یونان میں صبح نو کی اُمید

21 جنوری کی صبح،برطانیہ میں سورج طلوع ہو رہا تھا کہ ان سطور کے راقم کا طیارہ دنیا کے مصروف ترین ہوائی اڈے ہیتھرو کے ٹرمینل پانچ سے اُڑا اور دو گھنٹے بعد مغربی یورپ کے میدانوں، پہاڑوں، جھیلوں اور سمندروں پر پرواز کرتا ہوا، جنوبی یورپ کے کروشیا نامی ملک کے دارالحکومت زاغرب Zaghreb کے مقابلتاً دیہاتی و ضع قطع کے ہوائی اڈے پر اُتر گیا۔ یہ سُطور24 جنوری کو بعد دوپہر لکھی جا رہی ہیں جنہیں آپ وسط فروری میں پڑھیں گے۔ اُس وقت تک یہ پتہ چل جائے گا کہ چند دنوں بعد یونان میں میری دعائوں اور نیک خواہشات کو قبولیت ملے گی یا نہیں؟ کل یعنی 25 جنوری کو یونان کے ہونے والے انتخابات عہد ساز ثابت ہونے کی توقع کی جاتی ہے۔ بائیں بازو کی ایک ترقی پسند اور عوام دوست اور نوزائیدہ سیاسی جماعت بڑی تیزی سے اُبھری ہے۔ جو پرانی دونوں بڑی سیاسی جماعتو ں کی اقتدار پر اجارہ داری کو ختم کر کے ایک نیا روشن باب کھولنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ صرف یونان اور یورپ نہیں بلکہ دُنیا بھر کی نظریں یونان پر جمی ہوئی ہیں۔ کتنا اچھا ہوتا کہ کل میرا ہوائی جہاز مغرب کی بجائے مشرق کی طرف پرواز کرتا تاکہ میں اُس تاریخی سرزمین پر موجود ہوتا جہاں گزشتہ ڈھائی ہزار سالوں کے دوران یونان کمال سے زوال کی طرف لڑھکتا رہا، یہاں تک کہ وہ یورپ کا مرد بیمار بن گیا۔اب اُس کی معاشی بدحالی کا جو عالم ہے وُہ سارے یورپ میں فقید المثال ہے۔ یونان کے مالی بحران کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ( پاکستان کی طرح) وہاں کا امیر طبقہ ٹیکس نہیں دیتا اور (پاکستان کی طرح) قومی خزانہ پر اربوں کھربوں کے غیر ملکی قرضوں کا بوجھ ہے۔ اتنا بڑا بوجھ ہے کہ اُسے اُٹھا کر چلنا تو کجا، یونان کے لئے اپنے پائوں پر کھڑا ہونا بھی ممکن نہیں رہا۔ اہل یونان خوش قسمت ہیں کہ اُن کے دُکھوں کا مداوا اب اُن کی دہلیز تک آپہنچا ہے۔ یونان ہمارے ملک کے مغرب میں ہے۔ اس لئے میں اقبال کے ایک بے مثال مصرع میں تحریف کرتے ہوئے اپنے قارئین کو یہ دوستانہ مشورہ دُوں گا ۔ ؎
مغرب سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
سُورج تو یونان میں طُلوع ہوگا مگر اتنا روشن ہوگا کہ اُس کی کرنوں کی آب و تاب ہمارے نیم تاریک صحن تک بھی آپہنچے گی۔ یونان کی مذکورہ بالا سیاسی جماعت نہ صرف میرے خوابوں کا محور و مرکز ہے بلکہ یونان کے عوام کے ایک بڑے حصہ (خصوصاً نوجوانوں) کی دُکھوں سے نڈھال آنکھوں کا تارا بن چکی ہے۔ وہ اتنی بڑی سیاسی قوت بن چکی ہے کہ وہ انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے برسر اقتدار آجائے تو سبحان اللہ !اگر ایسا نہ ہوا تب بھی وہ انتخابی مہم کے دوران ہی یونان کا سیاسی منظر نامہ اور بیانیہ بدل چکی ہے۔ ایک اور قابل ذکر اور قابل تقلید بات یہ ہے کہ اہل یونان کی خوش قسمتی سے وہاں متناسب نمائندگی کا نظام نافذ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں ہمارے ملک کی طرح ایک حلقہ میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والا کامیاب نہیں ہوتا (چاہے اُس کے ووٹوں کی تعداد کل ڈالے گئے ووٹوں کا بمشکل ایک تہائی یا ایک چوتھائی ہو۔) متناسب نمائندگی کا مطلب یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت کو پارلیمنٹ میں اُسی تناسب میں نشستیں دی جاتی ہیں جتنا کل ڈالے گئے ووٹوں میں اُس کا حصہ ہو۔ دُوسرے الفاظ میں نصف ووٹ لینے والی جماعت کو نصف نشستیں دی جاتی ہیں۔ ایک چوتھائی ووٹ لینے والی جماعت کو ایک چوتھائی نشستیں۔ آپ یقینا سمجھ گئے ہوں گے کہ اُس عوام دوست اور صحیح معنوں میں جمہوری طرز انتخاب میں سارے ملک کو ایک حلقہ تصور کر کے ملک بھر میں ڈالے گئے سارے ووٹ گنے جاتے ہیں اور اُن کی تعداد پارلیمنٹ میں ہر پارٹی کو ملنے والی نشستوں کا تعین کرتی ہے۔
کاہل اور سہل پسند کالم نگار اس لئے آج ہوٹل سے باہر نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا کہ کمرہ گرم اور آرام دہ ہے اور باہر سردی ہے اور ہلکی بارش بھی۔میں لندن سے جس سرکاری وفدکے ساتھ یہاں سرکاری کام کاج کے لئے آیا ہوں اُس کے افراد شہر کی سیر کرنے نکلے تو ٹیکسی میں سوار ہو کر۔اچھا ہوا کہ میں نے گزرے ہوئے تین دنوں میں پیدل چل کر کافی سیر سپاٹا کر لیا۔ کروشیا کے پڑوسی ملک Slovenia بھی گیا ( صرف ڈھائی گھنٹے کا بس کا سفر کر کے)۔ دارالحکومت کا نام لیوب یائناLjubjiana ہے۔ (مقامی زبان میں J کو Y بولا جاتا ہے۔) لفظ بولنے میں اتنا لذیذ لگتا ہے کہ جیسے ہم گلاب جامن کھا رہے ہیں (جو کھانا تو درکنار مجھے سخت گیر برطانوی ڈاکٹروں نے اس کی طرف دیکھنے کی بھی اجازت نہیں دے رکھی ۔) کروشیا اور اُس کا پڑوسی ملک 1990ء تک یوگو سلاویہ کا حصہ تھا۔ وہ بدنصیب ملک 6 سال کی خانہ جنگی کے بعد ٹوٹ گیا تو چھ نئے ملک معرض وجود میں آئے۔ ان چھ میں بوسنیا Bosnia بھی شامل ہے۔ جہاں کی آبادی کا دوتہائی حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان نئے چھ ممالک میں پاکستان کا سفارت خانہ صرف Bosnia میں ہے۔ آج چھٹی کا دن نہ ہوتا تو میں وہاں اپنے سفیر کو ملنے اور اُن کے ساتھ کافی پینے ضرور جاتا۔
یو رپی اخبارات مشرق وسطیٰ کی Geo Political (جغرافیہ سے جڑی سیاست کی) اہمیت کے پیش نظر اس کی خبروں کو وہی اہمیت دیتے ہیں۔ جس کا یہ خطہ مستحق ہے۔ آج برطانیہ ، فرانس ،جرمنی اور اٹلی کے اخبارات نے مصر میں کپاس کی صنعت پر آنے والے اُس بڑے عذاب کا ذکر تفصیل سے کیا،جو کپاس کے لاکھوں کاشت کاروں کو لپیٹ میں لینے والا ہے۔ ہزاروں سالوں سے وادیٔ نیل میں کپاس کے کسان اپنی پیداوار پر بجا طور پر فخر کر تے تھے کہ وہ اپنے لمبے ریشے کی وجہ سے دُنیا کی بہترین کپاس سمجھی جاتی تھی۔ خبروں کے ساتھ شائع تصویروں میں حجاب اوڑھے کسانوں کی محنتی بیٹیاں، بہنیں اور بیویاں کپاس چنتی اور ٹوکریوں میں اکٹھی کرتی نظر آتی ہیں۔ مصر میں کپاس کل تین لاکھ فدان Feddans (ایک لاکھ چھتیس ہزار ہیکٹرز۔ میں نہیں جانتا کہ ان کے ایکڑ کتنے بنتے ہیں) بیس سال قبل مصر میں چار لاکھ ٹن کپاس اُگائی جاتی تھی جو اب گھٹتے گھٹتے ایک لاکھ ستائیس ہزار ٹن تک آگئی ہے۔ اب ناتواں اُونٹ پر جو آخری تنکا کمر توڑ ثابت ہو رہا ہے وہ ہے کپاس کے کسانوں کو سرکاری امداد (Subsidy) کا خاتمہ۔ اس امداد کے خاتمہ کے بعد کپاس کی کاشت غیر منافع بخش بن جائے گی جس کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ مصری زراعت کی سب سے جانی پہچانی اور مایہ ناز افتخار پیداوار صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا حقیقی خطرہ پیداہو جائے گا۔ اس بڑے بحران کی تین وجوہات ہیں: اول، مصری حکومت کی مالی کمزوری۔ دوم، عالمی منڈی میں کپاس کی قیمت میں کمی ۔ سوم ،کپڑا بنانے والی فیکٹریوں کا بڑے ریشہ کی مصری کپاس کی بجائے چھوٹے ریشہ والی کپاس کو ترجیح دینا۔ تیسری اور آخری وجہ پاکستان میں کپاس اُگانے والوں کے لئے اچھی خبر ہے۔
غالباً میرے قارئین کے علم میں ہوگا کہ افغانستان کے نئے صدر اشرف غنی کو،جو امریکی دبائو کے تحت پاکستان سے دوستی کا رشتہ قائم کرنے میں سنجیدہ نظر آتے ہیں، اپنی کابینہ بنانے میں تین گھنٹے یا تین دن یا تین ہفتے نہیں بلکہ تین ماہ سے بھی زیادہ وقت لگا۔ ابھی کابینہ کے ارکان کے اعلان کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ ایک برُی خبر نے سارا مزا کرکرا کر دیا۔ یورپی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق عالمی پولیس انٹرپول کو افغان کابینہ کے وزیر زراعت محمد یعقوب حیدری گرفتاری کے لئے مطلوب ہیں ۔ان پر پچاس ہزار ڈالرٹیکس چوری کرنے اور دھوکہ دہی کے ذریعہ شمال یورپ کے ملک ایسٹونیامیں بہت بڑی رقم چھپانے کا الزام ہے۔ حیدری نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک بہت بڑے کاروبار کے مالک ہیں جو ہر ماہ بیس لاکھ ڈالر ٹیکس دیتا ہے۔ اُنہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ ٹیکس کس ملک میں ادا کرتے ہیں ؟ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ پچاس ہزار ڈالر ٹیکس چُرانے کا الزام نہ صرف بے بنیاد اور مضحکہ خیز ہے بلکہ اس لحاظ سے توہین آمیز بھی کہ وہ اُس سے چالیس گنا رقم ہر ماہ بطور ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اشرف غنی کے سب سے بڑے حریف عبداللہ اس خبر سے کوئی زیادہ پریشان نہیں ہوں گے ؛ کیونکہ یعقوب حیدری کا نام اشرف غنی نے پیش کیا تھا اور وُہ اس کے وفا دار ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں