بلال تنویر، لبنانی ملکہ ترنم اور طارق علی

نیا سال سیاسی زلزلوں سے شروع ہوا۔ سارا فساد پیرس کے ایک جریدے میں توہین آمیزکارٹونوں کی اشاعت سے شروع ہوا۔ عمل اور ردّعمل کی آسان ترین منطق سمجھنے کے لیے راکٹ سائنس کا مطالعہ ضروری نہیں۔ میرے قارئین کا ذہنی سکون 16 دسمبر کو سانحہ پشاور اور وطن عزیز کے ٹوٹ جانے کی برسی سے وابستہ دُکھ بھری یادوں نے تاراج کیا ہو گا۔ سالِ نو کی مبارک سلامت کا شور ابھی تھما نہیں تھا کہ یورپ سے برُی برُی خبروں کا آتش فشاں پھٹ پڑا۔ قرین مصلحت ہے کہ میں دو اور باتیں پہلے کر لُوں۔ 
نہ صرف خوشی بلکہ فخرکا مقام ہے کہ گزشتہ ماہ عالمی ادب کے اُفق پر ایک اور پاکستانی مصنف ستارہ بن کر چمکا۔ نام ہے بلال تنویر۔ میں نہیں جانتا کہ بلال کو وطن عزیز میں کتنی شہرت ملی مگر برطانیہ میں اُس کے نام کا ڈنکا تو ابھی نہیں بجا تاہم اُس کے ناول کی تعریف کی جا رہی ہے۔ ناول کا نام ہے: The Scatter Here Is Too Great برطانیہ اور امریکہ میں بیک وقت شائع ہونے والے اس ناول کے صفحات صرف 197 ہیں۔ ناول کا آغاز کراچی چھائونی کے ریلوے سٹیشن کے باہر ایک بڑے بم دھماکے سے ہوتا ہے۔ ناول کے کرداروں سے مصنف نے جو باتیں کہلائیں وہ کراچی کے مناظر، آوازوں اور لہجوں کو بھی قاری تک پہنچا دیتی ہیں۔ نہ صرف سمندر بلکہ آسمان پر اُڑنے والے پرندوں کا اس طرح ذکر ہے کہ لگتا ہے ہم کوئی فلم دیکھ رہے ہیں۔ یہ میں نے ابتدائی صفحات میں پڑھا ہے۔ باقی صفحات پڑھ بھی لُوں تو شاید کالم کی تنگ دامنی کے باعث اس کا تذکرہ نہ کر سکوں۔ مجھے اُمید ہے، بلال تنویر کا وہ حال نہ ہو گا جو بعض ایسے بڑے ادیبوں کا ہوا‘ جو پہلی کتاب کے بعد دُوسری اتنی اچھی کتاب نہ لکھ سکے۔ پطرس بخاری اس لحاظ سے قابل تعریف ہیں کہ اُنہوں نے مضامین کا صرف ایک مجموعہ شائع کرنے پر اکتفا کیا۔ رشید احمد صدیقی نے ''گنج ہائے گرانمایہ‘‘ کے بعد شاید ہی اتنی بلند پایہ کوئی اور کتاب لکھی ہو۔ یہ کالم نگار چین گیا تو اسے ایک قدیم چینی مفکر کا یہ قول سنایا گیا کہ آپ جتنے بیٹوں کے باپ ہوں،آپ اُتنے ہی درخت اُگانے اور اُتنی ہی کتابیں لکھنے کے پابند ہو جاتے ہیں۔ اب میرا وُہی حال ہے جو غالب کا تھا:
یہ جانتا اگر تو لُٹاتا نہ گھر کو میں
پانچ بیٹوں کا باپ ہوں۔ دو کو گود لیا، اس طرح تعداد سات تک پہنچ جاتی ہے۔ درخت تو میں نے غالباً سات سے زیادہ لگائے ہوں گے مگر کتابیں لکھنے کا کام قرض ہے۔ نیم باز گرہوں کی تعداد زیادہ ہے، کام بڑا اور عمر کم رہ گئی ہے۔ سوچتا ہوں کہ دُوسرے کالم نگاروں کی نقل کرتے ہوئے اگلے سال اپنے کالموں کا مجموعہ شائع کر دوں تو مجھ پر اخلاقی بوجھ سات سے کم ہو کر چھ رہ جائے گا۔ 
ملکہ ترنم میڈم نور جہاں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وہ ہماری بے آب و گیاہ اور ریت کے بگولوں میں لپٹی زندگی میں خوشبودار ہوا کا جھونکا بن کر آئیں۔ ہر ملک کی اپنی اپنی میڈم نور جہاں ہوتی ہے۔ مصرکے پاس اُمّ کلثوم تھی جس کے جنازے میں شریک لوگوں کی تعداد جمال عبدالناصر کے جنازے کے شرکا سے زیادہ تھی۔ بھارت میں یہ مقام شہنائی بجانے والے بسم اللہ خان کو حاصل تھا‘ امریکہ میں Paul Robson کو جو رُوس کے دورے پر گئے تو ان کا استقبال سربراہان مملکت والا ہوا۔ لبنان کی نور جہاں کا نام صباح تھا۔ پچھلے دنوں وہ 87 سال کی عمر میں وفات پا گئیں تو عالم عرب میں صف ماتم بچھ گئی۔ برطانیہ اور یورپ کے تمام اچھے اخباروں میں تعزیت نامے شائع ہوئے۔ گارڈین نے مرحومہ کی دس سال پہلے اُتاری گئی تصویر شائع کی‘ جس میں وہ زرق برق اور آنکھوں کو چندھیا دینے والا لباس پہنے ہوئے تھیں۔ ہماری نور جہاں کی طرح وہ نہ صرف بہت اچھی گلوکارہ تھیں بلکہ دُوسرے درجے کی اداکارہ بھی تھیں۔ درجہ دُوسرا ہو یا تیسرا، فلموں کی تعداد 80 سے زیادہ ہے۔ تین ہزار سے زیادہ گانے ریکارڈ کرائے۔ پیرس، لندن، نیو یارک، سڈنی میں یہ بلبل نغمہ سرا ہوئی۔ لبنان پورے 15 سال خانہ جنگی کی آگ میں جلتا رہا‘ مگر صباح نے ارب پتی لوگوں کے گھروں میں ہونے والی شادی کی تقریبات میں اپنی آواز کا جادو جگانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہماری میڈم نور جہاں کی طرح وُہ بھی بے پناہ دولت کمانے کا ہنر جانتی تھیں۔ وہ اپنے والدین کی تیسری بیٹی تھیں۔ اُن کی پیدائش پر اُن کے غصیلے، بدمزاج اور مردانہ تعصب سے بھرپور عیسائی باپ کا صبر جواب دے گیا کیونکہ وہ بیٹے کی پیدائش کا خواہش مند تھا۔ اُس کی بے قصور بیوی Jeanette Gergis Al-Feghali (یہ صباح کا اصل نام تھا) کی صورت میں تیسری بیٹی کو جنم دے چکی تو ایک دن والدین اُسے دُودھ پلانا بھول گئے؛ چنانچہ وہ رونے لگی۔ یہ آواز اُس کے ایک چچا نے سن لی تو اُس نے اپنے بھائی کو بتایا کہ اس کا لڑکی ہونا نظر انداز کر دو‘ یہ تو روتی بھی سُریلی آواز میں ہے اور بڑی ہو کر اچھی گلوکارہ بنے گی۔ یہ پیش گوئی اتنی سچ ثابت ہو گی، یہ اُس کے چچا کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا۔ 
صباح جوان ہو کر سرمستی کی چکا چوند کرنے والی دُنیا میں قدم رکھنے کی تیاری کر رہی تھی کہ اُسے ایک بڑا صدمہ دیکھنا پڑا‘ جس نے اُسے زندگی بھر کے لیے ذہنی مریض بنا دیا۔ صباح کی ماں کے اُس کے باپ کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوئے تو اُس نے کسی غیرآدمی سے دوستی کر لی اور دوستی بھی ایسی کہ جب اُس کا علم صباح کے چھوٹے بھائی کو ہوا تو اُس نے اپنی ماںکو قتل کر دیا۔ یہ سانحہ صباح کو تیرہ برس کی عمر میں اپنی پہلی فلم میں اداکاری سے نہ روک سکا۔ اس کے پاس لبنان کے علاوہ مصر اور امریکہ کی شہریت بھی تھی۔ صباح نے دس بار شادیاں کیں۔ پہلی شادی کے وقت عمر اٹھارہ برس تھی اور آخری کے وقت 85 برس۔ جب اُن کی عمر 75 برس تھی تو وہ 25 برس کے ایک امیر اور کھلنڈرے نوجوان کے ساتھ ہر شام گزارتیں۔ پاکستانیوں کی طرح عرب بھی مشہور لوگوں کے سکینڈلز میںگہری دلچسپی لیتے ہیں مگر صباح کا رائے عامہ کے بارے میں رویہ ہتک آمیز تھا۔یعنی وہ اُسے جوتی کی نوک پر رکھتی تھیں۔ 
Cause (علت یا دُنیاوی وجہ) اور Effect (معلول یا پیدا ہونے والے اثرات) کا باہمی تعلق اُتنا ہی آسانی سے سمجھایا جا سکتا ہے جتنا عمل اور ردّعمل کا، مگر اس فاش غلطی کا ارتکاب پاکستان، بھارت، یورپ اور امریکہ میں کیا جاتا ہے اور بڑی فراوانی سے کیا جاتا ہے۔ اس کالم نگار کی رائے میں دہشت گردی جہاں بھی ہو وہ عمل نہیں بلکہ ردّعمل کے زمرے میں آتی ہے۔ دہشت گردی کو عمل کہنے والے اتنے کم عقل نہیں کہ وہ حقیقت نہ جان سکیں مگر وہ اتنے سیانے، کاری گر اور شعبدہ باز ہیں کہ کہا جا سکتا ہے۔۔۔۔ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ جس شخص کی جو رائے یا نظریہ یا مسلک جوانی میں ہو، عمر کے آخری حصے میں وہ کٹڑ پن کا درجہ حاصل کر کے ناقابل اصلاح بن جاتا ہے۔ معروف پاکستانی اشتراکی دانشور طارق علی نے یہ کلیہ غلط ثابت کر دیا جو میری طرح اُن کے مداحوں کے لیے حیرت کا باعث بنا۔ اُنہوں نے London Review of Books میں Short Cuts کے عنوان سے اتنا اچھا مضمون لکھا کہ اپنے قارئین سے درخواست کرتا ہوں وہ اسے آن لائن پڑھ سکتے ہوں تو ضرور پڑھ لیں۔ طارق علی نے پیرس میں11 صحافیوں اور تین سپاہیوں کے قتل کی واردات کی ذمہ داری توہین آمیز اور مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے والے خاکے شائع کرنے کے ذمہ دار بدبختوں پر عائد کی ہے۔ 15 جنوری کے روزنامہ گارڈین کے ادارتی صفحہ پر مسلمانوں کے بہترین دوست (بلکہ انسان دوست) اور روشن دماغ صحافیوں کے قبیلے کے سردار Seumas Milne کا مضمون بھی پڑھ لیں۔ عنوان ہی سے مضمون بیان ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔ پیرس کا سانحہ ہمارے لیے خطرہ کی گھنٹی بجا رہا ہے، ہم نے مسلمانوں کے خلاف جو جنگیں شروع کیں، اُن کے ردعمل سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ 
سوچنے کی بات یہ ہے کہ خود کش حملے پہلے کیوں نہیں ہوتے تھے؟ ڈنمارک اور فرانس کے جرائد دس بیس سال پہلے مسلمانوں کی دل آزاری کرنے والے کارٹون کیوں شائع نہ کرتے تھے؟ کیا کارٹون بنانے والے صرف بیس پچیس برس پہلے پیدا ہوئے؟ جواب صاف ظاہر ہے، جس رسالے نے توہین آمیز کارٹون شائع کیے اُس کی پچاس لاکھ کاپیاں چھاپی گئیں جو ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوئیں۔ انہیں حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کے پچاس لاکھ دشمن ساری رات قطار باندھے کھڑے رہے۔ ہمارا دل دُکھانے کے لیے اور ہمارا زخموں سے چُور چہرہ چڑانے کے لیے۔ بھلا ہو جرمنی کی بہادر اور باضمیر خاتون چانسلر Angela Merkel کا جس نے مسلمانوں کا ساتھ دیتے ہوئے کہا اور ڈنکے کی چوٹ پر کہا: Islam Belongs to Germany۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں