قبضہ تحریک (Occupy Movement) کا ذکر کیا جو پچھلے چند سالوں میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لندن اور نیویارک میں کئے جانے والے مظاہروں میں سب سے زیادہ توانا تھی۔ انجیلا نے یہ بات بار بار کہی کہ جب سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ وجود میں آئی ہے، وہاں کے ریاستی ادارے یانسل پرست سفید فام طاقتور لوگ پہلے سیاہ فام غلاموں پر اور غلامی ختم ہو جانے کے بعد سیاہ فام لوگوں پر ظلم و ستم اور بدترین تشدد کرتے آئے ہیں۔ ہر سال ایسے واقعات ہمیشہ رونما ہوتے ہیں جب امریکی پولیس کسی بے گناہ سیاہ فام نوجوان کو محض مشتبہ ہونے کے جرم میں ہلاک کر دیتی ہے۔ پولیس کے سپاہیوں پر عدالت میں مقدمہ کی کارروائی کا ناٹک رچایا جاتا ہے اور ملزموں کو ہمیشہ باعزت بری قراردیاجاتا ہے۔ جب سیاہ فام اس صریحاً ناانصافی کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں تو پولیس مظاہرین کو بھی اپنے تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔ جانے والے سال کے آخری دو مہینوں میں یہ کارروائی امریکہ کے طول و عرض میں دہرائی گئی۔ ابھی میرے کانوں پر انجیلا کی سچائی پر مبنی باتوں کی باز گشت جاری تھی کہ میری آنکھوں نے اخبارات میں شائع ہونے والی اُس ناقابل بیان اور ناقابل تصور تشدد کی تفصیل پڑھ لی جو امریکہ کے جاسوسی ادارہ (CIA) نے اپنے زیر اہتمام افغانستان اور عراق کی جیلوں میں سالہا سال تک جاری رکھا۔ 
جیلوں میں ناقابل برداشت تشدد ۔مکمل تاریکی۔ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں برہنہ قیدی۔ قطب شمالی جتنی سردی۔ قیدیوں کو دس دس دن تک سونے کی اجازت نہ دی جاتی ،یہاں تک کہ وہ بے ہوش کر گر پڑتے۔ کئی کئی ہفتوں کے فاقوں کے بعد جب قیدی مرنے کے قریب پہنچ جاتے تو امریکی حکومت کی مہربانی سے بھیجی جانے والی خوراک اُن کے نڈھال اور زخموں سے چور جسم میں بذریعہ مقعد (پشت) داخل کی جاتی۔ میں باقی لرزہ خیز تفصیلات محض اس وجہ سے نہیں لکھتا کہ اگر آپ یہ سُطور صبح صبح پڑھ رہے ہیں تو شاید ناشتہ نہ کر سکیں۔ اگر ناشتہ کے بعد پڑھیں تو پھر شاید دوپہر یا رات کا کھانا نہ کھاسکیں۔ اگر آپ ان دنوں سکون کی نیند کی نعمت سے فیض یاب ہیں تو خطرہ ہے کہ سی آئی اے کے مظالم اور تشدد کی رپورٹ پڑھ کر آپ ڈرائونے خواب دیکھنا شروع کر دیں۔
مندرجہ بالا مضمون (دہشت گردوں کے قبیلہ کے سردار امریکہ کے ہاتھوں ہونے والے ظلم و تشدد کی دل ہلا دینے والی داستان) نے اُن سطور کے لکھنے اور پڑھنے والوں کے دل کو اس درجہ رنجیدہ اور دل گرفتہ کر دیا کہ مناسب ہوگا کہ موضوع کو بدل دیا جائے اور اپنے قارئین کو چھوٹی چھوٹی دلچسپ خبریں سنائی جائیں۔ لندن کے شہر کا نظم و نسق ایک منتخب اسمبلی (نہ جانے یہ نعمت عظمیٰ کراچی،لاہور اور فیصل آباد کو کب نصیب ہوگی)کی ذمہ داری ہے ۔لندن کا میئر (ناظم اعلیٰ) بھی لندن کے شہری براہ راست ووٹوں سے ہر چار سال کے بعد چنتے ہیں۔ موجودہ میئر کا نام بورس جانسن ہے۔ سر پر بکھرے ہوئے سنہری بال۔ کنگھی پٹی سے بے نیاز۔ غیر استری شدہ (لگتا ہے مٹکے سے نکالا ہوا) سوٹ۔ سائیکل پر سوار۔ اتنے ہر دل عزیز کہ ٹوری (قدامت پسند) پارٹی سے تعلق رکھنے کے باوجود لیبر پارٹی کے تین بار میئر منتخب ہونے والے اور امریکی سامراج کے بڑے دشمن کیوبا اور ویت نام کے گر ویدہ اور عالمی شہرت رکھنے والے راہنما کین لونگسٹن (Ken Livingstone)کو ہرانے والے بورس جانسن کے نانا ترک تھے۔اور یہی وجہ ہے کہ وہ ترکی کو بطور مادری زبان (چاہے ٹوٹی پھوٹی) بول سکتے ہیں۔ نیو یارک میں پیدا ہوئے اور اس وجہ سے امریکی پاسپورٹ رکھتے ہیں۔ برطانیہ میں قیمتی شہری جائیداد ورثہ میںملی۔ وہ فروخت کر دی مگر امریکی حکومت
کو ٹیکس نہ دیا جو امریکی قانون کے تحت واجب الادا تھا۔ اب اُنہیں سُرخ سیاہی میں لکھا ہوا نوٹس ملا ہے کہ یا تو وہ اگلے ماہ سارا ٹیکس ادا کر دیں ورنہ بہت بھاری جرمانہ ادا کرنے یا (ممکن ہے) جیل میں قید کی سزا ملنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ 
اگر آپ اتنے خوش قسمت نہیں کہ میری طرح سپین جا کر مسجد قرطبہ کی زیارت کر چکے ہوں تو اقبال کی وہ نظم (غالباً اُن کی سب سے بلند مرتبت نظم) پڑھ لیں جس کا عنوان ہے۔ ''مسجد قرطبہ‘‘۔ آپ آنکھیں بند کر کے اس نظم کو سنیں تو لگتا ہے کہ آپ اقبال کے ساتھ اس مسجد میں سجدہ ریز ہیں۔ چند سال قبل میں وہاں اپنے بال بچوں کے ساتھ گیا۔ (الحمرا کے محلات سے ڈیڑھ دو گھنٹے کی مسافت پر) تو باہر کھڑے ہوئے محافظوں اور دربانوں نے میری عبادت گزار بیوی کے ارادے بھانپ لئے اور اُنہیں وہاں نماز پڑھنے کی کوشش کرنے سے سختی سے روک دیا۔ میرے کانوں میں اقبال کے بے حد خوبصورت اشعار گھاس پر گرنے والی شبنم کی طرح نرمی اور خاموشی سے آبشار بن کر گرتے رہے:
تیرا جلال و جمال‘ مرد خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل‘ تو بھی جلیل و جمیل
تیری بنا پائیدار، تیرے ستوں بے شمار
شام کے صحرا میں ہوں جیسے ہجومِ نخیل
تیرے در و بام پر وادی ایمن کا نور
تیرا منار بلند جلوہ گِہ جبرئیل
آٹھویں صدی میں اس مسجد کو جس جگہ تعمیر کیا گیا تھا وہاں پہلے ایک گرجا گھر تھا۔ عیسائیوں نے تیرہویں صدی میں اُندلس پر دوبارہ قبضہ کر لیا تو اُنہوں نے بدترین انتقامی کارروائی کرتے ہوئے عین مسجد کے دل میں ایک کیتھڈرل بنا دیا۔ اب اُس شہر کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ اس عمارت کے ساتھ مسجد کا لفظ نہ لگایا جائے۔ نام کی اس تبدیلی سے یورپ کے لاکھوں مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں