پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

آیئے لندن چلیں (جہاں یہ کالم نگار رہتا ہے) اور ایک پچاس سالہ خاتون کے انٹرویو کا وہ حصہ پڑھیں جو مغربی دُنیا میں فیشن کی دُنیا کے غالباً سب سے بڑے رسالےHarper Bazar میں شائع ہوا تو تہلکہ مچ گیا۔ لگتا تھا کہ کسی نے بھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دیا اور اب وُہ ہر اُس شخص کو ڈنک مارنے پر کمربستہ ہیں جو اُن کے آرام میں خلل ڈالنے کے جرم کا مرتکب ہوا ہے۔ خاتون کا اصل (یعنی شادی سے پہلے والا) نام ہے Sophie Rys Jones ۔جب ملکہ برطانیہ کے سب سے چھوٹے بیٹے ایڈورڈ سے بیاہی گئی تو ساس صاحبہ نے Count of Wessex کا خطاب دیا۔ اب وہ اسی سرکاری نام سے بلائی اور پہچانی جاتی ہیں۔ اس خاتون نے باقی باتوں (جو غیر متنازعہ تھیں) کے علاوہ مسلمان خواتین کے پردہ کے بارے میں جو کہا وہ ایک پرُسکون تالاب میں بڑا پتھر پھینک کر بڑی بڑی لہریں پیدا کرنے کے مترادف تھا۔ اس بی بی نے کہا کہ میں اُن خواتین کا احترام کرتی ہوں جو سرِعام اپنے جسم کی نمائش کرنے کی بجائے اُسے برقعہ میں چھپاتی ہیں۔ رّد عمل کیا ہوا؟ بے شمار لوگوں کی پیشانیوں پر بے شمار سلوٹیں۔ملکہ کی بہو سے اپنے بھی خفا اور بیگانے بھی ناخوش کہ وہ (بقول اقبال) زہرِ ہلاہل کو قند نہ کہہ سکیں۔ دُوسرا راستہ یہ تھا کہ خلق خدا کی ناراضگی کے خوف سے اپنی وہ رائے ظاہر نہ کرتیں جو دیانتداری سے اُن کی اپنی ہے۔ جو برطانوی اخبارات (مسلمان دُشمنی اور نسل پرستانہ ذہنیت کی وجہ سے) مسلمان خواتین کے سروں کو حجاب سے لپیٹنے کے مخالف ہیں وہ برقعے کی حمایت میں ملکہ برطانیہ کی عالی مقام بہو کا بہادرانہ بیان پڑھ کر کتنے ناراض اور آتش زیر پا ہوئے ہوں گے اُس کا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس بی بی کی تعریف میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ع
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے 
مندرجہ بالا سطور میں جن برطانوی اخباروں کا ذکر کیا گیا ہے اُن میں Daily Mail بھی شامل ہے۔ وہ حجاب، نقاب اور برُقعہ کا لاکھ مخالف سہی مگر پھر بھی وہ حق و انصاف اور انسانی حقوق کا اس حد تک احترام ضرور کرتا ہے کہ اُس نے اپنے اداریہ میں برطانوی حکومت کی اُس مجرمانہ خاموشی کی مذمت کرتے ہوئے بڑی سخت زبان استعمال کی ہے جو برطانوی عوام اور خصوصاًصحافیوں کو یہ بتانے کی اجازت نہیں دیتی کہ برطانوی خفیہ جاسوس ادارے (M16 اورM15 ) کے افسروں کو امریکی ایوان بالا ( Senate) کی انٹیلی جنس کمیٹی کے اراکین کو ایک سال کے دوران 24 بار ملنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کمیٹی نے (CIA کی زبردست مخالفت کے باوجود) چھ ہزار صفحات پر مشتمل وہ رپورٹ شائع کر دی ہے، جو اُس نہایت وحشیانہ اور ظالمانہ اور ناقابل بیان تشدد کی تفصیل بیان کرتی ہے جس کا نشانہ امریکی حکومت کے جاسوسی ادارے دہشت گردی میں ملوث لوگو ں یا اُن کے ہمدردوں کو بناتے رہے ہیں۔ ڈیلی میل نے صدر اوباما سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ گوانتا ناموبے کی عقوبت گاہ میں سالہا سال سے تشدد کا شکار ہونے والے آخری برطانوی شہری کو رہا کر دیں۔ اس قیدی کا نام شاکر عمار ہے۔ یہ 46 سالہ سعودی نژاد قیدی چار بچوں کا باپ ہے۔ امریکہ کا قیدی بنائے جانے سے پہلے برطانیہ سے افغانستان (ظاہر ہے کہ طالبان کی مدد کرنے) گیا تھا۔ جہاں سے وہ غیر قانونی طور پر کیوبا کی سرزمین پر بنائی جانے والی عقوبت گاہ لے جایا گیا (جس طرح کراچی کے ایک گھر سے تین چھو ٹے بچوں کے ساتھ ایئر پورٹ جانے والی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون عافیہ صدیقی اغوا کر کے امریکہ لے جائی گئی)شاکر عمار پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ کسی عدالت نے اُسے مجرم نہیں ٹھہرایا مگر وہ 13 دن یا 13 ماہ نہیں بلکہ 13 سالوں سے زیر حراست ہے اور ان سالوں میں اُس پر کیا بیتی ہوگی اُس کا ہم صرف اندازہ لگا سکتے ہیں۔ امریکی سینیٹ نے سی آئی اے کے ایجنٹوں کے ہاتھوں کئے جانے والے تشدد کی جو رپورٹ شائع کی ہے، اُس کے مطابق امریکی حکومت (مقدمہ چلائے بغیر) گرفتار کئے جانے والے قیدیوں کو کیوبا میں بنائی جانے والی عقوبت گاہ سے صرف اس شرط پر رہا کرے گی کہ وہ اپنے ملک واپس جا کر لوگوں سے کوئی میل جول نہ رکھیں۔ بالکل الگ تھلگ ہیں، بلکہ جعلی شناخت کے تحت گمنام رہیں تاکہ وہ کبھی اپنا منہ نہ کھول سکیں۔ نہ امریکی حکومت پر مقدمہ دائر کر سکیں اور نہ ہرجانہ طلب کر سکیں۔ ڈیلی میل کی یہ انسان دوستی اور حق پرستی قابل تعریف ہے کہ اُس نے نرم الفاظ میں نہیں بلکہ پرُزور الفاظ میں مطالبہ کیا ہے کہ امریکی حکومت جائے بھاڑ میں، برطانوی حکومت شاکر عمار کو معقول ہرجانہ ادا کرے تاکہ اُس پرکئے جانے والے مظالم کی کم از کم مالی تلافی تو کی جا سکے۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ جو کالم ہر منگل کو پڑھتے ہیں،اُس میں کسی اچھی کتاب کا ذکر نہ ہو۔ کتاب کا نام ''کپاس کی عالمی تاریخ‘‘ہے جو ہارورڈ یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر Sren Berket نے لکھی اور حال ہی میں شائع ہوئی۔ اٹلانٹک کے دونوں اطراف چوٹی کے ناشرین کو اس کی اشاعت کا اعزاز ملا۔ فاضل مصنف لکھتے ہیں کہ تین ہزار سال قبل مسیح بھی ہندوستان کی وادیٔ سندھ (ہڑپہ اور موہنجوڈرو کے شہراس کے ماتھے کا جھومر تھے) میں سُوت کاتا جاتا تھا اور سوتی کپڑے پہنے جاتے تھے۔ یونانی مورخ Herodotus نے اس سُوت کے اعلیٰ معیار کو تسلیم کیا تھا۔ انگریزی زبان میں کاٹن کا لفظ عربی لفظ قُطن سے نکلا ہے۔ مسلمان حملہ آوروں نے یورپی ممالک کوکپاس اور سوتی کپڑوں سے متعارف کرایا، تو یہ لفظ بھی مشرق سے سفر کر کے مغرب پہنچ گیا۔
برطانیہ میں سوتی کپڑے بنانے والی Flying Shuttle اور Spinning Jenny اور پاور لوم کی تین ایجادات کو اتنا عروج حاصل ہوا کہ 1800ء تک برطانیہ کوسوتی کپڑا بنانے کی صنعت کی دُنیا میں عالمی غلبہ حاصل ہو گیا اور ہندوستان میں یہ صنعت دم توڑ گئی۔ مانچسٹر کا برطانوی شہر کپڑے کی صنعت کا عالمی مرکز بن گیا۔ مگر انیسویں صدی کے آخر تک برطانیہ میں یہ صنعت زوال پذیر ہونا شروع ہو گئی۔ برطانیہ ایک صدی قبل سوتی کپڑوں کی صنعت میں دو تہائی پیداوارکا ماخذ اور منبع تھا۔ 1960 ء کی دہائی کے آخر میں سکڑتے سکڑتے یہ صنعت عالمی پیداوار کے 2.8 فی صد تک گر گئی۔ اب دُنیا میں سب سے زیادہ(29فیصد ) کپاس چین اور دُوسرے نمبر (21فیصد)پر بھارت اور تیسرے نمبر پر امریکہ میں اُگائی جاتی ہے۔ 1995 ء اور 2010 ء کے درمیان پندرہ سالوں میں امریکی حکومت نے اپنے ملک میں (Free Enterprise اور مارکیٹ اکانومی کا ڈھول بجانے کے باوجود)کپاس اُگانے والوں کو 35 ارب ڈالر کی مالی امداد دی۔ پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ وہ جتنی کپاس برآمد کرتا ہے اُس سے زیادہ امریکہ اور بھارت سے درآمد کرتا ہے۔ پاکستان میں کپاس اور سوتی کپڑے کی پیداوار سے وابستہ لوگوں کی کل تعداد ڈیڑھ کروڑ ہے۔ بے حد خراب حکمرانی کی وجہ سے ہماری یہ صنعت بھی تباہی کا شکار ہے۔ (بقول غالب)ہمارے ناخن پر جن نیم باز گرہوں کا قرض ہے، کپاس کے ریشے اُن میں سر فہرست ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں