گوانتاناموڈائری

برطانوی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اراکین کی کل تعداد بارہ سو کے قریب ہے۔ اُن میں سب سے بڑے عوام دوست، روشن دماغ اور امریکی سامراج کے مخالف کا نام ہے، جیریمی کاربن (Jeremy Corbyn)۔ کئی سال پہلے میں اُن کے ساتھ کراچی میں ہونے والے ورلڈ سوشل فورم کے اجلاس میں شریک ہوا تھا۔ میں ہر سال اُنہیں ملنے ایک دن ضرور پارلیمنٹ جاتا ہوں تاکہ میں اپنے جوش و جذبہ اور ایمان کو تازہ کر سکوں۔ اُنہوں نے 21 جنوری کے گارڈین میں خط لکھ کر اپنا غیر رواجی نقطہ نظر پیش کیا کہ جب تک دہشت گردی کی وجوہ کو نہیں سمجھا جاتا، ہم اُس کا قلع قمع کرنے میں ناکام رہیں گے۔ وہ عراق پر ہر جارحانہ حملے کے خلاف جدوجہد کرنے والی عوامی اور انقلابی تنظیمStop the War Coalition کے رہنما ہیں، جس کے بارے میں سانحہ پیرس کے بعد گارڈین کے ایک کالم نگار Freedum نے لکھا کہ دہشت گرد مذکورہ بالا امن پسند تنظیم کا مسلح بازو ہیں۔جیریمی اور اُن کے ساتھیوں کی رائے میں مغربی سامراجی ممالک کی اسلامی ممالک پر جارحیت نے دہشت گردی کو جنم دیا ہے۔ مناسب ہوگا کہ اِن کی بات کو بڑھاتے ہوئے اُس دل دہلا دینے والی کتاب کا ذکر کیا جائے جو آج شائع ہوئی ہے۔ اس کا نام ہے Guantanamo Diary ۔ لکھنے والے کا نام محمد صلاحی (Salahi ) ہے۔ کتاب اُس رُسوائے زمانہ عقوبت گاہ میں ایک بے گناہ پر سالہا سال کئے جانے والے مظالم کی وہ داستان بیان کرتی ہے ،جسے بے ہوش ہوئے بغیر پڑھنے کے لئے ایک مضبوط دل درکار ہے۔
کتاب پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ صلاحی یقینا اُس قسم کا نوجوان ہے جو مغربی ممالک کے جاسُوسی ادارہ کی دلچسپی کو اپنی طرف جلد یا بدیر ضرور منعطف کرتا ہے۔ اُس کی زندگی کے واقعات اور سرگرمیاں مقناطیسی کشش کا باعث بنتی ہیں۔ وہ شمال مغربی افریقہ کے صحرائی ملک (مراکش کے پڑوس میں) ماریطانیہ میں پیدا ہوا۔ وہ 1991ء میں القاعدہ میں اُس وقت شامل ہوا جب یہ گروپ افغانستان میں اشتراکی حکومت سے برسر پیکار تھا اور امریکی حکومت کی آنکھ کا تارا اور راج دُلارا تھا۔ وہ صرف ایک برس بعد افغانستان سے چلا گیا۔ اُس کے بیان کے مطابق وہ القاعدہ سے برگشتہ ہو کر اپنی ہر قسم کی وابستگی اور رشتوں کو مکمل طور پر ختم کر کے جرمنی چلا گیا اور کچھ عرصہ کینیڈا میں رہا۔ اپنے گھر سے نو برس کی غیر حاضری کے بعد وہ ماریطانیہ واپس جا رہا تھا کہ راستے میں مغربی افریقہ کے ایک ملک Senegal میں گرفتار کر لیا گیا۔ یہ گرفتاری امریکی حکام کی ہدایت پر کی گئی جن کے خیال میں صلاحی اُس سازش کا حصہ دارتھا جو عام طور پر Millenium Plot کے نام سے مشہور ہے، جس کے مطابق کیلی فورنیا کے شہر Los Angeles کے ہوائی اڈہ کو بم دھماکوں کا نشانہ بنانا تھا۔امریکی حکام کو صلاحی کے خلاف کوئی ایسی شہادت نہ ملی جو اس کی مذکورہ بالا سازش میں شرکت کو ثابت کرتی مگر وہ صلاحی کو گہرے شک کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔ گیارہ ستمبر2001 ء کو نیو یارک ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کے بعد امریکی حکام کی صلاحی میں دلچسپی بڑھ گئی۔ ماریطانیہ کی پولیس صلاحی کو یہ کہہ کر تھانے لے گئی کہ اُس سے معمولی پوچھ گچھ کی جائے گی اور اُسے جلد رہا کر دیا جائے گا۔ چنانچہ اُسے بالکل فکر نہیں کرنا چاہئے۔ آٹھ دنوں کی تفتیش کے بعد (آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کن حالات میں کی گئی ہوگی) اُسے اُردن بھیج دیا گیا جہاں قیدیوں پر تشدد کے مراکز پہلے سے سرگرم عمل تھے۔ یہاں آٹھ ماہ کی تشدد بھری قید کے بعد اُس کی آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھی گئی ، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور امریکی فضائیہ کے جہاز پر کیوبا میں مذکورہ عقوبت گاہ کی طرف پرواز (جسے ہر لحاظ سے اغواء کی مجرمانہ واردات کہا جا سکتا ہے)۔ وہ دن اور آج کا دن۔ صلاحی اُسی جگہ ہے۔ بارہ سالوں سے وہاں ہے اور نہ معلوم کب تک رکھا جائے گا۔
صلاحی کی یہ ڈائری (روز مرہ کے واقعات کو تاریخ وار لکھا گیا ہے) 2005 ء میں لکھی گئی جب عقوبت خانہ کے افسران اس قیدی کے تعاون کی اُمید پر اُسے قلم اور کاغذ دینے پر رضا مند ہو گئے تھے۔ اس کتاب کا ہر صفحہ اور ہر صفحہ کی ہر سطر اور ہر سطر کا ہر لفظ تشدد اور بے حد ظالمانہ سلوک اور امریکی آئین میں انسانی حقوق کے بارے میں لکھی ہوئی ہر ضمانت کی بدترین خلاف ورزی کی ایسی داستان بیان کرتی ہے ،جس کے بعد پڑھنے والے کو اپنے آپ کو انسان کہلانے پر شرم محسوس ہوتی ہے۔ کتاب لکھنے اور اشاعت میں سات سال کا عرصہ اس لئے حائل ہوا کہ امریکی حکومت اس کی اشاعت کی اجازت کسی طور پر نہ دیتی تھی۔ سات سال قانونی جنگ لڑنے اور اس میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد شاید اشاعت کی نوبت کبھی نہ آتی، اگر امریکی پارلیمنٹ کا ایوان بالا (Senate) امریکی حکام کے ہاتھوں وسیع پیمانہ پر کئے جانے والے تشدد کی پانچ ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی رپورٹ شائع نہ کر دیتا۔ صلاحی کی خود نوشت اس رپورٹ کی تصدیق کرتی ہے اور اس لحاظ سے رپورٹ میں بیان کر دہ بے حد تکلیف دہ واقعات کو دہراتی ہے۔
حیرت کا مقام ہے کہ طویل قید کے دوران صلاحی نے اتنی اچھی انگریزی سیکھ لی کہ وہ مسلسل کئی کئی دن اور رات سونے کی اجازت نہ دیئے جانے، مسلسل جاگتے رہنے کا عذاب دیئے جانے، زنجیروں سے فرش(برفانی سِلوں سے بنائے ہوئے فرش) کے ساتھ باندھ دیئے جانے کو بہت اچھی طرح بیان کرتا ہے۔ اُس کی ڈائری پڑھنے سے یوں لگتا ہے کہ ہم آہنی سلاخوں کے ساتھ اپنا چہرہ لگائے ہوئے اس بدنصیب نوجوان پر ڈھائے جانے والے عذاب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ صلاحی کو سمندر کا کھارا پانی زبردستی پلایا جاتا۔ اُس پر جنسی حملے بھی کئے گئے (اس کارروائی کے لئے خواتین کی خدمات حاصل کی گئیں)۔ اُسے نقلی پھانسیاں بھی دی گئیں۔ اُس کا چہرہ بار بار آہنی جنگلوں کے اُوپر پورے زور سے مارا جاتا تھا۔ مار پیٹ تو روزمرہ کے معمولات کا حصہ تھی۔ اُس کا کوئی حد و حساب نہ تھا۔ صلاحی کو یہ دھمکی دی جاتی تھی کہ اگر اُس نے اپنے جرائم (جس کا اس بے چارے نے ارتکاب نہ کیا تھا) کا اعتراف نہ کیا تو اُس کی والدہ کو بھی اغواء کر کے اُس عقوبت خانہ میں لایا جائے گا تاکہ اُس کی اجتماعی عصمت دری کی جا سکے۔ اتنے سالوں میں اتنا تشدد بھی صلاحی کو کچھ بولنے پر مجبور نہ کر سکا۔ صلاحی کا ذہن اس برُی طرح متاثر ہوا کہ مکمل خاموشی کے دوران بھی اُسے چیخوں کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ تشدد نے اُسے ذہنی مریض بنا دیا اور آخر کار وہ اپنے اُوپر تشدد کرنے والوں کو ہر وہ بات بتاتا تھا جو وہ سُننا چاہتے تھے مگر اُس کا سچائی سے دُور کا واسطہ نہ ہوتا تھا۔ تفتیش کرنے والے صلاحی سے 2003 ء میں سرگرم عمل دہشت گردوں کے بارے میں بارہا سوال کرتے تھے،حالانکہ وہ جانتے تھے کہ صلاحی 2001 ء سے اُن کی قید میں ہے۔ یہ کتاب اس لحاظ سے بے مثال ہے کہ ہر صفحہ پر کئی کئی سطورمیں کئی کئی الفاظ پر کالی سیاہی پھیر کر اُنہیں مٹا دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ امریکی حکومت کی سنسر شپ کی شکار ہوئیں۔ کتاب پڑھتے وقت مجھے ڈیرہ غازی خان میں اپنی دسویں جماعت کی پڑھائی یاد آئی جب مجھے جملوں میں خالی جگہ پرُ کرنے کا مشکل فن سکھایا گیا۔ اُس وقت یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ میری ساری ساری زندگی خالی جگہیں پرُ کرتے گزر جائے گی۔ ایک عمر بیت گئی مگر خالی جگہیں اتنی زیادہ ہیں کہ پرُ نہ ہو سکیں۔ اس مسکین کالم نگار کا تو کیا ذکر۔ غالب جیسا بڑا شاعر بھی اس ذہنی عذاب سے نہ بچ سکا۔ غالب کا کام خالی جگہوں کو پرُ کرنے سے بھی زیادہ مشکل تھا اور وہ تھا ادھ کھلی گانٹھوں کو اپنے ناخنوں سے کھولنا اور ناخن بھی وہ جو کثرت استعمال سے گھس چکے تھے۔ بقول غالب ؎
کاوش کا دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز
ناخن پہ قرض اُس گرہ نیم باز کا
غالب اس بے چارگی کے عالم میں ناخن سے اپنی توجہ ہٹا کر اُنگشت حنائی کے خیال سے اپنا دل بہلاتے ہوئے اتنی دُور چلے گئے کہ اُن کے دل سے یہ خیال نکالنا اپنے (بادہ نوشی سے سیراب کیا جانے والا) گوشت سے اپنا (گھسا ہوا) ناخن جدا کرنے کے مترادف ہوگیا۔ خالی جگہوں کو پرُ کرنے میں ناکام ہو جانے والا یہ کالم نگار اور زیادہ مشکل کام کرنے سے تو رہا۔ اُس کی معذرت قبول فرمایئے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں